کورونا وائرس کے ہاتھوں عالمی معیشت کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ دنیا بھر میں معیشتیں شدید گراوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ معیشت کا ہر شعبہ لاک ڈاؤن کی زد میں آیا ہے۔ کورونا وائرس نے شدید ترین نوعیت کی میڈیکل ایمرجنسی کی شکل اختیار کی ہے۔ مغرب کے غیر معمولی ترقی یافتہ معاشرے بھی شدید خرابی سے دوچار ہوئے ہیں۔ امریکا کی متعدد ریاستوں کے علاوہ اٹلی سمیت کئی یورپی ممالک بھی لاک ڈاؤن کردیے گئے ہیں۔ ایسی گھمبیر صورتحال میں غیر معمولی ریسپانس کی بھی ضرورت ہے۔ ہر ملک کی معیشت دباؤ میں ہے اس لیے پالیسی سازوں پر غیر معمولی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورت حال نے یورپ کو شدید متاثر کیا ہے۔ ۲۲ مارچ تک معاملہ یہ تھا کہ صرف تین دن میں ۶۱ فیصد اضافے سے کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہوچکی تھی۔ اس دوران امریکا میں ۱۸۵ فیصد اضافے کے ساتھ کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ۲۷ ہزار سے زائد ہوگئی۔
مغربی دنیا میں پالیسی ساز کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے ابھرنے والی صورت حال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں تاکہ موزوں پالیسیاں ترتیب دینا آسان ہو۔ خصوصی پیکیج دینے پر غور کیا جارہا ہے تاکہ کسی نہ کسی طور معیشت کو سنبھالا جاسکے۔ بحر اوقیانوس کے دونوں کناروں پر اس حوالے سے معاملات کا پوری سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔
مغربی دنیا میں پہلے جن معاملات کو ناگزیر سمجھا جاتا تھا اب معیشت کی بحالی کی خاطر اُن میں سے بہت سے معاملات کو ایک طرف ہٹادیا گیا ہے۔ بہت سی حکومتیں اس بات پر زور دیتی رہی ہیں کہ امریکا حکومتی کردار کو زیادہ موثر اور مثبت بنانے پر متوجہ ہو۔
معیشتی بحالی کے لیے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات نہ کیے گئے تو کساد بازاری کی کیفیت زور پکڑے گی۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ معیشتیں ایک بار پھر ابھریں گی مگر یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوگا۔ بڑی اور ترقی یافتہ ریاستوں کو پوری توجہ کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ معیشتوں کی بحالی راتوں رات ہوگی نہ آسانی سے۔ سب کچھ ایک حساب ہی سے ہوگا۔
کورونا وائرس کے بطن سے پیدا ہونے والی بدحواسی اور انتشار جس نوعیت کی معیشتی خرابی پیدا کر رہی ہے، وہ شدید منفی اثرات کی حامل ہوگی۔ اس حقیقت سے تو اب کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ مارچ تا مئی ۲۰۲۰ء معیشتی گراوٹ جاری رہے گی۔ ایسی گراوٹ حالتِ امن میں پہلے کبھی واقع نہ ہوئی تھی۔ یہ ساری خرابی گہری بھی ہے اور دیرپا بھی۔ یورپ کی مجموعی خام قومی پیداوار میں غیر معمولی کمی واقع ہوگی۔ اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بڑھے گا۔ اٹلی، اسپین اور دوسرے متعدد یورپی ممالک کی خام قومی پیداوار میں کم از کم ۱۰ فیصد کی کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔
کورونا وائرس کے باعث سب سے بڑی مصیبت یہ نازل ہوئی ہے کہ معیشتوں کا پہیہ رک گیا ہے۔ بندش کے ماحول نے بے انتہا خرابی پیدا کردی ہے۔ بحالی مرحلہ وار ہی ممکن ہے اور وہ بھی غیر معمولی توجہ اور جاں فشانی سے۔ حکومتوں کو امدادی پیکیج لازمی طور پر دینا ہوں گے۔ سرمایہ کاروں اور صارفین کا اعتماد بحال کرنے میں کچھ وقت تو لگے گا۔ جب تک حکومتوں کی طرف سے پیکیج کا اعلان نہیں کیا جائے گا، طلب نہیں بڑھے گی اور یوں صنعتوں کا پہیہ جام رہے گا۔
یہ وقت سوچنے سے زیادہ فیصلہ کرنے کا ہے۔ نجی کاروباری اداروں کو بچانے کے لیے حکومتوں کو آگے آنا ہوگا۔ ایک طرف تو امدادی یا بیل آؤٹ پیکیج دینا لازم ہے اور دوسری طرف شرح سود میں غیر معمولی کمی بھی لازم ہے۔ دنیا بھر میں شرِحِ سود اس قدر ہے کہ کاروباری اداروں کے کام جاری رکھنا یا کاروبار کو منافع بخش حالت میں رکھنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ مغربی معیشتوں کو اب ’’جاپانی فکیشن‘‘ کی طرف جانا پڑے گا۔ جاپان نے ایک زمانے سے شرحِ سود غیر معمولی حد تک کم کر رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں معیشتی سرگرمیاں تھوڑی سست بھی پڑتی گئی ہیں مگر خیر، جاپانیوں کی طرزِ زندگی کچھ ایسی ہے کہ لوگ نہ زیادہ خرچ کرتے ہیں اور نہ زیادہ مادّہ پرستی کی طرف جاتے ہیں۔
شرحِ سود نیچے لانے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو ٹیکس اور ڈیوٹیز کے حوالے سے بھی ہاتھ ہلکا رکھنا ہوگا۔ کاروباری اداروں کو ٹیکس اور ڈیوٹی کے حوالے سے نمایاں حد تک رعایت دی جانی چاہیے تاکہ وہ دوبارہ ڈھنگ سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں۔
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“Coronavirus and the world economy: What to expect?”. (“theglobalis.com”. March 23, 2020)
Leave a Reply