اسلامی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ میں عرب بہار یا بنیاد پرستی کی بات نہیں کر رہا۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ مسلم دنیا میں شرحِ پیدائش گر رہی ہیں اور عرب خواتین میں بھی شادی سے گریز کا رجحان تقویت پا رہا ہے۔
امریکی انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ کے ماہر نکولس ایبرٹیٹ نے دو حالیہ مقالوں میں اپنی تحقیق کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ ان دونوں مقالوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں آبادی کے اضافے کے حوالے سے واویلا بے بنیاد ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے مگر بہت جلد ایسی کیفیت پیدا ہوگی جو آبادی میں کمی کی راہ ہموار کرے گی۔
نکولس ایبرٹیٹ نے اپوروا شاہ (Apoorva Shah) کی معاونت سے تحریر کیے جانے والے اپنے مقالے کا عنوان ’’مسلم دنیا میں گھٹتی ہوئی شرح پیدائش : ایسی وسیع تبدیلی جس کا نوٹس نہیں لیا گیا‘‘ رکھا ہے۔ مسلم اکثریت والے ۴۹ ممالک اور خطوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر نکولس ایبرٹیٹ نے بتایا ہے کہ ۸۰۔۱۹۷۵ء اور ۱۰۔۲۰۰۵ء کے درمیان دنیا بھر میں شرح پیدائش ۳۳ فیصد کی حد تک گھٹی مگر اسلامی دنیا میں یہ شرح ۴۱ فیصد تک ہے۔
۲۲؍ مسلم اکثریتی ممالک یا خطوں میں شرح پیدائش ۵۰ فیصد سے زائد گھٹی ہے۔ تین عشروں کے دوران متحدہ عرب امارات، ایران، عمان، بنگلہ دیش، الجزائر، تیونس، لیبیا، البانیہ، قطر اور کویت میں شرح پیدائش ۶۰ فیصد تک گھٹی ہے۔
ایران میں تین عشروں کے دوران شرح پیدائش میں ۷۰ فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو تاریخ میں شرح پیدائش میں رونما ہونے والی سب سے بڑی کمی ہے۔ ۲۰۰۰ء تک ایران میں شرح پیدائش دو بچے فی عورت ہوچکی تھی، جو موجودہ آبادی کی جگہ لینے کے لیے کافی نہیں۔
جولائی ۲۰۱۲ء میں برطانوی اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ اگر ایران میں آبادی کے حوالے سے موجودہ رجحانات برقرار رہے تو رواں صدی کے آخر تک آبادی نصف رہ جائے گی۔ مسلم دنیا کے بڑے شہروں میں بھی آبادی تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے۔ نکولس ایبرٹیٹ نے لکھا ہے کہ امریکا میں صرف چھ ریاستوں میں شرح پیدائش استنبول سے کم ہے۔ ایران کے دارالحکومت تہران اور ایک بڑے شہر اصفہان میں کسی بھی امریکی ریاست کے مقابلے میں کم شرح پیدائش پائی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں یہ بات عام ہے کہ جب دولت عام ہوتی ہے اور خوش حالی بڑھتی ہے تو آبادی میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ مسلم دنیا میں بھی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے تو اس کا واحد سبب یہ نہیں کہ خوش حالی بڑھ رہی ہے اور ترقی کا عمل تیز ہے بلکہ کچھ اور اسباب بھی ہیں۔ عرب دنیا میں شرح پیدائش تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔
سی آئی اے کی فیکٹ بک کے مطابق مسلم دنیا میں شرح پیدائش ایبرٹیٹ کے اندازے سے زیادہ ہے تاہم افریقا کے صحرائے صحارا کے زیریں علاقوں، لاطینی امریکا اور ایشیائی ممالک سے کم ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیش کیے جانے والے ایک مقابلے میں نکولس ایبرٹیٹ نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں شرح پیدائش گھٹنے کا ایک بنیادی سبب شادی سے گریز ہے۔ لوگ دیر سے شادیاں کر رہے ہیں۔ بہت سے ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ ڈھلتی عمر میں شادی کرتے ہیں۔ یورپ اس کی واضح ترین مثال ہے۔ اور دیر سے شادی کرنے پر بھی کم بچے پیدا کرنے کا رجحان ہے۔ طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے۔ یورپ میں لوگ شادی کے بندھن سے باہر بچے پیدا کر رہے ہیں۔ شادی کے جھمیلوں سے بچنے کے لیے حرام کے بچے پیدا کرنے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ خواتین میں شادی کی شرح تیزی سے گر رہی ہے، جرمنی میں یہ شرح ۱۹۶۵ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان اعشاریہ ۹۸ سے اعشاریہ ۵۹، فرانس میں اعشاریہ ۹۹ سے اعشاریہ ۶۱، سوئیڈن میں اعشاریہ ۹۸ سے اعشاریہ ۴۹ اور برطانیہ میں یہ شرح ایک سے اعشاریہ ۵۴ ہوگئی ہے۔
ایشیائی خواتین میں بھی شادی نہ کرنے کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ جاپان میں ۳۰ سے ۳۴ سال کی عمر تک شادی نہ کرنے والی خواتین کی تعداد تین عشروں میں تین گنا (۲ء۷ فیصد سے ۶ء۲۶ فیصد) سے زائد ہوگئی ہے۔ برما میں ۳ء۹ فیصد سے ۹ء۲۵ فیصد، تھائی لینڈ میں ۱ء۸ فیصد سے ۱ء۱۶؍ فیصد اور جنوبی کوریا میں ۴ء۱ فیصد سے ۷ء۱۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔
عرب دنیا میں اب بھی شادیاں کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے، مگر مجموعی طور پر شادی کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعداد میں کمی یورپ کے ۱۹۸۰ء کے رجحان سے بھی تیز تر ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یورپ اور مشرقی ایشیا میں تو تیز رفتار ترقی نے شادی کرنے کے رجحان کی بیخ کنی کی مگر عرب دنیا میں مجموعی طور پر ترقی اور خوش حالی اِتنی زیادہ نہیں کہ لوگ شادی سے بھاگیں۔
نکولس ایبرٹیٹ کا کہنا ہے کہ عرب دنیا میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور کسی نے اس پر متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ عرب دنیا میں اس وقت نوجوان بڑی تعداد میں ہیں مگر آبادی کے رجحانات نشاندہی کرتے ہیں کہ دو نسلوں کے بعد عرب دنیا کے بیشتر ممالک میں کام کرنے والوں کی تعداد گھٹے گی اور کچھ کیے بغیر گزر بسر کرنے والے معمر افراد کی تعداد میں خطرناک رفتار سے اضافہ ہوگا۔ عرب دنیا اس وقت تو نوجوانوں کے دم سے خاصی پرجوش دکھائی دیتی ہے مگر اس وقت کیا ہوگا، جب عرب معاشروں میں آمدنی کی سطح خاصی کم ہوگی اور دوسروں پر منحصر معمر افراد کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوچکا ہوگا۔
(“A Demographic Shift in the Muslim World”… “Washington Post”. Feb. 9th, 2013)
Leave a Reply