تین سال بعد: دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آئندہ مراحل
Three Year After: Next Steps in the War on Terror
یہ رینڈ کارپوریشن کی تازہ ترین دستاویز‘ جس میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں سے بحث کی گئی ہے اور تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کے زاویۂ نظر کو سمجھنے کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ سرسری نظر ڈالنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے اسباب کے ایک نہایت غلط اور ناقص فہم پر مبنی ہے۔ چنانچہ اصل اسباب کو قصداً نظرانداز کرتے ہوئے اس میں جو حل تجویز کیے گئے ہیں‘ ان سے صورتِ حال کے مزید الجھنے اور زیادہ پیچیدہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔ دستاویز کے مصنفین رینڈ کے خود ساختہ ماہرین ہیں جو امریکی حکومت کے محکموں سے متعلق ہیں اور ان میں سے بعض یہودی پس منظر کے حامل ہیں‘ ان کے مطابق دہشت گردی کی واحد قابلِ توجہ قسم وہ ہے جسے ذرائع ابلاغ نے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کا نام دیا ہے۔ چنانچہ امریکا کی ریاستی دہشت گردی جس کا وحشیانہ اظہار آج عراق میں ہو رہا ہے‘ اس کے ذکر سے پرے ہے۔ اس دستاویز میں لگے بندھے خیالات کا اظہار کرنے والے ماہرین دہشت گردی کی دوسری مختلف شکلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اسلامی دہشت گردی کو امریکی مفادات کے لیے ایک بنیادی چیلنج قرار دیتے ہیں۔
اسلامی دہشت گردی کی تشخیص میں بھی رینڈ کے خود ساختہ ماہرین کی ایک ناقابلِ معافی جہالت کا اظہار ہے۔ عالمِ اسلام میں اقتصادی‘ ثقافتی اور سیاسی بے اطمینانی کے اسباب کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ جن میں امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطین پر اسرائیلی قبضہ اور مسلم ممالک میں جابر پٹھو حکمرانوں کا تسلط شامل ہے‘ یہ ماہرین اسلامی تشدد کو محض ایک نظریاتی مظہر سمجھتے ہیں۔ دستاویز کے ایڈیٹر دائود ہارون جو امریکی حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ہیں اور اس وقت رینڈ کارپوریشن کے ساتھ سینئر فلو کی حیثیت سے منسلک ہیں‘ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ ایک نظریاتی جنگ ہے‘ جس میں اسلام کا کردار وہی ہے جو کسی زمانہ میں امریکی تصورات کے مطابق کمیونزم ادا کر رہا تھا۔ یعنی اسلامی تشدد پسندی کا نظریہ عملی حالات و اثرات سے بالکل مجرد ہے اور اس کا کوئی تعلق ان سماجی حقائق سے نہیں ہے جو اس کو پیدا کرنے اور اسے تسلسل دینے کے ذمہ دار ہیں۔
پہلا حل رینڈ کارپوریشن کی ایک ماہر چیری بینارڈنے‘ جو بش کے اعلیٰ سطحی معاون اور عراق میں امریکی سفیر ’زلمے خلیل زاد‘ کی اہلیہ ہیں‘ نے ’’اسلام میں جمہوریت: اسلامی دنیا میں جدوجہد۔ امریکا کے لیے حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ میں پیش کیا ہے۔ بینارڈ نے ایک بہت بڑا اور پُرتخیل منصوبہ پیش کیا ہے جس کی امریکا کو پیروی کرنی چاہیے تاکہ اسلام کے ایک ایسے ورژن کو فروغ دیا جاسکے جو امریکی ہدایات کا فرماں بردار ہو‘ وہ اس قسم کے اسلام کو ’’ماڈرنسٹ‘‘ یعنی جدیدیت پسند اسلام کہتی ہیں اور اس سے ان کی مراد ایسا اسلام ہے جو مغربی پروٹسٹنٹ ازم سے معمولی طور پر ہی مختلف ہے اور سرمایہ دارانہ نظام میں مطمئن رہ سکتا ہے۔
دستاویز میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوسرا حل عسکری قوت کا استعمال تجویز کیا گیا ہے۔ یہ بھی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں‘ امریکا بالکل معصوم ہے اور اسلامی تشدد پسندی محض مذہب کے ساتھ جنونی لگائو کا نتیجہ ہے۔ دستاویز میں اس موقف کو پال ولفووٹز (ورلڈ بینک کا حالیہ صدر) نے پوری قوت سے پیش کیا ہے‘ جو عراق پر امریکی حملے کے بنیادی منصوبہ سازوں میں سے ایک ہے۔ امریکا کے ظالمانہ امپریلسٹ ماضی‘ افریقی غلامی کے داغ‘ مقامی باشندوں کی امریکی نوآبادکاروں کے ہاتھوں تباہی اور نام نہاد تیسری دنیا میں بلامبالغہ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت جس کا امریکا بنیادی طور پر ذمہ دار ہے‘ ان تمام حقائق سے آنکھیں چراتے ہوئے ولفووٹز یہ دعویٰ کرتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عراق پر حملہ‘ نہ قبضے کی غرض سے ہے اور نہ امریکا کی شہنشاہیت قائم کرنے کے لیے‘ اس کے بجائے یہ ایک اصولی جنگ ہے اور اس کا محرک آزادی اور جمہوریت ہے اور اسی چیز نے امریکی تاریخ کے آغاز ہی سے امریکا کو متحرک کر رکھا ہے۔
(بشکریہ: پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات‘‘۔ لکھنؤ۔ شمارہ۔ ۱۰ فروری ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply