جبکہ ہم اپنے حال مست و مال مست معمولات میں مکمل مست ہیں، عامر لیاقت حسین سے لے کر سول ملٹری مناقشہ جیسے متنوع معاملات نے ہماری توجہ کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ بے معنی مباحث اور طعن و تشنیع قومی سطح پر فکر و عمل کی یکسوئی کو پارہ پارہ کیے دے رہے ہیں جبکہ دنیا میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جس پر ہماری تشویش بھری نظر ہونی چاہیے لیکن ہماری اولین ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہم پہلے ایک دوسرے سے تو نمٹ لیں، باقی پھر دیکھا جائے گا۔
بہرحال پھر بھی کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق ہوشیار رہنا ضروری ہے۔
سب سے پہلا نکتہ تو نریندر مودی کی سفارتکاری سے متعلق ہے۔ جس سرعت کے ساتھ نریندر مودی نے اوپر تلے تین دورے چین کے کیے ہیں وہ خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ پھر بھارت نے بھوٹان کی سرحد کے ساتھ ڈوکلام میں چین کے ساتھ تناؤ کو کسی بڑے ٹکراؤ میں بدلنے سے گریز کیا، حالانکہ امریکا کو بھارت کی اس حرکت پر بہت زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔ یہی نہیں، بھارت نے جاپان، امریکا، آسٹریلیا اور اپنے سمیت بننے والے بظاہر چین مخالف اتحاد میں بھی چین سے کشیدگی کا باعث بننے والے کسی بھی اقدام میں شمولیت سے گریز کا عندیہ دیا ہے۔ گویا بھارت چین کو یہ اشارے دے رہا ہے کہ بھارت کے پاس چین کے لیے خاصی سفارتی گنجائش موجود ہے۔ ابھی حال ہی میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت کی آمادگی کے پیچھے بھی چین کی کاوشوں کا دخل بتایا جاتا ہے، یعنی بھارت نے چین کی بات رکھی۔ بھارت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات طویل المیعاد خدوخال کے حامل ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے پاس چین کو آفر کرنے کے لیے ایک مضبوط معیشت، داخلی استحکام اور بڑی مارکیٹ موجود ہے۔ اس وقت بھی چین کے ساتھ اس کی تجارت کا حجم قریب ۸۵؍ارب ڈالر ہے۔ اگر وہ چین کی کچھ بھی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اس کے لیے فائدہ کا سودا ہے، کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد کی قیمت پر ہوگا۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس کی کوششیں اور پاکستان کے داخلی حالات اور آپس کی سر پھٹول مل کر چین کو پاکستان میں اپنے لیے امکانات سے متعلق بدظن کر کے اپنی پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور کر سکتے ہیں۔
اس میں ’’سی پیک‘‘ سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں جو بھارت کا ایک اہم تزویراتی ہدف ہے۔ گو ہم اسے فوری طور پر تو اس سے نہیں جوڑ سکتے، لیکن یہ بات اہم ہے کہ سال ۲۰۱۹ء کے لیے سی پیک کی مد میں کچھ خاص چینی سرمایہ کاری پائپ لائن میں نہیں۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ امریکی بلاک کے ساتھ نسبتاً سرد تعلقات کی وجہ سے پاکستان کے لیے اقتصادی اور عالمی معاملات میں چین، اور کسی حد تک روس کی اہمیت اور بھی دوچند ہو گئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ حالیہ دنوں میں مودی جی نے روس کا بھی دورہ کیا اور صدر پوٹن سے ماضی کے تعلقات اور ان میں پائی جانے والی گرمجوشی کا ذکر نہایت گرمجوشی کے ساتھ تواتر سے کیا۔ بھارت اپنی معاشی پوزیشن کو بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں بہت خوبی سے استعمال کر رہا ہے۔ امریکا ہو یا یورپ اور اب ایک مرتبہ پھر روس، وہ فوراً ہی ہتھیاروں کی خریداری کا لالچ دے کر سفارتی میدان میں مراعات کا خواہاں ہو جاتا ہے۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ابھی نوزائیدگی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ہمیں اس طرف بہت ٹھوس، فوری اور مسلسل کام کی ضرورت ہے۔ سفارتی کامیابیاں یکسوئی سے حاصل ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو فتح کرنے اور نچلا دکھانے کی شوقین اقوام بالعموم اس پھل سے محروم رہ جانے والوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں ’’ففتھ جنریشن‘‘ وار کا بہت تذکرہ رہتا ہے۔ ففتھ جنریشن وار کا بنیادی ہدف عوام اور ریاستی اداروں، بالخصوص فوج، کے مابین غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت اس جارحیت کا سامنا ہے۔ تاہم، اب محسوس یہ ہوتا ہے کہ بات کسی ’’سکستھ جنریشن وارفئیر‘‘ کی جانب چل پڑی ہے۔ گو یہ تخصیص ابھی کہیں مستعمل نہیں لیکن جو کچھ اب ہو رہا ہے وہ اس طرح کی کسی ’’کیٹیگری‘‘ میں ہی رکھا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کا ہدف ریاستی ادارے کا اپنا ڈھانچا ہوتا ہے۔ اس میں نچلے درجے کے ملازمین اور افسران، اور پھر افسران اور اعلیٰ کمانڈ کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً، ان دنوں کارگل کا ذکر اچانک پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ایک کے بعد ایک کتاب سامنے آرہی ہے، ان پر تبصرے ہو رہے ہیں، ہر طرف ’’سچ‘‘ اور ’’سچوں‘‘ کا غلغلہ ہے بہت اچھی بات ہے لیکن جب آپ بار بار یہ بات سننے لگیں کہ ساری جنگیں تو امریکا کے کہنے پر لڑی جاتی ہیں یا اس کی خوشنودی کے لیے ختم کر دی جاتی ہیں۔ یا جرنیل تو کسی اور ملک کے کہنے میں ہیں اور یا پھر انہیں عام سپاہی کے جینے مرنے سے کچھ لینا دینا نہیں وہ تو بس اپنے اللے تللے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور ڈالروں پر ’’بک‘‘ جاتے ہیں تو پھر اس تمام صورتحال سے صرفِ نظر ممکن نہیں رہتا۔ پاکستان میں اس طرح کی بات بھارت سے زیادہ اثر رکھتی ہے کیونکہ پاکستان میں فوج کے سیاست میں مداخلت کے حوالے سے گہری تقسیم موجود ہے۔ پھر پاکستانی فوج کی ہائی کمانڈ جس ’’پروٹوکول‘‘ سے رہتی ہے اس پر بھی تنقید نظروں سے گزرتی رہتی ہے۔ پاکستان کو فوراً اس صورتحال کا نوٹس لینا ہوگا۔ پاکستان اپنی افواج کے افسروں، جوانوں اور ہائی کمانڈ میں ایسے کسی disconnect کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجہ میں کمانڈ کی ساکھ یا جنگ کی وجوہ پر کسی قسم کا اشتباہ پیدا ہو۔ کچھ کوششیں ایسی بھی جاری ہیں کہ لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر فوج کے اندر تفریق پیدا کی جائے۔ افواج کی صفوں میں ہلکا سا گومگو بھی اچھی سے اچھی فوج کا مورال اور استعدادِ کار درہم برہم کر سکتا ہے۔ اس ضمن بھی فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جو کمانڈ اور جذبہ کو ہم آہنگ کر سکیں۔ ہم خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سکستھ جنریشن وار فیئر کسی بھی دیگر کے مقابلے میں ملک و قوم کے لیے کس قدر مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کا راستہ باقی تمام اقوام کی نسبت مشکل ہے۔ پاکستان دنیا میں ایک بہت بڑے Trouble Spot پر واقع ہے اور یہاں کچھ نہ کچھ چلتا ہی رہے گا۔ ہمیں اس سب کا سامنا کرتے ہوئے اپنے روشن مستقبل تک پہنچنا ہے۔ ہمارے پاس Going by the Book کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ اور وہ ’’بک‘‘ ہمارا آئین ہے۔ ہم کسی مہم جوئی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یکسوئی، اتحاد اور داخلی استحکام وہ تین اصول ہیں جو بین الاقوامی برادری میں ہمیں محترم بنا سکتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘)
Leave a Reply