جو بہادری انسان کو موت کے مقابل کھڑا کرکے اس سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتی ہے وہ دنیا بھر میں کمیاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہی کیفیت ہے۔ ہمارے مزاج یا سرشت میں کچھ ایسا ہے جو ہمیں کسی بھی بحرانی کیفیت میں جان کی بازی لگانے سے روکتا ہے۔ ہم ہر حال میں اپنے وجود کو بچانا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے اپنے تمام اصولوں اور اوصاف کی قربانی دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی بحرانی کیفیت میں ہم بہت تیزی سے ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور ہمیں اس سے دامن چھڑانے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ صحیح کیا اور غلط کیا ہے، مگر اس کے باوجود ہم تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپریل ۱۹۷۱ء میں راج شاہی یونیورسٹی کے اساتذہ نے پاکستانی فوج کی موجودگی میں جو رویہ اختیار کیا اس نے بہتوں کو حیران کردیا۔ یونیورسٹی میں میرا پبلک ریلیشز آفیسر ناظم محمود تھا۔ وہ پکا دہریہ تھا اور ہر معاملے میں بائیں بازو کی حمایت کیا کرتا تھا۔ مگر جب کریک ڈاؤن ہوا تو اس نے سر پر ٹوپی رکھنے کو اپنی شناخت بنالیا اور پنج وقتہ نمازی بن گیا۔ اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ایسا کرکے وہ اپنے آپ کو بچالے گا۔ اس کی یہ شرمناک اور ذلت آمیز بزدلی کسی کو متاثر نہ کرسکی۔
اگر کوئی ڈھاکا جیل لائے جانے والے نام نہاد غداروں کے عزائم کی پختگی پرکھنا چاہتا ہے تو اس صورت حال کے تناظر میں پرکھے جس کا انہیں سامنا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ نوجوانوں میں عزم زیادہ راسخ تھا اور وہ کسی بھی موڑ پر ڈگمگانے سے گریز کرتے تھے۔ جن نوجوانوں کی تربیت مدارس میں ہوئی تھی وہ دوسروں سے بہت الگ دکھائی دیتے تھے۔ وہ بہت متحمل مزاج تھے، حالات کی سختی کو عمدگی سے برداشت کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہ دوسروں کے لیے بھی حوصلہ افزا تھا۔ ان میں امید نے کسی بھی مرحلے پر دم نہیں توڑا۔ ان نوجوانوں نے طے کرلیا تھا کہ اپنے آدرشوں کو مرنے نہیں دیں گے۔
کچھ لوگ اس نکتے پر بھی بہت غور کرتے تھے کہ ہم نے جو آدرش اپنے وجود کا حصہ بنا رکھا تھا، وہ عارضی طور پر ہی سہی، ناکامی سے کیوں دوچار ہوا۔
جیل میں ہم سبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کے عادی ہوچکے تھے۔ ہم اپنی کوتاہیوں پر غور کرتے تھے اور ہماری کوشش ہوتی تھی کہ اپنے ماضی کو بیان کرکے اس سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں۔ کوئی نہیں تھا جو حالات کی روش پر غور نہ کرتا ہو اور ملک کو المیے سے دوچار کرنے والے حالات کے اسباب سمجھنے کا خواہش مند نہ ہو۔ انسان ہر حال میں اپنے وجود کو مقدم رکھتا ہے۔ ڈھاکا جیل کے قیدیوں میں بھی ہر ایک سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچتا تھا۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ وہ اس حقیقت کو بھی تسلیم کرتا تھا کہ اس کا مستقبل ملک کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ ان میں صرف دو افراد ایسے تھے جو ہم سے الگ ہوئے۔ یہ دونوں ڈاکٹر عبدالمالک کی صوبائی کابینہ کے ارکان عبیداللہ مُجمدار اور سلیمان تھے، جو اس بات پر سخت تاسف کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کا ساتھ ایک ایسے وقت کیوں دیا جب اس کی موت واقع ہو رہی تھی! ان کے خیال میں نجات کی واحد صورت یہ تھی کہ اپنے جرائم کا اعتراف کرکے شیخ مجیب الرحمٰن سے معافی مانگی جائے۔ شیخ مجیب الرحمٰن ان کے لیے روئے زمین پر خدا کا متبادل تھا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو پاکستان کے حامی نہیں رہے تھے، مگر چونکہ ان کے جرائم کی نوعیت سنگین تھی اس لیے انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔
جب مصیبت سر پر آ پڑتی ہے تو ہر انسان دانش کا مرقع بن جاتا ہے۔ اے ٹی ایم متین سیاست میں کوئی نمایاں حیثیت نہیں رکھتے تھے، مگر وہ بھی سقوط مشرقی پاکستان کو ٹالنے والے حالات کے حوالے سے اپنی رائے دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کو ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد اقتدار سونپنے کی صورت میں المیے کو ٹالا جاسکتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ملک کو چلانا شیخ مجیب الرحمٰن کے بس کی بات نہ تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی مقبولیت فضا میں تحلیل ہو جاتی۔ مولانا نورالزماں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ناکامی کا اصل سبب یہ تھا کہ اس کے حکمران بنیادی آدرشوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۰ء تک لسانی معاملے سے جس طرح نمٹا گیا، اس نے خرابی پیدا کی اور ملک کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کے ۶ نکات تسلیم کرلیے جاتے تو ملک نہ ٹوٹتا۔ جیل میں ایسے لوگ بھی تھے جو (پاکستان کے) غداروں کی مذمت تو کرتے تھے، مگر ساتھ ہی پاک فوج کے مظالم کا بھی رونا روتے تھے۔ ایک طبقہ اس خیال کا حامل تھا کہ ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو حکومتی امور میں اپنی اہلیت ثابت کرنے میں ناکام رہے اور شیخ مجیب کے ہاتھ میں کھلونا بن گئے۔ بعض لوگوں کے خیال میں مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو ان کے حقوق دینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
۱۹۷۰ء کے عام انتخابات کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی تھیں۔ عوامی لیگ کے مقابل تمام سیاسی جماعتیں ناکام رہیں۔ وہ کوئی ایسا اتحاد بنانے میں کامیاب نہ ہو سکیں جو متبادل قیادت کی حیثیت سے کام کرنے کا اہل ہوتا۔ جب بھی عام انتخابات کا ذکر چھڑتا، جیل میں موجود سیاسی قائدین خاموشی اختیار کرتے یا آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور کچھ کہنے کی ہمت نہیں پا رہے ہیں۔ اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑا ہوکر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے یا اس کی پارٹی نے انتخابات کے موقع پر پاکستان کے لیے اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کیا تھا۔ بصیرت سے محرومی اور خود غرضی میں سبھی برابر تھے۔ جس وقت ملک کو ان سے اخلاص درکار تھا، وہ نشستوں کی تقسیم پر لڑ رہے تھے۔ بہت سے دوسرے معمولی امور بھی نزاع کا سبب بنے ہوئے تھے۔ جس بحران سے وہ نظریں چرا رہے تھے اس کے بارے میں خود بھی انہیں یقین تھا کہ وہ ان سمیت سب کو بہاکر لے جاسکتا ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ متحد ہوکر ہی بحران کا سامنا کیا جاسکتا ہے، مگر وہ پھر بھی متحد نہ ہوئے۔
سب کی گفتگو سے صاف اندازہ ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان کے المیے نے انہیں شدید متاثر کیا ہے۔ پندرہ ماہ گزر چکے تھے، مگر اس کے باوجود انہیں مطابقت پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی ان کی زندگی میں پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس لیے وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ ہوا کیا ہے۔
کسی بھی معاملے کا تاریخی پس منظر ایک خاص مدت گزرنے کے بعد ہی واضح ہوتا ہے، تب لوگ اس پر غور کرتے اور کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں۔ یہ اصول ہر قسم کے معاملات پر لاگو ہوتا ہے۔ پس منظر بھی دو قسم کا ہوتا ہے۔ قریب کا اور دور کا۔ جو واقعہ ابھی کل ہوا ہے اس کے بارے میں ہمیں کیا معلوم کہ ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ سال بعد کیسا دکھائی دے گا! جن واقعات کو محدود نقطہ نظر سے دیکھنا ممکن نہ ہو ان کا غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تجزیہ آسان ہو جاتا ہے۔ دو عالمگیر جنگوں کے اسباب اور عوامل پر غور کرنا نپولین بونا پارٹ کے عروج و زوال کے اسباب تلاش کرنے سے بہت مختلف ہے۔ نپولین کا معاملہ محدود ہے، دو عالمگیر جنگوں کا معاملہ خاصا وسیع ہے اور اس میں کئی بر اعظم ملوث ہیں۔
مشرقی پاکستان کے المیے کو گزرے ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ (یہ ۱۹۷۳ء کی بات ہے)۔ اب تک ہم اسے درست پس منظر میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوئے۔ اس کے اسباب صحیح ڈھنگ سے ہماری سمجھ میں نہیں آرہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس سانحے کے اثرات اب تک واضح ہو رہے ہیں اور ہم ان کی زد میں ہیں۔ اس بات کو سمجھنا بہر حال مشکل نہیں کہ ملت کے غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر ہمیں اس المیے سے دوچار کیا۔
غدار کیونکر کامیاب ہوئے، اس سوال پر بحث کی بھرپور گنجائش ہے۔ ایک مرحلے پر ایسا دکھائی دیا جیسے ملک میں کوئی بھی محب وطن نہیں اور سبھی نے دشمن سے ساز باز کرنے والوں کی قیادت قبول کرلی ہے۔ مگر جیل میں اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔ ملک میں ایسے ہزاروں محب وطن تھے جو وطن کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم رکھتے تھے۔ تو پھر وہ اپنے ارادے میں ناکام کیوں رہے؟
میں جانتا ہوں کہ اس سوال کے جواب میں لوگ مشتعل ہوکر کہیں گے کہ ایک بڑی فوج نے ایک آزاد ملک کے بہت بڑے رقبے پر قبضہ کیا۔ اگر غداروں کو بھارتی فوج کی مدد حاصل نہ ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز کامیاب نہ ہو پاتے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان میں جو جاندار آوازیں تھیں وہ بھی کمزور پڑگئی تھیں اور انہوں نے ملک کے بارے میں سوچنا اور بولنا چھوڑ دیا تھا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف چلی گئی تھیں۔ رائے عامہ کو اس قدر متاثر کردیا گیا تھا کہ لوگوں نے مجموعی طور پر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ جب رائے عامہ پاکستان کے خلاف ہوگئی تو بھارتی فوج کے لیے کام آسان ہوگیا۔ کوئی بھی بڑا ملک کسی چھوٹے یا کمزور ملک پر قبضہ کرسکتا ہے، مگر رائے عامہ کو اپنا ہم نوا نہیں بنا سکتا۔ جرمنی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس، بیلجیم اور ہالینڈ پر قبضہ کرلیا تھا۔ ان ممالک میں جرمنوں کو کچھ غدار بھی مل گئے تھے۔ فرانس میں مارشل پٹین اس حوالے سے نمایاں تھا، کچھ لوگ اس کے ساتھ بھی تھے۔ مگر کوئی مؤرخ کسی بھی حال میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ جرمنوں نے فرانسیسی عوام کے جوش و جذبے پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔
ایک فرق اور بھی ہے۔ مارشل پیٹین اور لاول نے بھی کسی مرحلے پر ہٹلر کو نجات دہندہ قرار نہیں دیا۔ جبکہ شیخ مجیب الرحمٰن نے مسز اندرا گاندھی کو بنگالیوں کا نجات دہندہ قرار دے دیا۔ آندرے ملراکس اور ژاں پال سارتر نے مشرقی پاکستان کے المیے کو قومی آزادی کی لڑائی قرار دیا تھا، لیکن امریکا اور برطانیہ میں کوئی بھی بڑی شخصیت خود کو اس قدر واضح انداز سے بنگلہ دیش کے کاز سے جوڑ نہ سکی۔ اس حقیقت کو البتہ جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ مشرقی پاکستان کے المیے کے دوران امریکا اور برطانیہ کے پریس نے باغیوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان اور امریکی سینیٹرز نے اس معاملے میں خود کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر انہوں نے کبھی ایک آزاد و خودمختار ملک، پاکستان کو دو لخت کرنے والے عوامل کی مذمت کی بھی تو بس سرسری انداز سے۔ وہ بڑی آسانی سے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی آسانی سے اتنے سارے لوگوں کو کس طرح بے وقوف بنایا گیا؟ ایسا کون سا طریق کار اپنایا گیا جس نے معاملات کو یوں، یکطرفہ طور پر، پاکستان کے خلاف کردیا؟ ہم معاملات کو الگ تھلگ نہیں کرسکتے۔ سب کچھ ایک ہی تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
میرے خیال میں اس معاملے کے کئی پہلو ہیں، جن پر غور کیے بغیر ہم اُن بین الاقوامی عوامل کو، جنہوں نے امریکا، سوویت یونین اور چین کے رویے کو ڈھالا، سمجھنے میں ناکام رہیں گے۔ امریکا اور سوویت یونین کا رویہ اس قضیے میں کچھ اس نوعیت کا رہا جیسے وہ اس سے یکسر الگ تھلگ رہنے کا تاثر بھی دینا چاہتے ہوں اور بھارت کی مدد بھی کر رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ سوویت یونین نے بھارت کو پاکستان توڑنے کی شہہ کیوں دی؟ امریکا اور چین نے پاکستان کے لیے جس حمایت کا اعلان کیا تھا، اس کا کیا ہوا؟ بھارت کا کردار تو سمجھ میں آتا ہے۔ اسے پاکستان سے نفرت تھی جو ظاہر ہوکر رہی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کا کردار سمجھنا بھی دشوار نہیں۔ غداروں نے دشمن کے اشاروں پر وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ پیچیدگی اس بات کو سوچنے سے پیدا ہوتی ہے کہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کو کیا ہوگیا تھا کہ اس قدر آسانی سے شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے؟
پندرہ بیس سال کے نوجوانوں کو الزام دینا درست نہیں۔ مگر بڑی عمر کے لوگوں نے پاکستان کے قیام سے قبل کلکتہ کے ہاتھوں اپنا استحصال دیکھا اور بھگتا تھا۔ مشرق پاکستان کے علاقوں سے پٹ سن، چائے اور چرمی کھالیں مغربی بنگال جایا کرتی تھیں اور اس کے بدلے میں برائے نام سہولتیں ملتی تھیں۔ مشرقی بنگال مچھلی، پولٹری، انڈے، سبزیاں اور دوسری بہت سی چیزیں بھی فراہم کیا کرتا تھا۔ ترقیاتی کاموں کے فقدان اور رابطوں کی سہولت نہ ہونے کے باعث غیر منقسم بنگال میں مشرقی علاقے پس ماندہ رہ گئے تھے (یا رکھے گئے تھے) اور انہیں عملاً مغربی بنگال کی معاشی غلامی اختیار کرنی پڑی تھی۔ ترقیاتی منصوبوں کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا جاتا تھا کہ مشرقی بنگال میں کوئی بھی بڑا منصوبہ معاشی اعتبار سے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں جس قدر بھی ترقیاتی کام ہوئے انہیں عوامی لیگ نے پس ماندگی کی علامت بناکر پیش کیا۔ حقائق دبا دیئے گئے، اعداد و شمار مسخ کردیئے گئے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ان علاقوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والے مغربی پاکستان کے کاروباری افراد کو استحصالی عناصر ٹھہرایا گیا۔ جس سرمایہ کاری کی مشرقی پاکستان کو اشد ضرورت تھی اسے مغربی پاکستان کے کاروباری افراد کا استحصالی ہتھکنڈا قرار دیا گیا۔ نئی صنعتوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا اور روزگار کی فراہمی کے لیے نئے اداروں کو کس طور چلایا جائے گا، یہ وہ سوالات تھے جن کا جواب تلاش کرنے یا ان کے بارے میں سوچنے سے گریز کیا گیا۔ پاکستانی حکومت کے شدید ترین ناقدین وہ نئے بنگالی سرمایہ دار تھے جنہیں خود وفاقی یا مرکزی حکومت نے پیدا کیا تھا۔ قیامِ پاکستان نے ان پر جو احسان کیا تھا، اسے فراموش کرکے وہ غیر بنگالی سرمایہ کاروں کو نکال کر راتوں رات بے حساب دولت کا مالک بننے کے خواب دیکھنے لگے۔
ایک طرف تو یہ غداری، فریب کاری، حماقت اور خودفریبی کی داستان ہے اور دوسری طرف دوراندیشی کے فقدان، لاعلمی ولاتعلقی اور بے حِسی کی کہانی ہے۔ ان تمام عوامل نے مل کر سانحہ مشرقی پاکستان کو جنم دیا۔
☼☼☼
Leave a Reply