اکیسویں صدی کو چین کی بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے بہترین سمجھا جارہا ہے، اس وقت چین بیرونی دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں اربوں کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چین کے بیرونی اخراجات ’’بیلٹ اور روڈ‘‘ اعلان کے بعد سامنے آئے، یہ منصوبہ بیرونی دنیا کے لیے ایک بڑاتعمیراتی منصوبہ ہے۔ بی آر ای منصوبہ بری اور بحری دونوں راستوں کا احاطہ کرے گا، یہ منصوبہ چین کے تجارتی راستوں کو ایشیااور یورپ سے لے کر افریقا تک پھیلا دے گا۔دنیا کی تمام تر توجہ چین کی بیرونی سرمایہ کاری کی طرف ہے، تاہم افریقا کو چین سے قرض لیتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ چین کی شرائط سخت ہیں کہیں ایسانہ ہو کہ چین کے قرضوں کے جال میں پھنس کر افریقا خود کو تباہ کر لے۔
چین کی بیرونی سرمایہ کاری کا فلسفہ مغربی فلسفہ سے بالکل مختلف ہے،چین سرمایہ کاری کے امکانات، سرمایہ کی واپسی اور تجارت میں نفع کو سامنے رکھ کر اپنے منصوبے تشکیل دیتا ہے۔ وہ جس ملک میں بھی سرمایہ کاری کرتا ہے وہاں کے معاشرتی عناصر، انسانی حقوق، آزادی، قانون کی حکمرانی اور شہری حقوق وغیرہ کو اپنے تجارتی اصولوں سے دور رکھتے ہوئے صرف منافع پر نظر رکھتاہے، اس کے برخلاف مغرب سرمایہ کاری کرتے ہوئے ان تمام اصول وضوابط پر توجہ دیتا ہے جن میں انسانی حقوق کی پاسداری، قانون کی حکمرانی سمیت وہ پچھلے تمام ریکارڈ بھی سامنے رکھتا ہے اور انہی اصولوں کی وجہ سے سرمایہ یا امداد بدعنوان لوگوں تک آسانی سے نہیں پہنچ سکتی ہے۔ چین ان اصولوں اور بدعنوان عناصر کو نظرانداز کرتے ہوئے اس وقت افریقا میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
کئی ممالک میں چین ضرورت سے زیادہ تعمیری منصوبوں پر خرچ کررہا ہے، چین کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے ممباسا پورٹ تک ریلوے ٹریک تعمیر کر رہا ہے۔ چین ’’ادیس ابابا‘‘ میں جبوتی ریلوے کے لیے بھی رقم فراہم کررہا ہے۔ یہ ریلوے لائن جبوتی کو ایتھوپیا کے دارالحکومت سے جوڑے گی، جو کہ جبوتی کے قریب ہی واقع ہے۔ اس کے علاوہ چین زیمبیا، تنزانیا، الجیریا، عوامی جمہوریہ کانگو اور انگولا جیسے غریب ممالک کو قرض کی رقم فراہم کر رہا ہے، چین کے مطابق وہ جتنی بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ اسے وقت آنے پرمنافع کے ساتھ واپس ملے گی۔ امریکا نے بیرونی امداد اور سرمایہ کاری افریقا میں کم کر دی ہے۔ یورپی ادارے قرض کی رقم معاف کر رہے ہیں، جب کہ چین قرض معافی پر بھی کوئی بات نہیں کررہا۔ ترقی پذیر ممالک کے پاس بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے راستے محدود ہیں ایسی صورت میں چین ان ممالک کو یورپی یونین سے زیادہ آسان شرائط پر قرض دینے پر تیار ہے۔ انہی آسان شرائط کی وجہ سے غریب ممالک چین کو ترجیح دیں گے۔ چین کا اثر ورسوخ ان ممالک میں بڑھ جائے گا جب کہ یورپی یونین کی دخل اندازی باقی نہیں رہ پائے گی۔
چھوٹے اور غریب لیکن اہمیت کے حامل ملک قرض لے رہے ہیں، جیسے جبوتی۔ چین ان علاقوں میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثر قائم کرے گا، اسی کو سیاست دان ’’قرضوں کی سفارتکاری‘‘ کہتے ہیں۔ چین بڑی بڑی پیشکش کر رہا ہے، جیسے سڑکوں اور بندرگاہوں کی تعمیر کے لیے کم سود پر قرض جاری کرنا وغیرہ، لیکن جب کم ترقی یافتہ ملک قرض کی قسطیں نہیں دے پاتے تو وہ ان تعمیرات پر قبضہ کر لیتا ہے۔ جیسا کہ ابھی حال ہی میں چین نے سری لنکاکے ساتھ کیا۔
جبوتی کا علاقہ امریکی فوج کے لیے اہم ہے۔ افریقا میں موجود کیمپ لیمونیر ممکنہ طور پر چین کا مقروض ہوگا۔ چین کے قرضوں کی وجہ سے جبوتی کی خالص قومی پیداوار میں ۲۰۱۶ء میں قرضوں کا تناسب ۸۵ فیصد تک پہنچ گیا تھا، جبوتی میں جو بحری اڈے چین کی بحریہ نے تیار کیے ہیں وہاں شرح خریداری کے اصولوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، یہ بحری اڈا امریکا کے لیے اب ایک خطرہ ہے، جبوتی میں چین کی موجودگی امریکی فوج کے وہاں موجود رہنے کے لیے مشکلات اور مسائل پیدا کرے گی۔
لاکھوں ارب کا قرضہ چین سے حاصل کرنا کسی حد تک نقصان دہ ہے، لیکن یہاں کچھ ایسے حقائق بھی موجود ہیں جو چین کے تمام منصوبوں اور اس سے لیے گئے قرضے کو قرض داروں کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ وہ ممالک جو چین سے قرض لے رہے ہیں، وہ اسے معاشی ترقی میں پائیداری سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تحقیق کار یہ بتا رہے ہیں کہ چین کے منصوبے میزبان ممالک کی معاشی ترقی میں اعشاریہ ۷فیصد اضافہ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کم ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر تجارت اور ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، سڑکوں اور ریلوے کا نظام کم وقت میں سامانِ تجارت کی منتقلی اور گھنٹوں کے فاصلے کو منٹوں میں طے کرنے کا ذریعہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ کاروبار میں ان امکانات کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔ جو معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں حقیقتاً چین کے نقل و حمل کے نظام کی تعمیر کے منصوبے کم ترقی یافتہ ممالک کے مقامی کاروبار میں ترقی کے ضامن ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کو ایسے فیصلے کرتے ہوئے منافع اور اخراجات کے تناسب کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اگر معاشی ترقی کے اہم تناظر کو سامنے رکھ کر شفافیت کے ساتھ اورقانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ان منصوبوں کو چلایا گیا تو مستقبل میں میزبان ملک زبردست معاشی ترقی کی جانب گامزن ہوگا۔ تاہم میزبان ملک کو ٹھوس اقدامات، قرضوں کی آسان اقساط میں کسی تعطل کے بغیر واپسی، امید کے مطابق حاصل ہونے والا منافع، قرض اور جی ڈی پی تناسب، مالی بے ضابطگی، پہلے سے اتحادی ممالک سے روابط، سیاسی و جغرافیائی ترقی اور اس کی پیش بندی پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ مزید یہ کہ چین اگر انہیں قرض دے گا تو وہ ان علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بھی چاہے گا، تاحال یہ اثر ان جگہوں پر اب بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں جہاں چین سڑکیں اور پل تعمیر کر رہا ہے، وہاں وہ اپنے بحری اڈے بھی بنارہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چین سے قرضے لینے والے ممالک اپنے ملک کی ترقی پر توجہ رکھیں اور چین کے قرض دینے کے اصول پر بھی کڑی نظر رکھیں، یہ تمام معاہدے بالکل واضح اور شفاف ہونے چاہییں۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Chinese investment in Africa: A blessing or a curse?”. (“chargedaffairs.org”. Nov.26, 2018)
Leave a Reply