عزیز بروٹس! خرابی کا سبب ہمارے ستارے نہیں بلکہ خود ہم ہیں اس لیے کہ ہم زیردست بنے ہوئے ہیں۔
کلچر کو بھی عموماً ستاروں کی طرح اپنی ناکامیوں کا ذمے دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ایک بہتر دنیا کی تعمیر کی کوششیں تہذیبی مزاحمت کے گہرے سمندروں میں غرق ہوجاتی ہیں۔ عالمی سطح کے عصری مکالمات میں جہاں بھی جمہوری ریاست‘ خوشحال معیشت یا ایک متحمل مزاج سماج نہ ہو وہاں کلچر کو اس کا ذمے دار قرار دے کر یاسیت پھیلانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔
یقینا تہذیبی ساخت ہمارے طرز فکر کے تعین میں نہایت موثر ہوسکتی ہے لیکن جب بھی تہذیبی عصبیت اور سماجی مظہر میں کوئی اتفاقی تعلق رونما ہوتا ہے(خواہ وہ کتنا ہی عمومی نوعیت کا کیوں نہ ہو) ایک نظریہ جنم لے لیتا ہے اور وہ اس وقت بھی اپنی موت سے انکار کردیتا ہے جب اُس اتفاقی تعلق کا مظہر اس کا اثبات کیے بغیر معدوم ہوچکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آئرلینڈ کے اُن باشندوں کے خلاف بھرپور لطیفے جن کا سکہ انگلستان میں چل چکا تھا اس وقت پوری طرح چسپاں ہوتے دکھائی دیتے تھے‘ جب آئرلینڈ کی معیشت کی حالت بہت بُری تھی‘ لیکن جب آئرلینڈ کی معیشت نے کئی برس تک کسی بھی یورپ ملک کے مقابلے میں حیرت انگیز طور پر تیزی سے ترقی کرنا شروع کردی تو اُس وقت بھی اس کے کلچر سے متعلق پیش یا افتادہ مقولوں کو لایعنی قرار دے کر ترک نہ کیا گیا۔ نظریوں کی اپنی زندگیاں ہوتی ہیں اور وہ زیرِ چشم حقیقی دُنیا کے مظاہر سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں۔
۱۹۶۰ء کے عشرے میں دُنیا نے مشاہدہ کیا کہ جنوبی کوریا اور گھانا کی فی کس آمدنی یکساں تھی۔ تیس برسوں میں پہلا دوسرے سے ۱۵ گنا زیادہ امیر ہوگیا‘ یہ تقابلی تاریخ مطالعے اور تجزیے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے لیکن گھانا کے باشندوں یا افریقی کلچر کو اس کا مورد الزام ٹھہرانا (جیسا کہ سیموئل ہنٹنگٹن جیسے معتبر تجزیہ نگار نے کیا ہے) اس کی قبولیت میں مانع ہے۔ مسٹر ہنٹنگٹن نے اپنے تضاد کا اختتام اس عجیب فارمولے پر کیا کہ :’’جنوبی کوریا کے باشندوں نے کفایت شعاری‘ سرمایہ کاری‘ محنت شاقہ‘ تعلیم‘ تنظیم اور نظم و نسق جیسے اوصاف اپنائے مگر گھانا کے باشندوں کی اقدار مختلف تھیں۔قصہ مختصر‘تہذیبوں کی اثر پذیری مسلم ہے۔‘‘اس تجزیے کے مطابق گھانا کے باشندوں اور شاید متعدد دوسرے افریقیوں کا گلنا سڑنا ان کا مقدر ہے۔
دراصل داستانِ تہذیب انتہائی گمراہ کن ہے۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں گھانا اور جنوبی کوریا کے مابین تہذیبی ساخت میں امتیازات کے علاوہ بہت سے دیگر اہم فرق بھی موجود تھے۔ اولاً دونوں ملکوں کا طبقاتی ڈھانچہ بالکل مختلف تھا۔ کوریا میں کاروباری طبقوں کا کردار بہت نمایاں اور حددرجہ فعال تھا۔ ثانیاً‘ دونوں ممالک کی پالیسیاں بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں۔ جنوبی کوریا کی حکومت معاشرتی اصلاحات اور اقتصادی ترقی کے لیے متحرک کردار ادا کرنے کے جذبے سے سرشار تھی لیکن گھانا میں یہ عنصر معدوم تھا۔ ثالثاً کوریائی معیشت کے ایک طرف جاپانی اور دوسری جانب امریکا کے ساتھ قریبی ربط سے بہت بڑا فرق رونما ہوا‘ کم از کم کوریائی معیشت کی وسعت کے ابتدائی مراحل پر یہ حقیقت پوری طرح صادق آتی ہے۔ رابعاً (اور شاید اہم ترین عنصر یہی ہے) ۱۹۶۰ء کے عشرے میں جنوبی کوریا نے خواندگی کی نہایت اعلیٰ شرح حاصل کرلی تھی اور اس کا تدریسی نظام گھانا کے مقابلے میں بہت زیادہ وسعت پذیر تھا۔ کوریا میں اسکول کی سطح کی تعلیم میں زبردست ترقی دوسری عالمی جنگ کے بعد کے زمانے میں وقوع پذیر ہوئی جس کی سب سے بڑی وجہ پرعزم پبلک پالیسی تھی۔ اس مظہر کو محض تہذیبی اختلاف کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ تہذیبی عناصر ترقی کے عمل سے غیر متعلق ہیں بلکہ صحیح تر یہ ہے کہ وہ سماجی‘ سیاسی اور اقتصادی اثرات سے دور رہ کر روبعمل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وہ ناقابل تبدل ہیں۔
تہذیبی مزاحمت کی بنیاد پر اقتصادی یاسیت کا تقابل سیاسی ناامیدی خصوصاً جمہوریت کی سحر انگیزی سے کرنا آج کا معمول بن چکا ہے اور اسے تہذیبی عدمِ امکان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عراق میں بڑے پیمانے پر غیرملکی اور فوجی منصوبہ بندی کے ذریعے جمہوریت کی بحالی کے بارے میں بڑھتے ہوئے شبہات کی تفہیم کافی آسان ہوگئی ہے۔ یہیں سے ہم ایک ایسے ملک میں جمہوریت لانے کے عمومی امکان پر شکوک کا شکار ہوجاتے ہیں جو اس وقت جمہوری نہیں ہے۔ یہ امر یاد آوری کے قابل ہے کہ ایشیاء‘ افریقا اور لاطینی امریکا جیسے ممالک میں جمہوریت خوب پھلی پھولی اور جنوبی افریقا جیسے بعض ممالک میں بیرونی حمایت سے مقامی جمہوری تحریکوں کو تقویت ملتی رہی ہے۔
جب یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ آیا مغربی ممالک غیر مغربی دنیاپر جمہوریت ’’مسلط‘‘کرسکتے ہیں تو اس سوال کی زبان ہی ’’تسلط‘‘ کے نظریے کی آئینہ دار ہونے کے باوصف ابہام کا موجب بنتی ہے کیونکہ اس میں یہ عقیدہ مضمر ہوتا ہے کہ جمہوریت مغرب کی ’’ملکیت‘‘ ہے۔ اور یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ اس ’’مغربی‘‘ نظریے نے کا ملاّ مغرب میں جنم لیا اور وہیں پھلا پھولا۔ تاریخ اور جمہوریت کے عصری امکانات کی تفہیم کا یہ مکمل طور پر گمراہ کن راستہ ہے۔
ایک معروف محاورے کے مطابق ڈیمو کریسی ’’گفت و شنید کے ذریعے حکومت‘‘ کا نام ہے اور ووٹنگ اس وسیع منظرنامے کا صرف ایک جزو ہے۔ (کاش عراق میں مداخلت کے بعد اس تصور کو کسی حد تک ہی تسلیم کرلیا جاتا اور وسیع پیمانے کی عوامی بحث اور آزاد سول سوسائٹی کی شرط کے بغیر پولنگ کا سیدھا راستہ اختیار کرلیا جاتا) لاریب‘ جدید جمہوری تصورات اور عوامی استدلال کامنہج گزشتہ چند صدیوں سے یورپی اور امریکی تجزیوں و تجربات سے متاثر ہوتا چلا آیا ہے (اس میں مارک دی کنڈوسٹ‘ جیفرسن‘ میڈیسن اور ٹاک ویل جیسے مفکرین کی سوچ کا بھی بڑا دخل ہے) لیکن نسبتاً حالیہ تجربات کو ماضی پر محمول کرکے نتائج اخذ کرنا اور ان کی بنیاد پر اعلیٰ مثالی صورت گری کرتے ہوئے مغرب اور غیرمغرب میں طولانی امتیاز روا رکھنا ایک عمیق ضلالت ہوگی۔ دنیا بھر میں عوامی سطح پر استدلال کی ایک طویل تاریخ ہے‘ اگرچہ ہر جگہ اس میں زیرو بم بھی آتے رہے مگر مغرب میں گزشتہ تین صدیوں کے دوران آزادی روی کو برداشت کرنے کی جو شدید ترجیح ظہور پذیر ہوئی وہ اس امر کی غماز ہے کہ کس طرح سماجی ارتقاء ایک رجحان کو مضبوط و مستحکم کرتا اور دوسرے رجحان کی نفی کرتا ہے۔
جمہوریت کے ’’مغربی‘‘ ہونے کے نظریے کا تعلق عام طور پر یونان(خصوصاً ایتھنز) میں سب سے پہلے ووٹنگ اور انتخابات منعقد کرانے کے عمل سے جوڑا جاتا ہے۔ اگرچہ جمہوریت ووٹنگ سے بڑھ کر ایک چیز ہے پھر بھی محض ووٹنگ کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مختلف تہذیبوں کی تعریف نسلی بنیادوں پر متعین کرنے کی بے ھنگم درجہ بندی ملے گی۔ تہذیبی درجہ بندی کو اس انداز سے دیکھا جائے تو اس کے نسلی جانشینوں کی شناخت میں کوئی دشوار ی پیش نہیں آتی۔ مثلاً گوتھ (Goths) اور وسی گوتھ (Visigoth) یونانی روایات کے وارث کہلاتے ہیں (ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ سب یورپی ہیں) لیکن یونان کے اپنے مشرق یا جنوب کی تہذیبوں کے ساتھ علمی روابط کا بھی خیال رکھنے سے اجتناب برتا جاتا ہے حالانکہ یونانی خود ایرانیوں‘ ہندوستانیوں اور مصریوں سے تبادلہ خیال کرنے میں زبردست دلچسپی لیتے رہے۔ کیونکہ عوامی استدلال کی روایات تقریباً تمام ممالک میں پائی جاتی ہیں اس لیے جدید جمہوریت کی تعمیر عام انسان کی تہذیبی وراثت کے مکالماتی حصے پر کی جاسکتی ہے۔
(بشکریہ: واشنگٹن پوسٹ)
Leave a Reply