جیسا کہ چین اب یورپ کی تجارتی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے، اس لیے اس نے اپنا ہدف لندن کو بنایا ہے جو کہ یورپ کا تجارتی مرکز ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے لندن کا دورہ کیا، اس دوران ’’پیپلز بینک آف چائنا‘‘ نے برطانیہ کو قرضوں کی پیشکش کی۔ چین کی حدود سے باہر کسی بھی ملک کے لیے ’’پیپلز بینک‘‘ کی یہ پہلی پیشکش ہے۔ ایک طویل عرصے بعدبرطانیہ اور چین کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں پیش رفت ایک حیران کن مرحلہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ہونے والی ’’افیونی جنگوں‘‘ کے بعد یہ پہلی تجارتی پیشکش ہے۔ چین کے تاجروں کے لیے برطانیہ ایک پُرکشش تجارتی منڈی ہے۔ چین نے برطانیہ میں ۱۰؍ملین سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ جس میں لندن میں انفرا اسٹرکچر کے علاوہ ٹیکنالوجی اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط بھی شامل ہیں۔ چین کے مشہور ادارے Weetabix, Sunseeker اور Pizza Express نے ہیتھرو اور مانچسٹر ہوائی اڈوں میں سرمایہ کاری کے علاوہ ہنکلی کے ایٹمی پلانٹ میں سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ چین کی مشہور ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہواوے (Huawei) نے ہالوے میں فٹبال کلب کیساتھ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ چین کے سب سے بڑے بینک ’’دی چائنا میچنگ بینک‘‘ نے یورپ میں اپنا صدر دفتر کھولنے کا عندیہ دیا ہے، اس کے علاوہ چین نے یورپ میں پہلا چینی ’’بروکریج ہاؤس‘‘ کھولنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
کچھ عرصہ قبل تک جرمنی چینی تاجروں کے لیے پُرکشش ملک تھا لیکن اب برطانیہ جائیداد کی خرید و فرخت، مالیات اور تعلیم کے شعبے میں اپنے غلبے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ہے، برطانیہ کی تجارتی منڈی بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے انگریزی زبان، مارکیٹ کے حجم اور زیادہ منافع کی وجہ سے پرتگال، اٹلی اور فرانس سے زیادہ پُرکشش ہے۔ چین مستقبل میں برطانیہ میں مزید سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یورپ کے ساتھ آزاد تجارت بھی چاہتا ہے۔
چین سے تجارتی تعلقات کے لیے کی جانے والی برطانیہ کی کوششوں کو چین نے سراہا ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں ڈیوڈ کیمرون نے وزراء اورتاجروں کے وفدکے ساتھ چین کا دورہ کیا۔اپنے دورے میں کیمرون نے یہ واضح کیا کہ برطانیہ چین کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک کھلی تجارتی منڈی ہے، اس کے علاوہ انہوں نے سرمایہ کاروں کو ایٹمی پلانٹ، ہیتھرو ہوائی اڈے کے تھامس واٹر پروجیکٹ میں بھی سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی سرمایہ کاری معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔
اکتوبر ۲۰۱۵ء میں چین کے صدر شی جن پنگ نے برطانیہ کا دورہ کیا، اس دورہ کے دوران ملکۂ برطانیہ نے چینی صدر اور ان کی اہلیہ کو بکنگم پیلس میں اپنی میزبانی کا شرف بخشا۔ چینی صدر نے اپنے دورے کے دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے خطاب کیا۔ چینی صدر کے دورۂ برطانیہ نے برطانیہ میں چین کے سرمایہ کاروں کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں۔ لندن سے مانچسٹر تیز رفتار ٹرین پروجیکٹ، ہنکلی پوائنٹ، رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمینٹ، رائیل البرٹ ڈوک میں ۷ء۱؍ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کے پروجیکٹ کے علاوہ جائیدادکی خرید و فروخت جیسے پروجیکٹ میں بھی چینی سرمایہ کار سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برطانیہ نے ۲ ملین پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کرنے والے چینی سرمایہ کاروں کے لیے پانچ سال تک مستقل رہائش دینے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چینی سیاحوں کے لیے ویزہ پالیسی میں نرمی کی جائے گی، سیاحوں کی آمد سے برطانیہ سالانہ ۵۰۰ ملین پاؤنڈ حاصل کرتا ہے۔ امریکا کی طرح برطانیہ بھی چین کے سیاحوں کے لیے کسی اضافی قیمت کے بغیر ملٹی انٹری ویزہ کی پیشکش کا اعلان کرے گا۔ برطانیہ چین کے سرمایہ کاروں کی اولین ترجیح ہے۔ مارچ ۲۰۱۵ء میں برطانیہ کے مقامی چانسلر نے فیصلہ کیا کہ برطانیہ ’’ایشیا انفرا اسٹرکچر بینک‘‘ کے ساتھ مل کر کام کرے گا،اس کے کچھ عرصے بعد ہی اسکاٹ لینڈ کے سیاستدان ڈینی الیگزینڈر ’’ایشین انفرا اسٹرکچر‘‘ کے پانچ منتخب نائب صدور کی صف میں شامل تھے۔ اگست ۲۰۱۵ء میں برطانوی چانسلر نے بیجنگ کے دورے کے دوران سنکیانگ کے خودمختارعلاقے کے لیے ’’ون بیلٹ‘‘ کے قیام پر تعاون کا یقین دلایا ہے۔برطانیہ کے سیاستدانوں نے چین کے دورے کے دوران کہا کہ برطانیہ، چین کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس کے علاوہ ہانگ کانگ، تبت یا انسانی حقوق جیسے کسی متنازع مسئلے کا حصہ فریق نہیں بنے گا۔ مقامی برطانوی حکام نے بھی چین کے سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا ہے۔ ٹیکنالوجی کے آلات کی خرید و فروخت کے حوالے سے برطانیہ کے تحفظات ابھی برقرار ہیں۔ چین کی مشہور ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہواوے سے ٹیکنالوجی کے آلات کے لیے معاہدے پر برطانیہ دستخط کر چکا ہے، لیکن ابھی بھی اپنی سلامتی کے لیے اسے خطرہ سمجھتا ہے۔ امریکا اور آسٹریلیا کے خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ ہواوے کا لبریشن آرمی سے رابطہ ہے۔
برطانیہ نے ۲۰۱۳ء میں ٹیکنالوجی کے آلات کی لین دین کرنے والی تمام ایسی کمپنیوں کو خبردار کیا تھا جو ملکی سلامتی کے خدشات کا باعث بن سکتی تھیں، تاہم برطانیہ نے ہواوے کے ساتھ اپنا تعاون برقرار رکھا ہے۔
ان تحفظات کی وجہ سے یورپ میں چین کے ایک اتحادی کی حیثیت سے برطانیہ کا سامنے آنا ابھی بھی غیر یقینی ہے۔ ۲۳جون کو برطانیہ میں یورپی یونین کی رکنیت کے بارے میں ریفرینڈم ہوگا جس سے یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ برطانیہ یورپی یونین کا اتحادی رہے گا یا نہیں۔ اپنے دورے میں چینی صدر نے اس امید کا اظہار کیا کہ برطانیہ یورپی یونین کا اتحادی رہے گا اور چین اور یورپ کے تعلقات میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے بعد چین اپنی کمپنیوں کے صدر دفاتر دوسرے ملکوں میں منتقل کردے گا۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“China’s offensive in London: Why Beijing wants to invest in the United Kingdom”. (“brookings.edu”. April 5, 2016)
Leave a Reply