مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی تحریکوں کی ابھرتی ہوئی قوت نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عشروں سے برسراقتدار سیکولر حکمرانوں کی رُسواکن رخصت یا متوقع علیحدگی کے بعد وہاں اسلامسٹ ہی واحد سیاسی قوت بن کر سامنے آرہے ہیں۔ مغرب میں اس وقت یہ موضوع ہر جگہ زیر بحث ہے کہ ماضی سے مختلف رویہ رکھنے والے آج کے اسلامسٹوں سے کس طرح ڈیل کرنا چاہیے؟
٭ پچھلے دو عشروں کے دوران مسلم دنیا میں دو دلچسپ اور باہم متضاد رویے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف تو القاعدہ اور اس سے متاثر عسکری تنظیمیں ہیں، جو امریکی بالادستی (Hegemony) کے خلاف مسلح بلکہ پرتشدد جدوجہد پر یقین رکھتی ہیں بلکہ القاعدہ تو ایک قدم آگے بڑھ گئی ہے۔ افغان طالبان اور عراق کے سنی عرب تو اپنے ملک کو غیر ملکی افواج سے آزاد کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جب کہ القاعدہ کے منصوبہ سازوں نے اس جنگ کو مغرب کے اپنے شہروں تک لے جانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف بڑی اسلامی تحریکوں نے غیر معمولی محتاط پالیسی اپنائی، مصر اور عرب ممالک میں اخوان المسلمون اور ان سے متاثر تیونس کی النہضہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے القاعدہ کی فکر کو بڑی شدت سے مسترد کیا اوران کے خلاف فکری تحریک چلائی۔ اس کے دو مقاصد تھے، ان کے نوجوان کارکن عسکریت پسندی کی طرف نہ چلے جائیں، دوسرا امریکا اور یورپ میں موجود متعصب لابی کو اسلامی جماعتوں کے خلاف مغربی رائے عامہ ہموار کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
٭ اخوان المسلمون کے اندر آنے والی تبدیلیاں سب سے اہم ہیں کہ یہ اسلامی دنیا کی سب سے پرانی اور اپنے پھیلائو کے اعتبار سے اہم ترین تنظیم ہے۔ مصر کے ایک اسکول استاد حسن البناء نے ۱۹۲۸ء میں اس کی بنیاد ڈالی۔ حسن البناء درد دل رکھنے والے صوفی اور اسکالر کے ساتھ ساتھ سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ اخوان کی کامیابی بڑی حیران کن رہی، تاہم ان کے لیے پچاس، ساٹھ اور بعد کی دہائیاں بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئیں۔ سید حسن البناء ۱۹۴۹ء میں اپنے دفتر سے باہر قتل کر دیے گئے۔ ۱۹۵۴ء میں ناصر پر ایک قاتلانہ حملے کے بعد مصری حکومت نے اخوان کو بڑی سفاکی کے ساتھ کچل دیا۔ اخوان المسلمون مسلسل حکومتی جبر کا شکار رہی۔ اخوان المسلمون نے بڑی سختیاں برداشت کیں، مگر ان سے سبق بھی سیکھے۔ ناصر کے انقلاب میں ساتھ دینے کو اخوانیوں نے اپنی تباہ کن غلطی گردانتے ہوئے یہ تہیہ کر لیا کہ وہ آئندہ کسی قسم کے خفیہ انقلاب کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اخوان نے یہ طے کر لیا کہ صرف اور صرف پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانی ہے، وہ بھی بتدریج۔ حتیٰ کہ اخوانی قیادت اپنے لیے انقلابی کے بجائے ریفارمر کی اصطلاح استعمال کرتی رہی۔ اخوان نے اپنی اصلاحات کا ایجنڈا تین بنیادی نکات پر استوار کیا۔ آزادی، عدل اور ترقی (Freedom’ Justice’ Development) دو ماہ پہلے مصر میں آنے والے عوامی انقلاب میں بھی اخوانیوں نے حیران کن عزم و ایثار کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ یہ مظاہرے منظم کرنے اور لوگوں کو اکٹھا کرنے میں ان کا بنیادی کردار تھا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد اخوانیوں پر مشتمل تھی مگر انہوں نے کسی بھی مرحلے پر نمایاں ہونے یا اپنا جھنڈا اور سلوگن استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عوامی جدوجہد کی کامیابی کو وہ اخوان کے بجائے پورے مصری معاشرے کی کامیابی قرار دیتے رہے۔ ان کی یہ محتاط پالیسی ابھی تک جاری ہے۔ اس وقت جب کہ پورا مغربی میڈیا یہ کہہ رہا ہے کہ اخوان ہی مصر کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں، اخوان المسلمون نے پہلے یہ اعلان کیا کہ وہ مصری صدارتی انتخابات میں اپنا امیدوار کھڑا نہیں کریں گے۔ دوسری حیران کن پالیسی یہ بنائی گئی کہ وہ صرف پچاس فیصد پارلیمانی نشستوں پر اپنے امیدوار دیں گے۔ اخوان نے اپنی تنظیم اور سیٹ اپ کو غیر سیاسی رکھتے ہوئے سیاسی عمل کے لیے ایک علیحدہ سے تنظیم ’’فریڈم اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ بنا دی ہے۔ جس کا باقاعدہ طور پر اخوانی سیٹ اپ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس سیاسی تنظیم میں عیسائیوں خصوصاً قبطیوں کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔ دراصل اخوانی قیادت نہیں چاہتی کہ ان کی یکایک کامیابی سے مغرب میں ان کے مخالفین کو پروپیگنڈا کرنے اور ان پر وار کرنے کا موقع ملے۔
٭ یہی حکمت عملی ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے اختیار کی۔ نجم الدین ارکان کی نسبتاً سخت اور بے لچک پالیسیوں کی ناکامی کے بعد طیب اردگان، عبداللہ گل اور ان کے ساتھیوں نے نئی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بنائی۔ طیب اردگان اور ان کے ساتھیوں نے کمال مہارت سے روایتی دائیں بازو کے ساتھ ساتھ سینٹر میں رہنے والے ووٹروں اور لبرل لیفٹ کو ساتھ ملا کر سخت گیر سیکولر فوج کے خلاف جدوجہد کی۔ انہوں نے ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی کہ ہم لوگ سوشلی کنزرویٹو، مگر پولیٹیکلی لبرل ہیں۔ اس لیے ملک میں جمہوریت لانے، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ، لبرل اکانومی، نجکاری، بزنس فرینڈلی ماحول اور جمہوری روایات کے استحکام کے ساتھ ساتھ یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔ یوں انہوں نے نہ صرف مغرب کی مخالفت کو نیوٹرل کر لیا بلکہ لبرل حلقوں اور طاقتور بزنس لابی کو بھی ساتھ ملا لیا۔ اگلے ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر جسٹس پارٹی کی کامیابی یقینی نظر آرہی ہے جس کے بعد ایک نئے آئین کی تشکیل کا کام شروع ہو جائے گا۔
٭ حیران کن طور پر سب سے مایوس کن منظر نامہ پاکستان کا نظر آرہا ہے۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ جماعتیں تو کئی ہیں، بریلوی، دیوبندی، شیعہ اور اہل حدیث علماء کرام کی جانب سے اپنے روایتی مذہبی حلقوں پر مبنی سیاسی جماعتیں موجود ہیں، تاہم حقیقی معنوں میں دینی جماعت صرف ایک ہی ہے… جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی کی تاریخ اور اس میں وقت کے ساتھ آنے والے پیچ و خم سے سب واقف ہیں۔ جماعت اسلامی کو یہ سہرا جاتا ہے کہ تمام اسلامی تحریکوں میں سے وہ واحد ہے جس نے ابتدا ہی میں طے کر لیا کہ صرف پرامن دستوری جدوجہد ہی کی جائے گی۔ کسی بھی قسم کے خفیہ انقلاب سے دور رہنے کا جو فیصلہ سید مودودی نے ساٹھ سال قبل کیا تھا، اس نے جماعت کو محفوظ بھی رکھا۔ سیاسی جدوجہد میں گاہے مشکلات بھی آئیں مگر وہ اس طرح سے ریاستی تشدد کا نشانہ نہیں بنی، جیسا کہ پچاس، ساٹھ اور ستر کے عشروں میں دیگر اسلامی تنظیموں کو سہنا پڑا۔ جماعت اسلامی پر پرواسٹیبلشمنٹ ہونے کا الزام وقتاً فوقتاً لگتا رہا، جو کوشش کے باوجود زائل نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی یا ہماری دیگر مذہبی تنظیموں کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ اخوان یا ترکی کی طرح رائٹ اینڈ لیفٹ آف دی سینٹر ووٹروں کو متوجہ نہیں کر سکیں۔
٭ پاکستانی سیاست اور معاشرے میں اس وقت جو نظریاتی مردنی چھائی ہے، اس کی ایک ذمہ دار ہماری دائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔ ماضی میں حکومت الٰہیہ قائم کرنے اور معاشرے میں تبدیلی لانے کی خواہش رکھنے والے دینی مزاج کے نوجوان ادھر کا رخ کرتے تھے۔ آج ان جماعتوں میں کاغذات پر تو شاید کوئی تبدیلی کا ایجنڈا ہو، مگر ان میں وہ انقلابی فکر، جذبہ اور تحرک نظر نہیں آتا۔ ستر کے عشرے کے بعد ہمارے دائیں بازو نے ٹھوس مذہبی فکر رکھنے والی کوئی شخصیت پیدا نہیں کی۔ اکا دکا دینی اسکالر جنہوں نے ان سے تربیت پائی، بعد میں وہ ان جماعتوں ہی کے شدید مخالف ہو گئے۔ لے دے کر دائیں بازو کے چند صحافی ہی پورے دائیں بازو کی نظریاتی رہنمائی کرتے رہے۔ جب وہ صحافی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور،غیر متعلق یا ’’عملیت پسندی‘‘ کا شکار ہوئے تو دائیں بازو کا ذہنی افلاس کھل کر سامنے آگیا۔ نائن الیون کے بعد کے منظر نامے میں ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ خوف کے باعث مصلحتاً یا شاید سوچ سمجھ کر ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں نے القاعدہ اور ان کے زیر اثر گروپوں کی متشدد پالیسیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ مصر کے برعکس جہاں اخوانیوں نے باقاعدہ القاعدہ مخالف لٹریچر تیار کیا اور کھل کر مزاحمت کی، ہمارے ہاں دبی دبی مزاحمت (Passsive resistance) بھی نہیں کی گئی۔ دائیں بازو کی ذمہ داری تھی کہ وہ امریکی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کا عزم رکھنے والے نوجوانوں کی رہنمائی اور ان کے لیے ایک پرامن جمہوری پلیٹ فارم مہیا کرتا۔ اس کے بجائے ہماری دینی جماعتیں بے بسی اور خاموشی سے ایک کونے میں دبک کر نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی گود میں جاتا دیکھ رہی ہیں۔ اس مجرمانہ غفلت کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا، بلکہ ان کے آثار نظر آنے شروع ہوگئے ہیں۔ ہمارے دائیں بازو کے لیے اب لازمی ہو گیا کہ وہ دینی مزاج رکھنے والی نوجوان نسل کے لیے ایک نئی پیراڈائم تیار کرے، ان کو ایک پرکشش، قابل عمل آپشن دے کر عسکریت پسندی کی طرف جانے کے بجائے اپنی طرف متوجہ کرے۔ یاد رہے کہ وقت کم رہ گیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘۔ ۲۳ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply