’’چین اور عالم اسلام کا اتحاد‘‘ دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے!

گزشتہ صدی کی نویں دہائی میں ’’اکانومسٹ‘‘ میگزین نے ایک خصوصی سپلیمنٹ شائع کیا تھا، جس میں دنیا کی پالیسیوں اور بدلتے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے پیش گوئی کی گئی تھی کہ اکیسویں صدی میں دنیا کا مستقبل کیا ہوگا۔ مختلف سیاسی نظریوں میں سے ایک کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ اس صدی کے وسط تک عالم اسلام اور چین کے درمیان ایک وسیع تر تاریخی اتحاد قائم ہوسکتا ہے اور یہ قوتیں مل کر مغربی طاقتوں کے مقابلہ کے لیے ایک زبردست فوج تیار کرسکتی ہیں۔ اس اتحاد کے اندر وسطی ایشیا کے ممالک اور ترکی و پاکستان کا اہم رول ہوگا اور چین ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوگا، ان کی فوجی طاقت اتنی زبردست اور عددی قوت اتنی زیادہ ہو گی کہ بشمول امریکا و روس کسی بھی بڑی طاقت کے لیے انہیں زیر کرنا مشکل ہوگا۔ اس نظریے میں توجہ اس پر مرکوز نہیں کی گئی ہے کہ مشرق سے تعلق رکھنے والے چین و اسلامی ملکوں اور مغرب کے درمیان حتمی طور پر جنگ چھڑے گی مگر ضمنی طور پر یہ اشارہ ضرور دیا گیا ہے کہ عالم اسلام اور چین کے درمیان اس طرح کا اتحاد ضرور قائم ہو گا اور جب یہ قائم ہوگا تو لازمی طور پر بین الاقوامی اقتدار اور موجودہ نقشہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ چین و اسلامی دنیا کے درمیان تعاون مالی، عسکری، ثقافتی اور سیاسی سطح تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ایٹمی و جدید ترین ٹیکنالوجی سمیت ہر میدان میں ان کے درمیان اسی طرح کا تعاون ہوگا جس طرح آج اسرائیل و امریکا یا ناٹو سے وابستہ ممالک کے درمیان فوجی و اقتصادی تعاون ہے کہ ایک پر حملہ تمام رکن ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا اور اس کے خلاف میدان جنگ میں اترنا ہر ایک کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی باتیں اس وقت کیوں چھیڑی جارہی ہیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ پر اس طرح کی باتوں کا تذکرہ زور و شور سے کیوں شروع کیا گیا ہے؟ کیا اس کا مقصد عالمی رائے عامہ کو چین کے خلاف تیار کرنا ہے یا اس کا مقصد کچھ اور ہے؟ گزشتہ دنوں کی بات ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے ساری دنیا کو سر پر اٹھا لیا اور ایک طوفان کھڑا کر رکھا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کے فلسطینیوں پر مسلسل جاری مظالم، لبنان پر حملے، غزہ کی ناکہ بندی پھر ترکی کے امدادی قافلے اور غزہ جانے والے جہاز پر حملہ کر کے متعدد امدادی کارکنوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا جس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ترکی نے اپنی سالانہ فوجی مشق میں عادت کے مطابق اسرائیل کو شریک کرنے اور اسے حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ اسرائیل سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے امریکا اور ناٹو سے وابستہ تمام ملکوں نے اس فوجی مشق کا بائیکاٹ کیا اور اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا، اس کے جواب میں ترکی نے یہ فوجی مشق چین کو شریک کر کے انجام دی۔ چین و ترکی کی یہ مشترکہ فوجی مشق ترک سرزمین پر انجام دی گئی۔ اس میں چین کے سخوئی ایس یو۲۷ طرز کے لڑاکا طیاروں نے حصہ لیا۔ چین کے لڑاکا طیارے پاکستان و ایران کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے ترکی پہنچے۔ ان ملکوں نے ان طیاروں کا والہانہ استقبال کیا، اس کی ضیافت کی اور اسے ایندھن فراہم کیا۔ واضح رہے کہ پاکستان و ایران اس مثلث کے بنیادی حصے ہیں جس کی پیشگوئی اکنامسٹ میں کی گئی ہے۔ چین کے ساتھ کیے گئے اس مشترکہ فوجی مظاہرے پر فطری طور پر تل ابیب اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہو گیا۔ یہ پہلا واقعہ تھا کہ ۲۰۰۱ء سے ترکی کے شروع کردہ مشق سے اسرائیل کو بے دخل کیا گیا اور اس سے دور رکھا گیا تھا، ترکی نے ۲۰۰۱ء سے فضائی تکنیکی جنگ کی مشق اپنی سرزمین اور مرکز طاقت میں شروع کی ہے اور جب سے اس نے یہ شروع کیا ہے اسرائیل کو شریک کرتا رہا تھا۔

اسی طرح زمین سے زمین پر مار کرنے والے چینی ساختہ میزائل سسٹم C-802 کو ترقی دینے پر مشتمل کئی معاہدے بھی چین وترکی اور چین و ایران کے درمیان طے پائے ہیں۔ ایران کے توسط سے چینی ساختہ اس میزائل کی ٹیکنالوجی یا یہ میزائل حزب اللہ کو بھی حاصل ہو گئے ہیں جس کا استعمال اس نے ۲۰۰۶ء میں اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں کیا تھا اور میزائل بردار اسرائیلی جہاز کو سمندر میں غرق کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کی بلبلاہٹ اور یہ محسوس کرنا بجا ہے کہ چین و ترکی و ایران کا مثلث اس کے لیے خطرہ ہے، مگر یہ صورتحال خود اس کی حماقت اور برتری کے زعم کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اگر وہ ترکی کی بات مان لیتا، لبنان پر حملہ کرنے سے گریز کرتا، پھر ترکی کے جہاز کو نشانہ بنانے اورامدادی کارکنوں کو قتل کرنے کی بے وقوفی نہیں کرتا تو یقینا یہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ جہاں تک امریکا کی بات ہے تو چین کی ترکی و ایران سے فوجی قربت نے اس کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ چین کی جانب سے دور دراز علاقوں اور سمندر کی گہرائیوں میں ترکی کے ساتھ فضائی و سمندر کی مشق سے سخت الجھن محسوس کر رہا ہے کیونکہ بقول امریکا یہ اس جنگ کی تمہید ہوسکتی ہے جسے چین اپنی سرحدوں سے باہر دور دراز علاقہ میں چھیڑنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔

فطری طور پر امریکا و اسرائیل کی یہ بے چینی و اضطراب اور چین سے زبردست خطرے کا احساس مستقبل کی دنیا سے متعلق ہے۔ بیجنگ تقریباً تین دہائیوں سے مغرب کے ساتھ سیکورٹی و فوجی معاہدے کی اسٹریٹجی اور مغربی دنیا کے ساتھ اقتصادی تعاون کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اور اس کے باوجود کہ وہ اس وقت دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت بن گیا ہے مگر وہ اس وقت دنیا میں امریکی فوجی لیڈر شپ اور قیادت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور شاید آئندہ ایک دو دہائی میں بھی یہ پوزیشن حاصل نہ کر سکے۔ مگر اس کے بعد ممکن ہے اسے یہ پوزیشن حاصل ہو جائے اوراس خطرے کو امریکا بھی بخوبی سمجھ رہا ہے اسی لیے امریکا نے اب اپنی توجہ پاکستان کی طرف سے ہٹا کر ہندوستان کی طرف موڑ دی ہے تاکہ چین سے محاذ آرائی کے لیے ہندوستان کو بکرا بنایا جاسکے۔ اس وقت تو چین کی بلیوں نے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے چوہوں کا شکار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور چین فی الحال اس پر خوش ہے کہ اس نے پرامن طریقہ پر یہ شکار حاصل کر لیا اور مغرب کی کمر توڑنے میں کامیابی پالی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ ترکی و ایران سے متعلق صورتحال اس سے مختلف ہوسکتی ہے، یہ دونوں اسلامی ممالک مشرق وسطیٰ میں علاقائی اہم و بنیادی کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، اس لیے ہتھیاروں سے لیس ہونے اور فوجی مشق کرنے میں ان کی سرگرمیوں اور نقل و حرکت کرنے سے یہ اشارہ ملے گا کہ ان دونوں نے فوجی طاقت کے حصول کے لیے حکمتِ عملی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مقصد سے تاریخی سفر شروع کر دیا ہے اور انہیںچین کا بھرپور تعاون حاصل ہے پھر بعد میں جب چین بھی فیصلہ کرے گا کہ وہ بھی فوجی طاقت کی اسٹریٹجی کو رواج دے اور اپنا قدم آگے بڑھاتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کو دنیا کے گوشوں تک پہنچائے تو اس مقصد میں تعاون کرنے کے لیے ترکی، ایران، پاکستان اور کسی وقت مصر جیسے دیگر بڑے اسلامی ممالک کو تیار پائے گا، مگر عالمِ اسلام اور چین کی یہ ملاقات کب ہوگی؟ اور کس راستے پر یہ بغل گیر ہوں گے؟ تو اس بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ گھڑی وہی ہو سکتی ہے جس کی پیشگوئی اکنامسٹ نے کی ہے۔ جب یہ اتحاد قائم ہوگا اور اس کا سفر آگے بڑھے گا تو دنیا کا نقشہ یقینا تبدیل ہو جائے گا۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ ۲۴ نومبر ۲۰۱۰۔ ترجمہ: ابوزید قاسمی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*