جنوبی ایشیا میں خواتین کی حالتِ زار

بھارت کے کنوارے وزیراعظم ہمیشہ مخالف جنس سے مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ پچھلے سال انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد اپنی والدہ کے گھر جا کر انہوں نے اپنے آپ کو ماں کی تعظیم کرتے ہوئے دکھانے کی کوشش کی، لیکن وہ انہیں حلف برداری کی انتہائی اہم تقریب میں نہ بلا سکے۔ وہ اکثر خواتین کی عزت و احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ خواتین کو ایسے رشتوں سے مخاطب کرتے ہیں، جن سے مرد کا غلبہ یا پھر عورت کے تحفظ کے لیے مرد کے لازم ہونے کا تاثر ملتا ہے، جیسا کہ مائیں، بہنیں اور بیویاں۔ یہ باتیں ان کی ساکھ بہتر کرنے میں کوئی خاص مدد نہیں کر رہیں کیوں کہ وزیراعظم کے انتخاب تک انہوں نے اس بات کا اقرار نہیں کیا تھا کہ ان کی ایک بیوی ہے، جس کے ساتھ انہیں کم عمری میں شادی پر مجبور کیا گیا اور پھر وہ اس کے ساتھ رہے بھی نہیں۔ مودی جو کہ گفتگو کے دوران لفظوں کے چنائو کے حوالے سے کافی محتاط رہتے ہیں، خواتین کے معاملے میں اکثر غیر ضروری بات کر جاتے ہیں۔

۷ جون کو بنگلادیش کے کامیاب دورے کے دوران مودی نے میزبان وزیراعظم حسینہ واجد کی تعریف کرتے ہوئے نہایت سطحی جملہ کہا، ’’وہ خاتون ہونے کے باوجود دہشت گردوں پر بہت سخت ہیں‘‘۔ ناقدین نے اس بیان پر اُن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ یہ بہت شرمناک بات ہے کہ جو لوگ ملک کو ماں کا درجہ دیتے ہیں وہ خواتین کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح کے خیالات صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں عام ہیں۔ یہ پورا خطہ خواتین کو عزت اور برابری کی سطح کے مواقع دینے میں ناکام رہا ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی سیاست میں خواتین کا کردار نمایاں رہا ہے۔ چین، جاپان اور روس جیسے ممالک میں کوئی خاتون ابھی تک وزیراعظم یا صدر نہیں بن سکی۔ جنوبی ایشیا میں ایسا کافی دفعہ ہوا ہے۔ اگر ہیلری کلنٹن آئندہ انتخابات میں امریکا کی صدر منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ دنیا کی طاقتور ترین جمہوریت کی سربراہ ہوں گی اور اس سے ٹھیک پچاس سال پہلے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی سربراہی پہلی دفعہ ایک خاتون، یعنی اندرا گاندھی نے سنبھالی تھی۔ ۱۹۶۰ء میں سری لنکا کی سری ماوہ بندرانائیکے دنیا کی پہلی خاتون سربراہ بنی تھیں۔ اس ملک کی خصوصیت ہے کہ یہاں ماں اور بیٹی دونوں اعلیٰ سیاسی عہدوں پر فائز رہیں۔ ۹۰ کی دہائی کے آخر میں چندریکا کمارا تنگا ملک کی صدر تھیں، جب کہ ان کی بوڑھی ماں وزارت عظمیٰ (رسمی عہدہ) کی تیسری مدت مکمل کر رہی تھیں۔ جنوبی ایشیا کی جمہوریتوں میں خواتین کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی ایک وجہ ان خواتین کا بڑے سیاسی خاندانوں سے تعلق بھی ہے۔ بنگلادیش میں دو برسر پیکار خواتین نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کوئی دوسرا سیاست میں جگہ نہ بناسکے۔ شیخ حسینہ اس بات کو کبھی لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہونے دیتیں کہ وہ اس ملک کے مقتول بانی شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں۔ ان کی حریف اور اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا نے بھی اپنے شوہر (ملک کے صدر رہے ہیں) کے قتل کے بعد سیاست کا آغاز کیا۔ پاکستان کی واحد خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو (جو کہ ایک مقبول وزیراعظم تھے) کی پھانسی کے بعد سیاست کا آغاز کیا۔ بھارت میں بھی کچھ سنجیدہ حلقوں میں یہ بات کی جا رہی ہے کہ پریانکا گاندھی کانگریس کی مستقبل کی قیادت ہیں، کیونکہ ان کی والدہ سونیا اور دادی اندرا گاندھی بھی کانگریس کی قیادت کر چکی ہیں۔

بے شک جنوبی ایشیا، اشرافیہ کی خواتین کے لیے سیاست میں حصہ لینے کے لیے بہترین جگہ ہے، لیکن عام خواتین کے لیے دنیا کی بدترین جگہ بھی۔ مخصوص طبقے کی خواتین کو ملنے والی آزادی عام خواتین پر کیے جانے والے ظلم کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔

برطانوی خیراتی ادارے سیودی چلڈرن (Save the Children) نے مئی میں دنیا بھر سے مائوں سے متعلق اعداد و شمار Mother Index جاری کیے، جس میں جنوبی ایشیا کی خواتین کی صورتحال بہت خراب دکھائی دیتی ہے۔ ادارے نے ۱۷۹؍ممالک کی فہرست مرتب کی ہے، جس میں خواتین کی فلاح، دوران زچگی اموات، چھوٹے بچوں کو زندگی کی سہولیات اور خواتین کے سیاسی کردار کو پیمانہ بنایا گیا ہے۔ اس فہرست میں جنوبی ایشیا کی خواتین کی صورتحال بہت بُری ہے۔ فہرست کے مطابق بھارت (۱۴۰)، پاکستان (۱۴۹) اور افغانستان (۱۵۲) نمبر پر ہے۔ اس کے برعکس چین زندہ بچوں کی پیدائش اور چھوٹے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے ۲۱ ویں نمبر پر قدرے بہتر ہے۔

لیکن اس خطے میں خواتین کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا میں صحت پر جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد خرچ کیا جاتا ہے، چین ۳ء۱ فیصد خرچ کرتا ہے۔ اس کم بجٹ کا بوجھ بچوں کی نگہداشت کرنے والی مائوں پر پڑتا ہے۔ اس صورتحال کی بڑی وجہ غربت ہے، عالمی ادارہ صحت کے ۲۰۱۲ء کے اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا میں ایک آدمی کی صحت پر حکومتی اور نجی فنڈ ملا کر بھی سالانہ کم و بیش پچاس ڈالر ہی خرچ کیے جاتے تھے۔ افریقا میں اس سے دگنا خرچ کیا جاتا تھا، جبکہ مشرقی ایشیائی ممالک میں جنوبی ایشیا سے دس گنا زیادہ خرچ کیا جاتا تھا۔ اس کے بر عکس شمالی امریکا میں سالانہ ایک آدمی کی صحت پر ۸،۵۰۰ ؍ڈالر خرچ کیے جاتے تھے۔

جنوبی ایشیا میں خواتین پر لگائے جانے والے وسائل کی تقسیم بھی کسی بھی جگہ کی نسبت زیادہ غیر منصفانہ ہے۔ دہلی میں طبقۂ اشرافیہ کی خواتین کو صحت کے حوالے سے عالمی معیار کی سہولیات حاصل ہیں۔ دوسری طرف اسی شہر میں غریب طبقے کی خواتین کے لیے صحت کے حوالے سے بنیادی سہولیات کی صورتحال دیہی علاقوں سے بھی بدتر ہے۔ دہلی میں صرف ۱۹ فیصد خواتین ایسی ہیں جن کو بچے کی پیدائش کے وقت کسی ڈاکٹر کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ ایسی خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے تقریبا آدھے بچے خسرہ کا شکار ہو تے ہیں، جبکہ ہر ۵ میں سے ۳ بچے نامکمل نمو کا شکار ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں موجود وسائل سے ہی صورتحال بہتر بنانے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں رائج عدم مساوات کو ختم کیا جائے، اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب خواتین کے حوالے سے موجود روایتی رویوں کو تبدیل کیا جا ئے گا۔

(مترجم: حافظ محمد نوید نون)

“Despite being a woman”.
(“The Economist:. May. 19, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*