امریکی معیشت اب تک پوری طرح بحال نہیں ہوسکی ہے۔ یورپ میں بھی مالیاتی نظام کی خرابیاں سب پر آشکار ہیں۔ یورپی معیشتیں بڑے پیمانے پر قرض کا بوجھ سہارنے کی پوزیشن میں نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ایسے میں تجزیہ کاروں کی توجہ امریکا اور یورپ کی معیشتوں کو بہتر بنانے سے زیادہ چین کی کرنسی پر مرکوز ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سالانہ اجلاس میں بھی اسی پر بحث متوقع ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان نے ایک بائی پارٹیسن بل منظور کیا ہے جس کا بنیادی مقصد چین پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ اپنی کرنسی کی قدر میں اضافہ کرے۔ چین پر ایک الزام یہ ہے کہ اس نے اپنی کرنسی کو غیر معمولی حد تک انڈر ویلیو کر رکھا ہے جس کی بدولت اسے برآمدی آرڈر بڑے پیمانے پر ملتے ہیں اور دوسری جانب امریکا اور یورپ کی معیشتوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان کے لیے اب برآمدی منڈی میں مسابقت کے قابل رہنا ممکن نہیں رہا۔ امریکی وزیر خزانہ ٹموتھی گیتھنر نے بھی آئی ایم ایف پر زور دیا کہ چین پر کرنسی کی قدر بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ امریکا کا پیغام واضح ہے کہ چین اپنی کرنسی کی قدر کم رکھ کر برآمدی منڈی اپنے نام کر رہا ہے اور اس کی قیمت امریکا کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا سالانہ اجلاس امریکا اور چین کے درمیان کرنسی کے حوالے سے میدان جنگ میں تبدیل ہوا۔
کرنسی کی قدر گھٹاکر چین نے برآمدات کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے۔ ان کے زر مبادلہ کے ذخائر ڈھائی ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کے ہیں۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کاری بڑھتی جارہی ہے۔ چین اب امریکا کو قرض دینے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ امریکیوں کو اس بات کا بھی شکوہ ہے کہ چینی اب بھی صرف کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ امریکی تو جی بھر کے خرچ کرتے ہیں مگر چینی ایسا نہیں کرتے۔ وہ جو کچھ کماتے ہیں اس کا ایک معتدبہ حصہ بچاتے ہیں۔ دو سال قبل عالمی معیشت میں رونما ہونے والی خرابی اب تک مکمل طور پر دور نہیں کی جاسکی ہے۔ چین کا رویہ بھی اس معاملے میں مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی معیشت کو مستحکم کرنا مقصود ہے تو لازم ہے کہ چین اپنی کرنسی کی قدر میں غیر معمولی اضافہ کرے جو بیس سے چالیس فیصد تک ہونا چاہیے۔ چین کو غیر معمولی سطح پر ’’فیوریبل‘‘ پوزیشن سے نکالنے کے لیے کرنسی کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت امریکی سیاست میں بھی ایک بڑا اشو ہے۔ انتخابی امیدواروں نے بھی چین کے خلاف اشتہارات چلانے سے گریز نہیں کیا۔ چین نے دس برسوں کے دوران دس فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے اور اپنی کرنسی کو غیر معمولی سطح پر ڈی ویلیوڈ رکھ کر اس نے افراط زر میں اضافے کی شرح کو بھی قابو میں رکھا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس بحران سے کب دوچار ہوئے، اس مخمصے میں کب الجھے؟ یہ کہنا کہ امریکا نے اپنے معاشی بحران کو خود پیدا نہیں کیا، حقائق سے انکار کے مترادف ہے۔ اس نوعیت کی سوچ تو سیاہ کو سفید قرار دینے ہی کی کوشش ہے۔ ہم نے جو کچھ بھی غلط کیا ہے اس کی ذمہ داری سے انکار کرتے آئے ہیں۔ امریکا میں سستی مصنوعات کی مارکیٹ پنپتی گئی ہے اور چین سے درآمدات میں اضافہ ہوتا گیا ہے۔ ہم نے سستی لیبر کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے ۱۹۷۰ء میں جاپان اور تائیوان، ۱۹۹۰ء میں میکسیکو اور ۲۰۰۰ء میں چین سے تارکین وطن کو آنے دیا۔ اس کا جو نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے وہی تو ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ امریکی اور یورپی اداروں نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے کاروبار خطے سے باہر منتقل کیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ بیشتر کام مشینوں سے لیا جائے اور انسانی وسائل کی ضرورت کم سے کم پیش آئے۔ مگر ہم تمام امور کو نظر انداز کرکے صرف چین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ آج بھی ہمیں اپنے تمام مسائل کی جڑ میں چینی کرنسی دکھائی دے رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم چین کے معاملے میں شدید عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں اور میڈیا نے بھی صورت حال کو پیچیدہ تر کردیا ہے۔ چین کے پاس جو کھربوں ڈالر پڑے ہیں وہ کس کے لیے ہیں؟ امریکا کے لیے، قرضوں کی شکل میں۔ اور چین میں تیار ہونے والی اشیاء کون استعمال کرتا ہے؟ امریکی، اور کون؟ اگر چینی ادارے نہ ہوں تو امریکی کمپنیوں کو بھی منافع کمانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ امریکی ادارے کیٹر پلر اور نائک نے اپنے مینوفیکچرنگ یونٹس چین منتقل کردیے ہیں۔ مگر ان کی مصنوعات کی بڑی منڈی بھی تو چین ہی ہے۔ چین میں آمدنی کا گراف بلند ہو رہا ہے اور لوگ پہلے سے کہیں زیادہ خرچ کرنے لگے ہیں۔
جارج سوروس نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ کرنسی کی جنگ دنیا کو ۱۹۳۰ء کے معاشی بحران سے زیادہ خطرناک صورت حال سے دوچار کرسکتی ہے۔ ان کی بات درست ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں، چاہیں یا نہ چاہیں، ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں سب کچھ آپس میں جڑا ہوا ہے۔ چین کی کرنسی کو شک یا خوف کی نگاہ سے دیکھنا اور اسے ہر حال میں پچھاڑنے کی سوچ کو پروان چڑھانا کسی بھی اعتبار سے مثالی بات نہیں۔
چین کی معیشت بہت سے معاملات میں جامع نہیں۔ اس کی خامیاں بھی سب پر عیاں ہیں۔ لیکن ہر معاملے میں چین کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور درست نہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہم دنیا سے نظر ملانے سے کترا رہے ہیں۔ چین کو کرنسی کی قدر میں کمی پر آمادہ کر بھی لیا جائے تو اس سے امریکا میں نئی جابس پیدا کرنا ممکن نہ ہوگا۔ امریکی معیشت کے مختلف شعبوں کو نئی زندگی دینے کے لیے دیگر بہت سے اقدامات ناگزیر ہیں۔ مینوفیکچرنگ اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں جان ڈالنے کے لیے امریکیوں کے مزاج کو بدلنا ناگزیر ہے۔ معیشت کو نئی زندگی دینے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے وسائل کی حدود میں رہنا سیکھیں۔ بعض شعبوں میں اجرتوں کا گراف نیچے لائے بغیر مزید جابس پیدا کرنا ممکن نہیں۔
ہم چاہیں تو چین کو جھکانے کی کوشش کرسکتے ہیں مگر اس سے کچھ خاص فائدہ نہ ہوگا۔ اپنے مسائل ہمیں اپنے ہی طور پر حل کرنے ہوں گے۔ ہم ایک عظیم قوم ہونے کے دعویدار ہیں۔ ہمارے اقدامات بھی ایسے ہی ہونے چاہئیں۔ چین یا کسی بھی دوسری طاقتور معیشت سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے ہمیں اپنی کمزوریوں سے سیکھنا ہوگا۔ اگر اصولوں سے ہٹ کر کچھ کیا گیا تو عالمی معیشت شدید بحران سے دوچار ہوگی۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ ۲۵؍اکتوبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply