سی آئی اے کے سینے میں خنجر

مشرقی افغانستان میں پاک افغان سرحد کے نزدیک امریکی فوجی اڈے پر سی آئی اے کے ۷ ؍افسران کو ہلاک کرنے والا خود کش حملہ آور پاکستان سے گیا تھا۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ سی آئی اے کا باقاعدہ مخبر تھا اور کئی بار اس فوجی اڈے پر آچکا تھا۔ فوجی اڈے کے سکیورٹی ڈائریکٹر کے قریبی ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس فوجی اڈے کے بیشتر افسران اور دیگر اہلکاروں کے لیے چنداں اجنبی نہ تھا۔۔۔ امریکا کے مرکزی خفیہ ادارے کو غیر معمولی نقصان سے دوچار کرنے والا حملہ آور پاکستانی تھا۔ اس کا تعلق شمالی وزیرستان کے وزیر قبائل سے تھا۔ فوجی اڈے کا سکیورٹی ڈائریکٹر ارغوان افغان باشندہ تھا اور وہ اسے اپنے ساتھ غلام خان بارڈر کراسنگ سے لے گیا تھا۔ یہ ڈبل ایجنٹ چونکہ سکیورٹی ڈائریکٹر کے ساتھ اس کی گاڑی میں تھا اس لیے معمول کی چیکنگ نہیں کی گئی۔ سرحد سے فوجی اڈے کا فاصلہ دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کا ہے۔

فارورڈ آپریٹنگ بیس چیپ مین (جہاں سے سی آئی اے کے اہلکار طالبان کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں کرتے تھے ) پر حملہ کرنے والے کے بارے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ڈبل ایجنٹ بن چکا تھا۔ غیر معمولی سیکیورٹی کے حامل امریکی فوجی اڈے میں اس قدر جامع در اندازی اور اس کے نتیجے میں سی آئی اے کے ۷ ؍اعلیٰ افسران کی ہلاکت ادارے کے لیے اعلیٰ معیار کی افرادی قوت اور ساکھ کے اعتبار سے بڑا نقصان ہے۔ سی آئی اے کے سابق افسران کا کہنا ہے کہ اس ایک واقعے سے طالبان اور القاعدہ کے خلاف سی آئی اے کی سرگرمیوں اور کارروائیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ سابق افسران کا یہ بھی کہنا ہے کہ خوست کے امریکی فوجی اڈے میں مارے جانے والے طالبان اور القاعدہ کے سینیئر ارکان کے خلاف سرگرم تھے۔ یہ افسران سرحد کے دونوں جانب فعال عسکریت پسند کمانڈروں کے بارے میں معلومات جمع کرتے تھے اور ان معلومات کی بنیاد پر ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی تھی۔ ڈرون کے ذریعے داغے جانے والے میزائلوں کی زد میں آکر القاعدہ کے دس بارہ سینئر لیڈر ہلاک ہوچکے ہیں۔ خوست کے فوجی اڈے پر حملے میں ایک ایسا امریکی فوجی افسر بھی مارا گیا جو ۱۹۹۰ء کے عشرے کے وسط سے اسامہ بن لادن کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اسامہ بن لادن کی تلاش میں رات دن ایک کرنے والے سی آئی اے کے یونٹ کے سابق سربراہ اور سی آئی اے کے تجزیہ کار مائیکل شیوئر کہتے ہیں ’’خوست میں جو کچھ ہوا وہ سی آئی اے کے لیے بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ سی آئی اے نسبتاً چھوٹا ادارہ ہے اور اسامہ بن لادن سے متعلق معلومات اس ادارے کی مجموعی معلومات کا چھوٹا سا حصہ ہیں۔ جن افسران کو نشانہ بنایا گیا ان کے پاس بہت سی کام کی باتیں تھیں۔ وہ تمام معلومات ان کے ساتھ ہی چلی گئیں۔‘‘

خوست کے فوجی اڈے میں خود کش حملہ آور سے بات چیت کے لیے کم از کم ۱۳ اعلیٰ افسران جمع ہوئے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ ان کے لیے اجنبی تھا نہ غیر اہم۔ اگر غیر اہم ہوتا تو اعلیٰ افسران اس سے ملنے میں دلچسپی کیوں دکھاتے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے وہ سی آئی اے کی عمدہ رہنمائی کرتا رہا تھا۔ اگر اس کی اہمیت نہ ہوتی تو وہ فوجی اڈے میں اس قدر آسانی سے داخل نہ ہو پاتا اور اعلیٰ افسران تک آسانی سے ہرگز نہ پہنچ پاتا۔

سی آئی اے کے مورخ ٹم وائنر کہتے ہیں ’’سی آئی اے نے طالبان کو ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا ہے۔ امریکیوں کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے اور طالبان وہی کچھ کر رہے ہیں جو وہ ان حالات میں کرسکتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کا یہی نتیجہ برآمد ہوا کرتا ہے۔طالبان نے کوئی بھی موقع ضائع نہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔‘‘

سی آئی اے کو عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے مخبروں پر انحصار پذیر رہنا پڑتا ہے۔ یہ مخبرسرحد آسانی سے عبور کرلیتے ہیں۔ انہیں کسی بھی علاقے میں داخل ہونے اور آزادی کے ساتھ نقل و حرکت میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ دوسری جانب سی آئی اے کے افسران کسی بھی علاقے میں آسانی سے حرکت پذیر نہیں رہ سکتے۔ سرحد پار کرنا ان کے لیے درد سر ہے کیونکہ پاکستانی علاقوں میں اس بات کا خدشہ بھی رہتا ہے کہ کہیں انہیں گرفتار نہ کرلیا جائے۔ طالبان اور حقانی گروپ کے کمانڈروں کے خلاف کارروائی میں سی آئی اے کو مکمل طور پر ڈرون ہی پر انحصار پذیر رہنا پڑتا ہے۔ مگر اس کے لیے مخبروں کی خدمات بھی ناگزیر ہیں۔ ڈرون کے ذریعے جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ان کی نشاندہی مخبر ہی کرتے ہیں۔

(بشکریہ: ’’دی ٹائمز‘‘ آن لائن، لندن۔ ۲ جنوری ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*