چِپ وار

امریکا چین تجارتی تنازعات اب معمولی نوعیت کے محسوس ہونے لگے ہیں۔اس تنازع کا مرکزی ہتھیار ’’ٹیرف‘‘ ہیں۔پرانی تجارتی منڈیاں جن میں کاروں کی صنعت سے لے کر لوہے کی صنعت تک سب اس مڈ بھیڑ میں جنگ کے میدان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔’’کسان‘‘ اور’’ صنعتیں ‘‘صدرٹرمپ کے دماغ پر حاوی ہیں۔دوسری طاقتور شخصیت کے ساتھ صدر کا ذاتی تعلق اور مزاج بہت سے معاہدوں کے ہونے اور نہ ہونے پر اثر انداز ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے اس G-20کے اجلاس کے دوران صدر ’’ٹرمپ ‘‘اور صدر ’’شی‘‘ کے درمیان ہونے والی ملاقات نہایت اہمیت کی حامل ہے (یہ مضمون اجلاس سے قبل شائع ہوا تھا)۔

لیکن اکیسویں صدی کے ان تجارتی تنازعات میں سب سے اہم ’’ٹیکنالوجی ‘‘کے شعبے میں سبقت لے جانے کی جنگ ہو گی۔ یہ جنگ ’’مصنوعی ذہانت‘‘ سے لے کر ’’نیٹ ورکنگ‘‘ کے آلات تک تمام شعبہ جات کو اپنی لپیٹ میں لے گی اور نیم موصّل (semi conductors) کو اس جنگ میں بنیادی حیثیت حاصل ہو گی۔ ’’چِپ‘‘ (chip) کی صنعت ہی وہ صنعت ہے جہاں امریکا اپنی سبقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے، اور دوسری طرف چین اس شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کرششیں کر رہا ہے۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے G-20 اجلاس میں صدر ٹرمپ اور صدر شی کچھ بھی کہیں لیکن یہ تنازعہ برقرار رہے گا۔ وہ اس لیے کہ ’’کمپیوٹر چِپ‘‘ کو اس وقت ڈیجیٹل معیشت اور قومی سلامتی کے امور میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کاریں ٹائروں پر چلنے والے کمپیوٹر کی شکل اختیار کر چکی ہیں، بینک وہ کمپیوٹر بن چکے، جو رقم کی نقل و حرکت کا باعث بنتے ہیں۔فوجیں اپنی جنگیں لوہے کے ساتھ ساتھ ’’سلی کون ‘‘ سے بھی لڑ رہی ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کوریا اور تائیوان کی صنعتوں کو اس جدیدشعبے پر غلبہ حاصل ہے۔ جب کہ چین ابھی بھی “high-end chips” کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ چین کی Semi conductors کی درآمد کا خرچ تیل کی درآمد کے خرچ سے بھی زیادہ ہے۔فروخت کے لحاظ سے دنیا کی پندرہ بڑی کمپنیوں میں ایک بھی چینی کمپنی شامل نہیں ہے۔

ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے سے پہلے ہی چین اس حوالے سے اپنی منصوبہ بندی کر چکا تھا۔ ۲۰۱۴ء میں چین نے اپنی اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے ایک کھرب یوآن (۱۵۰ ارب ڈالر) کا ’’انوسٹمنٹ فنڈ‘‘ قائم کیا۔ ۲۰۱۵ء میں جاری ہونے والے “Made in China 2025” منصوبے میں بھی Semi conductors کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔

اس جدید صنعت کی ترقی کے حوالے سے چین کے عزائم نے براک اوباما کو کافی پریشان کیے رکھا۔ ۲۰۱۵ء میں اوباما نے ’’انٹیل‘‘ کو اپنی جدید ترین chips چین کو فروخت کرنے سے روک دیا تھا، اس کے علاوہ ۲۰۱۶ء میں جب ایک چینی کمپنی نے ایک چِپ بنانے والی جرمنی کی کمپنی کو خریدنے کی کوشش کر رہی تھی تو امریکا نے اس سودے کو رکوا دیا۔ اوباما کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے وائٹ ہاؤس سے ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں ایسی چینی کمپنیوں کے خلاف اقدام کرنے کی تجاویز دی گئی تھیں جو ’’ٹیکنالوجی ٹرانسفر‘‘ پر بضد تھیں۔ دیگر ممالک نے بھی اسی طرح کے اقدامات کیے ہیں۔ تائیوان اور جنوبی کوریا کے ہاں پہلے سے ہی اس طرح کی پالیسیاں موجود ہیں جن کے تحت چینی کمپنیوں پر جدید ترین آلات خریدنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔

اگرچہ ’’چِپ‘‘ کی یہ جنگ صدر ٹرمپ کے آنے سے پہلے کی ہے ،تاہم صدر ٹرمپ نے اس جنگ میں مزیدتیزی پیدا کر دی ہے۔ انھوں نے Qualcomm کی فروخت کے حوالے سے چین کے ڈر سے سنگاپور کی کمپنی کی کی جانب سے لگائی جانے ولی بولی کو مسترد کر دیا۔اسی سال کے آغاز میں امریکی کمپنیوں کو اپنی “chips” اور ’’سافٹ وئر‘‘چینی ٹیلی کام کمپنی ZTE کو فروخت کرنے پر پابندی لگا ئی۔جس کی وجہ سے یہ کمپنی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔صدر ٹرمپ کے بقول چینی صدر کی اپیل پر فی الحال انھوں نے یہ فیصلہ واپس لیا ہے۔

دو باتیں اب تبدیل ہوچکی ہیں۔پہلی یہ کہ امریکا کو اس بات کا اندازہ ہے کہ اسے چین پر حاصل سبقت صرف اور صرف جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔امریکا نے درآمدات کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کافی پابندیاں لگائیں ہیں،ان ہی پابندیوں کی وجہ سے چینی کمپنی “Fujian Jinhua” بھی متاثر ہوئی ،جس پر الزام تھا کہ اس نے خفیہ ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی کوشش کی تھی۔اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس نئی آنے والی ٹیکنالوجی پر مسلسل پابندیاں لگا رہا ہے۔دوسری تبدیلی یہ آئی ہے کہ چین semi conductors کی صنعت میں خودمختاری کے حصول کے لیے مسلسل کوششیں کر رہا ہے اور اس معاملے میں حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بے پناہ مراعات بھی دے رہا ہے ۔امریکا نے جب ZTE پر پابندی لگائی تو صدر شی نے اپنے ملک کی تمام بڑی کمپنیوں سے رابطہ کیا۔ چین کی تمام بڑی کمپنیاں، جن میں Alibaba,Baidu اور Huawei شامل ہیں، ’’چِپ سازی‘‘ پر سرمایہ لگانے کے حوالے سے یکساں موقف رکھتی ہیں اور چین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ امریکی کمپنیوں کے راستے میں حائل ہو سکتا ہے۔

دونوں ممالک کے مفادات میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ امریکا کے خدشات بھی صحیح ہیں کہ وہ اگر ’’چِپ‘‘ کے شعبے میں چین پر انحصار کرے گا تو اس کی ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح چین کا سپر پاور بننے کا خواب بھی اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اس شعبے میں خودانحصار نہیں ہو جاتا۔ چین اس دوڑ کو جیتنا چاہتا ہے۔ جبکہ امریکا اس دوڑ میں اپنی سبقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکا اپنے اس رویے میں کس حد تک آگے جاسکتا ہے؟ وائٹ ہاؤس کے موجودہ مقیم تو چاہتے ہیں کہ semi conductors کی مکمل فراہمی امریکا منتقل کر دی جائے۔ یہ اچھی سوچ ہے ،لیکن عالمگیریت کے اس دور میں یہ ممکن نہیں۔ امریکا کی ایک کمپنی کے ۱۶۰۰۰سپلائر ہیں، جس میں سے نصف غیر ملکی ہیں۔چین بہت سی صنعتوں کے لیے مرکزی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ Qualcomm اپنی پیداوار کا دو تہائی چین میں فروخت کرتی ہے۔اس صنعت کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سے امریکی صنعت کار اور صارفین دونوں ہی متاثر ہوں گے۔اور یہ مخالفت میں اٹھایا جانے والا ایک ایسا قدم ہو گا جس سے اس صنعت میں موجود مسابقت کی فضاکو نقصان پہنچے گا۔

ویسے اگربڑے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسے کسی قدم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔آج اگر امریکا کو’چِپ سازی‘‘کی صنعت میں سبقت حاصل ہے تو وہ ایسے اقدام سے اپنے حریف کی رفتار کو کم تو کر سکتا ہے لیکن چین کی ترقی کی راہ میں حائل ہونا شاید ممکن نہ ہو۔ جس طرح ’’سلی کون ویلی‘‘ کے عروج کی بڑی وجہ امریکی حکومت کی مدد تھی، بالکل اسی طرح چین بھی اس صنعت کو فروغ دینے کے لیے حکومتی اور کاروباری وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ چین نے ذہین لوگوں کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے ایک مراعاتی پیکیج بنایا ہوا ہے۔ اس معاملے میں تائیوان پر خصوصی نظر رکھی جاتی ہے۔ چین کی Huawei جیسی کمپنیاں ایجادات کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں جب انٹیل پر ’’چِپ‘‘ چین درآمد کرنے پر پابندی لگائی گئی تو اس پابندی نے چینی ’’سپر کمپیوٹر‘‘ کی صنعت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

اس وقت امریکا کے لیے موزوں حکمت عملی کے تین نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ امریکا اپنے اتحادی ممالک اور یورپ کے ساتھ مل کر چین کی غیر قانونی کاروباری سرگرمیوں کو روکنے کے لیے WTO کے فورم پر آواز اٹھائے اور ایسی چینی سرمایہ کاری کو روکے جو قومی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ملک میں تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے اور اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ امریکی حکومت وسائل تو استعمال کر رہی ہے لیکن ’’ٹیلنٹ‘‘ کی تلاش کے لیے اپنے دل اور بڑے کرنے ہوں گے۔ اور تیسرا یہ کہ ایک ایسی دنیا کے لیے تیاری کرے جہاں چینی حاوی ہوں، جہاں ہر طرف چینی ٹیکنالوجی چھائی ہو۔ مطلب یہ کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے آپ کے پا س ٹیسٹنگ کی جدید ترین لیبارٹریاں موجود ہوں تاکہ چین سے درآمد کی گئی چیزوں کی سخت نگرانی کی جاسکے اور خاص طور پر ایسے آلات جن سے ’’ڈیٹا‘‘ منتقل کرنے کا امکان ہو، اس کی سخت چیکنگ ہونی چاہیے۔ اس طرح کے اقدام G-20 کے اجلاس کی شہ سرخیاں تو نہیں بن سکتے لیکن آئندہ کی دنیا پر اپنے اثرات ضرور مرتب کریں گے۔

(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)

“Chip wars: China, America and silicon supremacy”. (“The Economist”. Dec. 1st, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*