چین کی مستقبل بینی۔۔۔

امریکا اور چین کے درمیان فائیو جی ٹیکنالوجی اور دنیا کے وائرلیس انفراسٹرکچر پر کنٹرول کی لڑائی جاری ہے۔تاہم دنیا کی معیشت اور تحفظ سے متعلق ایک اہم معاملے پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔یہ معاملہ ڈیجیٹل معیشت کے لیے ضروری معدنیات پر چین کے کنٹرول کا ہے۔

کوئی بھی نیا فون، ٹیبلیٹ، گاڑی یا سیٹلا ئیٹ کچھ مخصوص معدنیات کے بغیر نہیں بن سکتے۔یہ معدنیات دنیا کے کچھ ہی ممالک میں پائے جاتے ہیں اور ان کے گنے چنے متبادل ہی دستیاب ہیں۔ چینی کمپنیوں نے غیر شفاف اور اکثر سیاسی طور پر غیر مستحکم ممالک کی منڈیوں میں ان معدنیات اور دھاتوں کی فراہمی پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اس کام کے لیے انھوں نے بڑے پیمانے پر کی گئی چینی سرمایہ کاری کا بھی استعمال کیا ہے۔ ان کمپنیوں کی رپورٹوں کے گہرائی سے مطالعے اور دیگر ذرائع سے تحقیق کے بعد FP Analytics نے معدنیات کی عالمی مارکیٹ پر اس غیر معمولی قبضے کے حوالے سے پہلی جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ حقائق پر مبنی اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ چین کس تیزی اور موثر طریقے سے اپنے قومی عزائم کو پورا کررہا ہے اور اس کے باقی دنیا پر کس قسم کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

چین نے اپنے تیرہویں پانچ سالہ منصوبے (۔۲۰۱۶ء) کو Nonferrous دھاتوں کی صنعت کے حوالے سے فیصلہ کن جنگ کا دور کہا ہے۔اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ‘Made in China 2025’ پروگرام بھی ہے۔ اس کا مقصد قومی دفاع، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں صنعت کاری کو بڑھانا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے اکتوبر ۲۰۱۶ء میں چین کی وزارت صنعت نے چین کو دھاتوں کی صنعت میں عالمی طاقت بنانے کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔اس کام کے لیے چین معدنیات سے زر خیز خطوں میں سرکاری اور نجی کمپنیوں کو بھیج رہاہے تاکہ ان ممالک کے معدنی وسائل پر گرفت مضبوط کی جاسکے۔ان معدنی وسائل میں وہ معدنیات بھی شامل ہیں جن میں چین پہلے ہی ایک مستحکم پوزیشن رکھتا ہے۔

چین نے اس کام کے لیے نہایت مناسب وقت کا انتخاب کیا۔ ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۵ء کے دوران دھاتی اشیا کی قیمتوں میں آنے والی کمی سے کان کنی کی بہت سی کمپنیاں سرمائے کے متعلق پریشان تھیں۔ یہاں تک کہ Angola American جیسی بڑی کمپنی کو بھی افرادی قوت اور اثاثوں میں کمی کرنا پڑی۔ چینی کمپنیوں نے کانوں کی براہ راست خریداری، دیگر کمپنیوں میں حصص کے حصول، کانوں کی موجودہ اور مستقبل کی پیداوار کو خریدنے کے معاہدوں اور نئے پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کی شکل میں کان کنی کی کمپنیوں کو ان کی ضرورت کا سرمایہ مہیا کیا اور خود معدنیات کی عالمی پیداوار پر کنٹرول حاصل کرلیا۔

اگرچہ چین میں کافی معدنیات پائی جاتی ہیں، تاہم چین کو کوبالٹ، پلاٹینئیم گروپ کی دھاتوں اور لیتھیئم جیسی معدنیات کے فقدان کا سامنا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے چین کے عزائم کے لیے اہم ہیں۔ چین نے ان معدنیات پر کنٹرول کے لیے دو طرح کی حکمت عملیاں اختیار کی ہیں۔ ایک حکمت عملی یہ ہے کہ حکومتی ملکیت والی کمپنیوں یعنی State Owned Enterprises (SEOs) کو متحرک کیا جائے، جو حکومتی امداد اور سرمایہ کاری کا استعمال کرتے ہوئے خود کو دیگر ممالک میں مضبوط کریں اور حکومتی افراد کے ساتھ مراسم پیدا کریں۔ دوسری حکمت عملی ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے نجی کمپنیوں کے استعمال کی ہے۔

اپنی اس حکمت عملی کی وجہ سے چین معدنیات کے اس کھیل میں دنیا سے دس سال آگے ہے۔ رواں سال جون میں کانگو میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ۵۳ چینی کمپنیوں نے Union of Mining Companies کے قیام کا اعلان کیا۔ یہ دراصل چینی صنعت کاروں اور کانگو کی حکومت کے درمیان اس گہرے اور دیرپا تعلق کا اعلان تھا، جو گزشتہ سالوں میں قائم ہوا۔

چین اس وقت کانگو سے نکلنے والے کوبالٹ کے نصف حصے پر اپنا کنٹرول رکھے ہوئے ہے۔ صدارتی انتخابات سے چھ مہینے قبل ہونے والی اس کانفرنس نے صدارتی امیدواروں کو واضح پیغام دیا کہ کوبالٹ کی صنعت پر چین کس قدر کنٹرول رکھتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کانگو کی ۸۰ فیصد معیشت کا انحصارکوبالٹ پر ہے۔

دنیا میں کوبالٹ کی کل پیداوار اور معلوم ذخائر کا دو تہائی حصہ کانگو میں ہے، جس وجہ سے یہ بیٹری کی صنعت سے منسلک سرمایہ کاروں کے لیے ایک اہم ملک ہے۔ اسی وجہ سے چین نے گزشتہ ایک دہائی میں سیاسی تعلقات کے فروغ اور پیداواری انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے ذریعے یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہوئی ہے۔ ۲۰۰۷ء میں چین کے Export-Import Bank نے انفراسٹرکچر کی مد میں ۶؍ارب ڈالر (جو بعد میں ۳؍ارب ڈالر کر دیے گئے) اور تانبے اور کوبالٹ کی کان کنی کے لیے ۳؍ارب ڈالر فراہم کیے۔ یہ پراجیکٹ Sinohydro اور China Railway Group کے تحت چلائے جارہے ہیں۔ ان کمپنیوں کے پاس تانبے اور کوبالٹ کی کان Sicomine کے ۸۶ فیصد حصص ہیں۔ یہ کان افریقا کی سب سے بڑی کانوں میں سے ایک کان ہے۔ چین نے کانگو کی سرکاری کمپنی Gécamines کی بحالی، صنعتی شعبے کے استحکام اور ملازمت کے مواقع پیدا کر نے کے وعدے سے کانگو کا خود پر انحصار بڑھا لیا ہے۔

کانگو کی قرضوں میں ڈوبی ہوئی کمپنیوں کو ٹارگٹ کرکے چین کی سرکاری کمپنیوں نے کانوں میں حصص حاصل کیے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ان کانوں میں Tenke Fungurume نامی کان بھی شامل ہے، جہاں اعلیٰ قسم کے تانبے اور کوبالٹ کے دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین نے کانگو کی۱۰ بڑی کانوں اور ۶ ترقیاتی منصوبوں کی ملکیت حاصل کرلی ہے۔ چین نے کانگو اور دنیاکی کوبالٹ پیدا کرنے والی سب سے بڑی کان میں بھی حصص حاصل کر لیے ہیں۔ اس کی وجہ سے کانگو میں کوبالٹ کی کل پیداوار کے ۵۲ فیصد پر چین نے اپنااثر و رسوخ قائم کرلیا ہے۔

دنیا میں کوبالٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کے سبب کانگو کے سابق صدر جوزف کابیلہ نے کان کنی کے قانون میں تبدیلی کی اور منافع پر ۵۰ فیصد ٹیکس عائد کردیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کوبالٹ پر Royalty Tax کو بھی تین گنا کر دیا ہے تاکہ اس سے حکومتی منافع میں اضافہ ہو۔ ہمسایہ ملک زیمبیامیں بھی اسی قسم کے ٹیکس کے بارے میں سوچا جا رہا ہے۔

سرکاری ملکیت کی کمپنیوں کو استعمال کرنے کی چین کی حکمت عملی افریقا میں خاص کامیاب رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کان کنی کی صنعت میں جاری معاشی بدحالی میں ان کمپنیوں کو لوگوں نے امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھا۔ ان کمپنیوں نے China -Africa Development Fund کے اشتراک سے خود کو جنوبی افریقا کے Bushveld Complex تک پھیلا لیا ہے۔ اس خطے میں دنیا کا اعلیٰ ترین وینڈئیم اور پلاٹینئیم پایا جاتا ہے۔ پلاٹینئیم گاڑیو ں کے کیٹیلیٹک کنورٹر میں استعمال ہوتا ہے، جو گاڑیوں سے نکلنے والے خطرناک دھوئیں کو صاف کرتا ہے۔ وینڈیئم ہائی ٹیک صنعتوں، دفاعی صنعت، خلابازی کی صنعت اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں کے لیے ایک انتہائی اہم اور لازمی دھات ہے۔ اس خطے میں چین کی سرمایہ کاری اور طویل مدتی معاہدوں کی وجہ سے جنوبی افریقا کی کل برآمدات میں معدنیات کا حصہ سب سے زیادہ ہو گیا ہے اور معدنیات کی کل برآمدات کا ۵۰ فیصد حصہ چین جاتا ہے۔اس وجہ سے جنوبی افریقا کی معاشی بحالی بھی اب براہ راست چینی سرمایہ کاری سے جڑی ہوئی ہے۔

چین جمہوری اور Market-Oriented ملکوں میں نجی ملکیت کی چینی کمپنیوں کا استعمال کر رہا ہے، جنہیں حکومتی سرمایہ مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں مقامی کمپنیوں میں حصص حاصل کرتی ہیں اور چھوٹے کاروباری لوگوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ نجی ملکیت کی کمپنیوں کو استعمال کرنے کی حکمت عملی آسٹریلیا، ارجنٹینا اور چلی میں واضح طور پر کامیاب ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان تین ممالک میں دنیا کا ۹۰ فیصد لیتھیم پیدا ہوتا ہے۔ اور ان ہی تین ممالک میں دنیا میں لیتھیم کے معلوم ذخائر کاتین چوتھائی حصہ بھی موجود ہے۔ صرف چھ سالوں میں چین نے لیتھیم کی مارکیٹ پر غلبہ حاصل کرلیا ہے اور اب وہ لیتھیم کے ۵۹ فیصد ذخائر پر اپنی گرفت رکھتا ہے۔

چین کے سرکاری بینکوں کے سرمائے سے چین کی دو بڑی کمپنیاں Tianqi Lithium اور Ganfeng Lithium دنیا میں لیتھیم پیدا کرنے والی تیسری بڑی کمپنیاں بن گئی ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں نے دیگر چینی اداروں کے ساتھ مل کر اپنی سرمایہ کاری اور کام کو پھیلانے کے لیے چلی کی کمپنیوں میں حصص حاصل کیے، ارجنٹینا میں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اور آسٹریلیامیں کانوں کی خریداری اور پروسیسنگ پلانٹ میں سرمایہ کاری کی۔

۲۰۱۸ء کے ابتدا میں Tianqi Lithium نے چلی کی ایک کمپنی SQM کے ۲۴ فیصد حصص حاصل کیے۔ یہ کمپنی دنیا میں لیتھیم پیدا کرنے والی دوسری بڑی کمپنی ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے لیتھیم کے ذخائر کا ۵۷ فیصد حصہ چلی میں پایا جاتا ہے، ان میں سے آدھے ذخائر کا کنٹرول SQM کے پاس ہے۔ SQM کے حصص حاصل کرنے کی ڈیل معدنیات کی صنعت میں اب تک کی سب سے بڑی ڈیل ہے، جو ۱ء۴ ارب ڈالر میں انجام پائی۔

چلی کی حکومت نے ہمیشہ ملک کے لیتھیم کے ذخائر پر سخت کنٹرول رکھا ہے کیوں کہ یہ ملک کے جوہری پروگرام کے لیے اہم ہے، لیکن چینی کمپنی کو حصص کی فروخت نے اس معاملے میں شکوک پیدا کردیے ہیں۔ اگرچہ اصل ڈیل میں Tianqi کے بورڈ کو SQM کے حساس ڈیٹا تک رسائی سے روکا گیا ہے، تاہم اب بھی یہ چینی کمپنی SQM پر خاطر خواہ اثر رسوخ رکھتی ہے۔

ارجنٹینا کے صدر نے ملک میں معدنیات کی برآمدات پر عائد ٹیکسوں میں کمی کافیصلہ کیا ہے۔ یہاں چین معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور بدلے میں مستقبل میں نکلنے والے لیتھیم کے حصول کے معاہدے کر رہا ہے۔ چینی کمپنیوں کے پاس ارجنٹینا میں جاری معدنی منصوبوں کے۴۱ فیصد حصص ہیں۔ ان منصوبوں میں ارجنٹینا کے کل ذخائر کا ۳۷ فیصد شامل ہے۔ اس پالیسی کے ثمرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ارجنٹینا سے چین کو ہونے والی لیتھیم کی برآمدات میں ۲۰۱۵ء سے ۲۰۱۷ء کے دوران چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہی پالیسی آسٹریلیا میں بھی کامیاب رہی۔ مذکورہ دونوں چینی کمپنیوں نے آسٹریلیا میں جاری لیتھیم کی کان کنی کے منصوبوں میں ۹۱ فیصد حصص اور لیتھیم کے ذخائر کے ۷۵ فیصد پر کنٹرول حاصل کیا ہوا ہے۔

عالمی منڈی کے وہ وسائل جن پر چین کی اجارہ داری ہے، اب چین ان پر بھی اپنے کنٹرول کو مزید سخت کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ چین ایسے قدرتی وسائل میں نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ اس کے پاس یہ معدنیات وافر مقدار میں ہیں، جیسا کہ دنیا بھر کی وہ ۱۰ معدنیات اور دھاتیں جو مقدار میں سب سے کم ہیں اور ہائی ٹیک صنعت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہیں وہ بھی وافر مقدار میں ہیں اور یہی وہ دھاتیں ہیں جن پر چین کے کمرشل اور تزویراتی حریف انحصار کرتے ہیں۔ اپنے کنٹرول کو مزید مستحکم کرنے کے لیے چینی کمپنیاں نہ صرف ان دھاتوں کی کانوں کی خریداری کررہی ہیں بلکہ ان کی پیداوار کی خریداری بھی بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں، جس سے چین کو ہائی ٹیک صنعت میں سبقت حاصل ہو جائے گی بلکہ اس کی جیو پولیٹیکل طاقت میں بھی اضافہ ہو گا۔

شاید معدنی وسائل پر اپنے غلبے کو برقرار رکھنے اور نادر و اہم کیمیائی عناصر کو دریافت کرنے کی خواہش کے اعتبار سے چین کی مثال نہایت موزوں ہے۔ ۷۱؍ ایسے مشہورکیمیائی عناصر جنہیں باآسانی تجارتی بنیادوں پر دستیاب کیا جاسکتا ہے لیکن چین دانستہ ایسا نہیں کررہا۔ یہ سارے عناصر دفاعی سازو سامان، خلابازی، برقیات اور قابل تجدید توانائی کی صنعتوں کے لیے اہم ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں چین نے ان اہم کیمیائی عناصر کی کل پیداوار کا ۸۰ فیصد نکالا اور ان معدنیات کو صاف کیا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں چین نے جاپان کو ان کیمیائی اشیا کی فراہمی میں تخفیف کر دی تھی، جس کی وجہ چین کے مشرقی سمندر میں کشیدگی کی فضا کا پیدا ہونا تھا۔ اس کے اگلے ہی سال چین نے ایکسپورٹ کوٹہ نافذ کر دیا، جس سے صنعتی اداروں اور حکومتوں میں افراتفری پیدا ہوگئی۔ لیکن جاپان کے سِوا دیگر ممالک نے اس بار وقتی اقدامات تو کیے لیکن مستقبل کے حوالے سے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی۔

۱۹۹۰ء میں چین نے rare earth elements کو تزویراتی وسائل قرار دے کر اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر پابندی لگا دی۔ ۶ سرکاری کمپنیاں اس ساری صنعت پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں حکومت نے اس کی پیداوار میں ۶۳ فیصد کمی کر دی۔ جب کہ دوسری طرف ان معدنیات کی مانگ میں ۲۰۲۵ء تک ۷۱ فیصد اضافہ ہوگا۔ اسی طرح چین دیگر ملکی معدنیات پر بھی مکمل کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ چینی کمپنیاں تیزی سے دیگر ممالک میں بھی ان معدنیات کی کانیں خرید رہی ہیں۔ اسی طرح روس بھی اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو محدود کرتا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکا کی rare earth elements کی درآمدات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف ۲۰۱۸ء میں امریکا نے ۱۶۰ ملین ڈالر کی درآمدات کی ہیں۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اس معاملے پر کچھ احکامات جاری کیے، لیکن اس پر مزید کام نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے برعکس چینی کمپنیاں تیزی سے دنیا بھر کی کمپنیوں سے شراکت داریاں کر رہی ہیں اور چین نے بحیثیت ریاست اس پر بھرپور توجہ دے رکھی ہے۔ جس سے چین کی جیو پولیٹیکل طاقت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

وسائل کی ان اقسام پر کنٹرول قائم کرنے سے چین کو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ آیا وہ semiconductor کی صنعت پر سبقت لے جانے سے وہ اس صنعت میں بھی مرکزی حیثیت حاصل کر لے گا۔ ہائی ٹیک انڈ سٹری کے لازمی جزو کے طور پر استعمال ہونے والی معدنیات پر چین کا کنٹرول تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس انڈسٹری میں مزید ترقی کے لیے جن معدنیات کی ضرورت ہے، ان سات میں سے چھ پر چین کا ۵۷ فیصد کنٹرول ہے۔

تاہم چین کے پاس اس صنعت کی صف اول کی کمپنیوں جیسے semiconductor تیار کرنے کی صلاحیت کا اب بھی فقدان ہے۔اور چین اب بھی تقریباً ۲۶۰؍ارب ڈالر ان کی درآمدات پر خرچ کر رہا ہے۔حکومت اپنے حریفوں کو پیچھے چھوڑنے کے لیے اس شعبے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ چین نے اس شعبے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۷ء تک ۲۰؍ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔

اگر چین اس صنعت میں بھی مکمل مہارت حاصل کر لیتا ہے اور منڈیوں میں اس صنعت سے متعلق اشیا کی بھرمار کرتا ہے (جیسا کہ اس نے سولر پینل اور ونڈ ٹربائین کے معاملے میں کیا تھا) تو نہ صرف ان اشیا کی دیگر صنعتیں تباہ ہو جائیں گی بلکہ ہماری قومی سلامتی، دفاعی نظام، ہماری معیشت کا انحصار بھی چینی صنعتوں پر بڑھ جائے گا۔ جیسا کہ سرکاری حکام اب semiconductor کی فروخت پر نگرانی شروع کر چکے اور اس کی فروخت کو محدود کرتے جا رہے ہیں، اسی طرح امریکی حکومت نے مختلف چینی کمپنیوں کو semiconductor کی فروخت پر عارضی پابندی لگائی ہے ان اقدامات سے چین کی مقامی صنعت کو خودمختار بنانے کا نہ صرف جذبہ بڑھے گا بلکہ وہ اس پر تیزی سے کام بھی کر ے گا۔ اصل توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ چین ان معدنی وسائل کے خام مال پر مکمل کنٹرول حاصل نہ کر پائے اور نہ ہی computing power خودمختاری حاصل کرے۔

لیکن یہ کوئی حتمی مشاہدہ نہیں ہے۔ تاہم اس بات پر ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم تزویراتی صنعتوں اور طویل مدتی سرمایہ کاری کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، اس کے علاوہ معاشی خوشحالی اور قومی سلامتی کے شعبے کو اس ڈیجیٹل دور میں کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔ کچھ ممالک تو اس حوالے سے نہ صرف سوچ رہے ہیں بلکہ بھرپور اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ ماہ اپریل میں امریکی حکام نے lithium کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز سے ایک میٹنگ کی، جس میں انھوں نے بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے ملکی طور مکمل سپلائی چَین (Supply Chain) بنانے پر حکمت عملی تشکیل دینے کی بات کی۔۔۔اور یہ ایک آغاز ہے۔۔

image

Electric Vehicles

image

Cobalt 36%

image

Lithium 59%

image

Graphite/Graphene 70%

image

Rare Earth Elements 80%

image

Vanadium 56%

image

Solar Panels

image

Graphite/Graphene 70%

image

Indium 41%

image

Gallium 94%

image

Smartphones

image

Lithium 59%

image

Graphite/Graphene 70%

image

Indium 41%

image

Rare Earth Elements 80%

image

Wind Turbines

image

Cobalt 36%

image

Graphite/Graphene 70%

image

Vanadium 56%

image

Satellites

image

Cobalt 36%

image

Gallium 94%

image

Rare Earth Elements 80%

image

Vanadium 56%

image

Semiconductors

image

Graphite/Graphene 70%

image

Indium 41%

image

Gallium 94%

image

Rare Earth Elements 80%

(یہ رپورٹ امریکی جریدے Foreign Policy کے تحقیقی شعبے FP Analytics نے مئی ۲۰۱۹ء میں جاری کی ہے۔)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*