چند ہفتوں کے دوران مغربی تھنک ٹینک، پالیسی حلقے اور میڈیا میں اس حوالے سے گرما گرم بحث ہوتی رہی ہے کہ صدر ہو جنتاؤ کی جگہ شی جنپنگ، وزیر اعظم وین جیاباؤ کی جگہ لی کی کیانگ اور ۹ رکنی اسٹیٹ کونسل میں بیشتر نئے ارکان کے آنے پر چین آئندہ عشرے کے دوران کس سمت جائے گا اور کس نوعیت کی سفارتی یا اسٹریٹجک مہم جوئی پسند کرے گا۔
مغربی میڈیا، جیسا کہ ان کی عادت ہے، چین کی قیادت میں تبدیلی اور اندرونی اختلافات، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں، تیز رفتار ترقی سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات، علاقائی ممالک اور بالخصوص پڑوسیوں سے تنازعات اور بیرونی سرمایہ کاری کے استحصال کے حوالے سے رپورٹس شائع کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
بیجنگ میں حال ہی میں نیشنل پیپلز کانگریس اور سی پی سی سی کے سالانہ سیشنز کے موقع پر موجودہ اور سابق اعلیٰ افسران سے گفتگو میں چین کی خارجہ پالیسی اور اسٹریٹجک اپروچ کے حوالے سے مختلف اور واضح نکات سمجھنے کا موقع ملا۔
چین کی قیادت سب سے زیادہ اہمیت اس نکتے کو دیتی ہے کہ ترقی کا سفر جاری رہے اور معاشی استحکام میں پریشان کن کمی واقع نہ ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ صرف خام قومی پیداوار بڑھانے پر توجہ نہ دی جائے بلکہ ترقی کے ثمرات معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ معاشی نمو کی شرح ۵ء۷ فیصد رکھنے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بنیادی ڈھانچے میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کے ساتھ ساتھ اندرونی سطح پر صرف بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ صحت عامہ، تفریحی سرگرمیوں اور سماجی خدمات کی فراہمی کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بیشتر ساحلی علاقوں میں بنیادی ڈھانچا مضبوط ہے اور اب حکومت بنیادی ڈھانچے سے متعلق بیشتر سرگرمیوں کو اندرون ملک اور بالخصوص مغربی علاقوں میں منتقل کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔
کمتر معیار کی اشیاء زیادہ مقدار میں برآمد کرنے پر اعلیٰ معیار کی اشیا کی برآمدات بڑھانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ چین میں افلاس کی سطح گر رہی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں متوسط طبقے کا حصہ بنتے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف اشیائے صَرف کی طلب بڑھ رہی ہے۔ یہ صورت حال چین کی درآمدات میں اضافے کا باعث بھی بنے گی۔ بیرونی تجارت پہلے ہی اچھی خاصی اوپن ہے۔ عالمی پارٹنرز سے معاملات طے کرکے اسے مزید اوپن کیا جائے گا۔ چینی حکومت مالیاتی شعبے کو بھی بتدریج آزاد کرنا چاہتی ہے تاکہ کاروباری معاملات تیزی سے طے پائیں اور معیشت کو اہداف کے مطابق فروغ دیا جاسکے۔
چینی حکومت اب رائے عامہ کو مانیٹر کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عوام کرپشن، سرکاری افسران کے سخت گیر رویے اور سماجی و معاشی نا انصافی کے معاملات کو نمایاں کرکے پیش کر رہے ہیں۔ بلاگز میں بھی بہت کچھ بیان جارہا ہے جو معاشرتی سطح پر بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ چین میں رائے عامہ غیر معمولی حد تک قوم اور وطن پرست ہے۔ حکومت اس امر کا خاص اہتمام کرتی ہے کہ لوگ ہر حال میں وطن سے وفادار اور اس معاملے میں جذباتی رہیں۔ قومی مفادات کو ہر حال میں دیگر امور پر ترجیح دینے کی روش پر گامزن رہنا پسندیدہ ترین فعل تصور کیا جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب چین اور تائیوان کے درمیان تعلقات غیر معمولی حد تک کشیدہ تھے۔ اب تائیوان کی علیحدگی کو مرکزی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔ تائیوان سے تجارتی اور سیاحتی تعلقات کو بھی نمایاں حیثیت دی جارہی ہے۔ چینی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے کہ تائیوان سے تعلقات کشیدہ رہے تو بیرونی قوتوں، بالخصوص امریکا کو نمایاں طور پر کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا۔ سنکیانگ اور چین میں پرتشدد واقعات کے حوالے سے چین میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے اور رائے عامہ ان معاملات پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ سنکیانگ اور تبت میں شورش کے لیے بیرونی عناصر کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ تبت میں گڑبڑ کے لیے دہلی میں مقیم دلائی لاما کی نگرانی اور معاونت سے کام کرنے والے مغرب نواز تبتیوں کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے جبکہ سنکیانگ میں سرگرم ایسٹ ترکستان لبریشن موومنٹ کے ارکان کے بارے میں خیال پایا جاتا ہے کہ انہیں مغربی پاکستان کی سرحدوں سے مدد مل رہی ہے، جن کی مکمل نگرانی پاکستانی یا چینی فوج کے لیے قابل عمل نہیں۔ تبت اور سنکیانگ کی صورت حال کے حوالے سے تشویش ضرور پائی جاتی ہے تاہم ان میں سے کسی بھی بحران کو چین کے وجود کے لیے خطرہ نہیں گردانا جاتا۔
چینی قیادت مجموعی طور پر خاصے پرامن ماحول میں ملک کو آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ امریکا یا کسی اور ملک سے تصادم کی پالیسی پر گامزن رہنے کو قابل عمل نہیں سمجھا جاتا۔ چین چاہتا ہے کہ معاشی تعلقات بہتر بناکر، اشتراکِ عمل کے ذریعے پیش رفت یقینی بنائی جائے اور کسی بھی تنازع میں غیر ضروری طور پر الجھنے سے گریز کیا جائے۔ چینی قیادت سمجھتی ہے کہ معاشی تعلقات مستحکم رکھنا ہی اس کے اور مغرب کے مفاد میں ہے۔ چینی قیادت کی سوچ یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے چین اور مغرب ایک دوسرے پر انحصار کریں گے تو ایک دوسرے کو مستحکم بھی کریں گے۔ امریکا اور یورپ کو معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے چین جیسے فاضل سرمایہ رکھنے والے ممالک سے اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔
چین میں مالیات اور تعمیرات کا شعبہ غیر معمولی حد تک مضبوط ہے۔ وہ امریکا میں بنیادی ڈھانچے کی تشکیل نو میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ چین میں زرمبادلہ کے ذخائر تین ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہیں۔ امریکا اور یورپ کے ٹریژری بلز کی بڑی تعداد چین نے خرید رکھی ہے۔ اس حوالے سے کوئی بھی ناموافق فیصلہ پورے مغرب کے مالیاتی نظام کو تہس نہس کرسکتا ہے۔ امریکا اور یورپ کے بیشتر بڑے کاروباری اداروں کو اس وقت مائع سرمائے کی اشد ضرورت ہے۔ چین کی سرمایہ کاری مغرب کی معیشت کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔ چین کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ یہ مالیاتی اور معاشی نظام یونہی چلتا رہے۔
امریکا اور یورپ معاشی میدان میں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اور چین کے ساتھ بھی مل کر چلنا چاہتے ہیں مگر چین میں بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسٹریٹجک حوالے سے مغرب اور بالخصوص امریکا نے جب بھی چین کی کوئی کمزوری دیکھی ہے، اُس کا استحصال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ امریکا جنوب مشرقی ایشیا اور اوشیانا کے خطے میں مختلف ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھا رہا ہے۔ آسٹریلیا اور میانمار سے امریکا کا بڑھتا ہوا دفاعی اشتراکِ عمل اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ چین کی سمندری حدود کا تعین اور مشرقی ایشیا میں امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کی کوششیں امریکا میں شک کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کا دفاعی بجٹ آج بھی چین کے دفاعی بجٹ سے سات گنا ہے اور اس کی بحریہ کا ۷۰ فیصد عملہ ایشیا و بحرالکاہل میں تعینات ہے۔ افریقا اور دیگر خطوں میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پر بھی امریکا اور یورپ کو اعتراض ہے۔ لیبیا اور شام کے بحران کے حوالے سے چین اور عرب دنیا کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کی بھی امریکا نے بھرپور کوشش کی ہے۔ مغرب ایک طرف تو چین کی برآمدات گھٹانے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف جدید ترین ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی قدغن لگائی جارہی ہے۔
چین اور پاکستان ہر قسم کی صورت حال میں ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں۔ دونوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی دوستی ہر حال میں برقرار رہے گی۔ تجارت اور دفاع میں بھی دونوں کا اشتراکِ عمل مثالی رہا ہے۔ بہت سی چینی کمپنیاں پاکستان میں بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے والے منصوبے مکمل کرنے میں جُتی ہوئی ہیں۔ ان منصوبوں کے لیے خاصی کم شرح سود پر قرضے بھی چین ہی نے فراہم کیے ہیں۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ چین کو یقین دلائے کہ وہ خطے کے ان ممالک کے اتحاد میں شامل نہیں ہوگا جو چین کا محاصرہ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
پاکستان اور چین کے درمیان تجارت خاصی محدود ہے۔ پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے ہاں بیشتر اہم منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری یقینی بنائے اور ساتھ ہی منصوبوں کی تکمیل کے حوالے سے نوکر شاہی کی پیدا کردہ رکاوٹیں جلد از جلد دور کرے۔ ان دونوں معاملات کو فوری ترجیح کا درجہ ملنا چاہیے۔
پاکستان اور چین کے درمیان اَقدار کا فرق ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا بہت ضروری ہے۔ چین میں قومی شناخت کی بہت اہمیت ہے اور قومی مفادات پر ہر شے قربان کردی جاتی ہے۔ چینیوںکو یہ بات سمجھانا دشوار ہے کہ کوئی قوم اپنے معاشی معاملات پر مذہبی امور کو کیوں کر ترجیح دے سکتی ہے۔ سنکیانگ میں ترک نسل کے مسلمانوں کی علیحدگی کی تحریک کو پاکستان میں موجود عناصر کی حمایت حاصل رہی ہے۔ پاکستان کی حکومت چین کو یہ بات سمجھانے میں دشواری محسوس کرتی ہے کہ وہ سنکیانگ کے مسلمانوں کو کچلنے میں چین کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
بھارت بیشتر معاملات میں چین سے برابری کا سوچتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس سے مقابلے کی سوچتا ہے۔ یہ بات چینیوںکو بری لگتی ہے مگر اس کے باوجود بیشتر چینی باشندے کاروبار پر پوری توجہ دینے اور معیار پر سمجھوتہ نہ کرنے کے حوالے سے بھارتیوں سے معاملات پسند کرتے ہیں۔ پاکستان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اسلامی شدت پسندی یونہی پنپتی رہی تو چین کے لیے محض بھارت کو خطرہ سمجھنے کی روش پر گامزن رہنا دشوار ہوگا۔
(مصنف اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مندوب ہیں)
(“China Outlook”… Daily “Dawn”. March 18th, 2012)
Leave a Reply