عالم عرب میں جمہوریت

امریکا نے 9/11 کے بعد سے اپنی باجگزار ریاستوں کو چمکارنے کی پالیسی تبدیل کرکے انہیں ڈرا دھمکا کر اپنی بات منوانے کا طریقہ اختیار کیا۔ امریکا نے افغانستان اور عراق کے بعد بعض عرب ملکوں اور دیگر ممالک کی جانب اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے ان میں ایران‘ شام‘ مصر اور الجزائر وغیرہ شامل ہیں۔ عرب ملکوں سے امریکا کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنی ریاستوں میں بتدریج اور فوری اصلاحات کے ذریعے جمہوری نظام رائج کریں۔

اس صورتحال میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے لیکچر سیریز کے تحت ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ ’’عالمِ عرب میں جمہوریت: پس منظر‘ پیش منظر اور امکانات‘‘ کے موضوع پر ہونے والے اس سیمینار کی صدارت اکیڈمی کے سینئر وائس چیئرمین سینیٹر پروفیسر عبدالغور احمد نے کی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ڈائریکٹر خارجہ امور عبدالغفار عزیز اور صحافی و دانشور ثروت جمال اصمعی مہمان مقررین تھے۔

عبدالغفار عزیز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مصر کے حالیہ انتخابات سے صرف مسلمان ہی خوش نہیں ہوئے بلکہ اس سے مصر میں جمہوری نظام کے قیام کے لیے آزادانہ انتخابات کا مطالبہ کرنے والوں کی نیندیں اڑا دی گئی ہیں۔

امریکا کا موقف تھا کہ عرب دنیا میں دہشت گردی کی اصل وجہ آمریت ہے۔ لہٰذا امریکی صدر جارج بش نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں جمہوریت لائی جائے۔ مگر مصر میں اخوان المسلمون کی کامیابی نے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ جارج بش نے مصر کے صدر حسنی مبارک پر اتنا دبائو ڈالا کہ مصری حکمران یہ مطالبہ ماننے پر مجبور ہوگئے۔

ایک امریکی تھنک ٹینک نے مصر کے انتخابات پر اپنی رپورٹ میں لکھا کہ وائٹ ہائوس کو حسنی مبارک پر اتنا دبا ئو نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اگر صحیح طور پر جمہوری انتخابات ہوگئے تو پھر امریکا کے حامیوں کا جنازہ نکل جائے گا۔ لہٰذا تھنک ٹینکس نے رائے دی کہ ’’ہمیں اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر اسرائیل۔عرب تنازعات‘ تیل اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ایسی پالیسی اختیار کرنی ہوگی کہ وہ حکومتیں بھی ہمارا ساتھ دیں کیونکہ اگر جمہوری حکومتیں قائم ہوگئیں تو وہ کلی طو رپرہمارے منصوبے کو پاپۂ تکمیل تک پہنچانے میں مددگار نہیں ہوسکیں گی۔‘‘

عبدالغفار عزیز نے کہا کہ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا کو خوف دلانے کے لیے حسنی مبارک کی حکمت عملی نے اخوان المسلمون کو کامیابی دلانے میں اہم کردار ادا کیا؟ تو اس کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ کیونکہ اخوان المسلمون کی جڑیں عوام میں ہیں‘ ان کا نیٹ ورک منظم ہے انہوں نے ووٹرز کو متحرک کیا اور خود کو کنویں کا مینڈک بنانے کے بجائے دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے کیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اخوان کے مرشد عام سید عاطف مہدی نے نوجوانوں سے جگہ جگہ یہ بات کہی کہ اگر تم پر تشدد ہو یا ظلم و جبر کا رویہ اختیار کیا جائے تو بالا جھجھک یہ کہہ دیا کرو کہ ’’مہدی عاکف نے مجھ سے یہ سب کرنے کو کہا ہے۔‘‘ پھر حسنی مبارک حکومت نے اخوان پر یہ الزام لگایا کہ یہ مصر کی صدیوں پرانی مستحکم روایت کو بدلنا چاہتے ہیں اور سیکولر ازم ختم کرکے چودہ سو سال پرانا نظام لانا چاہتے ہیں۔ مگر پھر بھی اخوان کو پذیرائی ملی حالانکہ اخوان کا نعرہ تھا کہ ’’اسلام‘‘ ہی تمام مسائل کا واحد حل ہے۔مصر میں توقع کے برعکس نتائج کے بعد اب فلسطین‘ افغانستان اور عراق کے انتخابات امریکا ہدف ہیں۔ وائٹ ہائوس یہ چاہتا ہے کہ مذکورہ ملکوں میں انتخابات کے بعد پہلے سے زیادہ مطیع اور فرمانبردار حکمراں سامنے آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اب امریکا کی کوشش یہ ہے کہ ’’اسلامی تحریکوں‘‘ کے اندر غلط فہمیاں پیدا کی جائیں۔ اس میں وائٹ ہائوس اگرچہ کہ بعض جگہ کامیاب رہا ہے تو کہیں اسے ناکامی بھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر فلسطین کی الفتح موومنٹ نے انتخابات جیتنے کے لیے جب یو ایس ایڈ سے امداد کی درخواست کی تو ان کے سامنے دو شرائط رکھی گئیں۔ اول یہ کہ ’’حماس‘‘ کی پرزور مخالفت کرنی ہوگی اور دوم یہ کہ اسرائیل‘ فلسطین مذاکرات کی کھل کر حمایت کرنی ہوگی۔ اگر یہ شرائط منظور ہیں تو فلسطین کے اندر کسی بھی بینک میں اپنے ۲۰ اکائونٹس کی نشاندہی کردیں اسے بھر دیں گے۔ مگر الفتح نے ان کی یہ پیشکش مسترد کردی۔ مگر حماس کا اثر و نفوذ کم کرنے کی امریکی پالیسی ختم نہیں ہوئی۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل پر الزام لگایا گیا کہ وہ تنظیم کے پرانے ساتھیوں کو اہمیت نہیں دے رہے اور اہم فیصلوں میں انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب امریکا نے مراکش میں کامیابی حاصل کرلی جہاں کی اسلامی پارٹی کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ اس طرح ترکی میں نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی سے جسٹس پارٹی بنائی گئی اور اب جسٹس پارٹی کے بنیادی ارکان نے الگ جماعت قائم کرلی ہے۔عبدالغفار عزیز نے مزید کہا کہ امریکا کے لیے دوسرا چیلنج اب القاعدہ ہے۔ مصر میں انتخابات کے موقع پر ایمن الظواہری کے ویڈیو بیان نے ہدف کے تیز تر حصول کے لیے واشنگٹن کی پالیسی کو نقصان پہنچایا ہے۔ کیونکہ ایمن الظواہری کے بیان سے عام عربی بھی متاثر ہے اور وہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ ’’جہاد‘‘ ہی اصل راستہ ہے۔ تاہم مستقبل کے حالات کیا ہوں گے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا ہو یا اسلامی تحریکیں دونوں کے لیے اب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام بلکہ عوام کے ذہنوں کی تبدیلی ان کا اصل ہدف ہے۔ صحافی و دانشور ثروت جمال اصمعی نے عالمِ عرب میں جمہوریت کے پسِ منظر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بالخصوص فلسطین کے تاریخی پارلیمانی انتخابات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی حکومت میں اب حماس کی شمولیت کو روکنا کسی کے بس میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔ چنانچہ مغربی طاقتیں بھی اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہی ہیں اور یورپی یونین کی کمشنر برائے خارجہ تعلقات بنیتا فریرو نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم الفتح اور حماس دونوں فریقوں کے ساتھ مستقل اور قابلِ اعتماد تعاون کرتے رہیں‘ اور ہم ان کو اپنا تعاون پیش کرتے رہیں گے جو پُرامن ذرائع سے امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ بنیتا فریرو نے یہ بھی کہا کہ اقتدار میں حماس کی شرکت کے باوجود فلسطینی انتظامیہ سے تعاون برقرار رکھیں گے۔ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ یہ بات یقینی ہے کہ نئی فلسطینی پارلیمنٹ کا نقشہ موجودہ پارلیمنٹ سے بالکل مختلف ہو گا۔ یہ انتخابات فلسطین کی سیاست سے الفتح کی اجارہ داری ختم کرنے کا ذریعہ ثابت ہوں گے۔ اور اسرائیل کو اب مسلح مزاحمت کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پر بھی حماس کی سخت جان قیادت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر میں اکیڈمی کے سینئر وائس چیئرمین سینیٹر پروفیسر غفور احمد نے سیمینار میں شریک تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر اکیڈمی کے ڈائریکٹر سید شاہد ہاشمی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔

(رپورٹ: محمد آفتاب احمد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*