غیر معمولی جبر و استبداد کے ذریعے ۲۳ سال تک تیونس پر حکومت کرنے والے زین العابدین بن علی کے مستعفی ہونے کے بعد سے تیونس پر متصرف ہونے کے لیے امریکا، فرانس، ترکی اور دیگر قوتوں میں کشمکش جاری ہے۔ فرانس اپنی غالب حیثیت کھو چکا ہے۔
بڑی قوتیں اب جس انداز سے عرب دنیا کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سال رواں کے اوائل میں عرب دنیا میں اٹھنے والی عوامی بیداری کی لہر کو انہوں نے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، مفادات تیزی سے داؤ پر لگ گئے اور اب وہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خطے میں پوزیشن بہتر بنانے کے لیے متحرک ہیں۔ تیونس میں برپا ہونے والے انقلاب کو عالمی برادری نے زیادہ توجہ کے قابل نہیں گردانا تھا۔ تیونس کے حالیہ انتخابات میں النہضہ کی کامیابی نے ثابت کردیا ہے کہ اس سیاسی جماعت کے حوالے سے امریکی اور فرانسیسی میڈیا میں گمراہ کن باتیں آ رہی تھیں جن کا بنیادی مقصد تیونس میں رائے عامہ کو راہ سے ہٹانا تھا۔ شمالی افریقا میں عوامی بیداری کی لہر سے متعلق امریکی اور فرانسیسی میڈیا کی رپورٹنگ اور حقائق میں بھی غیر معمولی فرق پایا جاتا ہے۔
اکتوبر کے عام انتخابات میں النہضہ نے ۴۰ فیصد ووٹ لیے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیونس اب بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے کثیر الجہت پالیسی اپنانے والا ہے۔ بس یہی بات مغربی حکومتوں بالخصوص فرانس اور امریکا کو پریشان کر رہی ہے۔
رپورٹنگ کے مختلف انداز بتاتے ہیں کہ فرانس نہیں چاہتا تھا کہ النہضہ اقتدار میں آئے۔ امریکیوں نے حقیقت پسندانہ سوچ اپنائی اور بدلتی ہوئی صورت حال میں اپنا رویہ تبدیل کرتے ہوئے النہضہ کو قبول کیا اور اس کی حمایت کی۔ فرانسیسی میڈیا نے النہضہ کو بنیاد پرست اسلامی جماعت کے روپ میں پیش کیا، جو جمہوریت لانے کی اہل نہیں۔ امریکی میڈیا نے النہضہ کو جمہوریت نواز جماعت کے روپ میں پیش کیا جو ملک میں رواداری پر مبنی نظام لانا چاہتی ہے۔ استنبول کی سیہر یونیورسٹی کے پروفیسر حسن کوسبلابان اور فاؤنڈیشن برائے سیاسی، معاشی اور سماجی تحقیق کے تجزیہ کار اوفک العطش کا کہنا ہے کہ امریکا اب تیونس میں سرمایہ کاری بڑھانا چاہتا ہے جبکہ فرانس اس کے برعکس اپنی سرمایہ کاری کا دائرہ محدود رکھنے کا خواہش مند ہے۔ تیونس میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے ہی کی غرض سے امریکا نے حالیہ انتخابات میں النہضہ کی حمایت کی۔ امریکی میڈیا بھی النہضہ کی حمایت میں زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ النہضہ جمہوری روایات کے مطابق کام کرسکتی ہے۔ اخبار کا موقف تھا کہ پارٹی کو ایک موقع دیا جائے ورنہ یہ انقلابی رنگ بھی اختیار کرسکتی ہے۔ حسن کوسبلابان کا کہنا ہے کہ امریکا نئے تیونس میں اپنا اثر و رسوخ چاہتا ہے۔ زین العابدین بن علی کے دور میں تیونس میں امریکی اثر و رسوخ برائے نام تھا۔ فرانس کی پوزیشن تب بہت مستحکم تھی۔ ملک میں ۹۰ فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری فرانس نے کر رکھی تھی۔
فرانس نے تیونس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے انقلاب کی ابتداء میں زین العابدین بن علی کی حمایت کی۔ مگر جب عوام کے دباؤ پر انہیں مستعفی ہونا پڑا تو فرانس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرنا چاہیے۔ پیرس نے تیونس سے اپنے سفیر کو یہ کہتے ہوئے واپس بلایا کہ وہ زین العابدین بن علی کی برطرفی روکنے میں ناکام رہے۔ اوفک العطش کا کہنا ہے کہ فرانس صورت حال کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے مفادات بھی داؤ پر لگ گئے۔ معاملات پر اس کی فیصلہ کن گرفت تھی جو اب نہیں رہی۔ حسن کوسبلابان کا کہنا ہے کہ فرانس اب یورپی یونین کے پلیٹ فارم سے نئے اقتصادی منصوبوں کے ذریعے سے تیونس کے معاملات میں اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا رہے گا۔
النہضہ نے واضح کردیا ہے کہ وہ ایسی خارجہ پالیسی اپنائے گی جس میں کسی ایک ملک پر غیر معمولی یا فیصلہ کن انحصار نہ کیا جائے۔ زین العابدین بن علی کے دور میں فرانس کے اثرات بہت گہرے تھے اور ملک کے بیشتر ٹھیکے فرانسیسی اداروں ہی کو دیے جاتے تھے۔
النہضہ عندیہ دے چکی ہے کہ وہ ایسی خارجہ پالیسی اپنائے گی جس میں عالمی برادری سے بہتر تعلقات کو اہمیت دی جائے۔ اسلامی دنیا کو بھی خاص اہمیت دی جائے گی۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے طاقتور اسلامی ممالک سے معاملات بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ النہضہ پارٹی کے سربراہ راشد الغنوشی کہہ چکے ہیں کہ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی تیونس کے لیے رول ماڈل ہے۔ اسلام اور جمہوریت کو ایک دوسرے کے لیے ممکن اور ضروری قرار دیتے ہوئے راشد الغنوشی ترکی کی حکمراں اے کے پارٹی کا حوالہ دیتے ہیں جس نے ایک عشرے کے دوران ترکی کو تبدیل کردیا ہے۔
جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی اور النہضہ کے دوران نظریاتی ہم آہنگی ترکی اور تیونس کے تعلقات خوشگوار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ العطش کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ترکی جلد ہی تیونس کے تمام اہم امور اور بالخصوص معاشی اور خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات میں اجارہ دارانہ پوزیشن میں آ جائے گا۔ ابھی کچھ مدت تک تو فرانس کے اثرات برقرار رہیں گے۔
العطش کہتے ہیں کہ تیونس کے ۷۰ فیصد عوام فرانس کو زندگی گزارنے کا مثالی مقام قرار دیتے ہیں۔ زبان کا عنصر بھی بہت اہم ہے۔ تیونس کے باشندے روز مرہ گفتگو فرانسیسی میں کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ فرانس کے اثرات ختم کرنے میں کئی نسلوں کا وقت لگے گا۔ النہضہ بیشتر معاملات میں بہت محتاط ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ معاشی معاملات میں دوسری جماعتوں کو بھی لے کر چلے تاکہ کسی بڑی ناکامی کی صورت میں تمام ذمہ داری اس کے کاندھوں پر نہ آ گرے۔ ایسی صورت میں وہ مقبولیت کھو بھی سکتی ہے۔ النہضہ جلد مخلوط حکومت قائم کرے گی۔
استنبول کی سیہر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کے پروفیسر مظفر سینل کا کہنا ہے کہ بیشتر عرب ممالک کے مقابلے میں تیونس کا متوسط طبقہ زیادہ مستحکم اور تعلیم یافتہ ہے۔ یورپ سے تیونس کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ اس کے پاس ایک بڑی بندر گاہ ہے جو یورپ کو افریقا میں داخل ہونے میں مدد دیتی ہے۔ تیونس میں تبدیلی کسی خوں ریزی کے بغیر آئی۔ مصر اور لیبیا کی طرز پر تیونس میں قتل عام نہیں ہوا، تشدد کی لہر نہیں آئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیونس آبادی کم اور پڑھی لکھی ہے اس لیے وہاں ترقی تیز رفتار ہوگی۔
(بشکریہ: ’’ٹوڈیز زمان‘‘ ترکی۔ ۶ نومبر۲۰۱۱ء)
Leave a Reply