ادھر کچھ دنوں سے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (Nato) یہ کوشش کر رہی ہے کہ وہ مغرب کے عسکری بازو کے طور پر اپنے کردار اور اثرات کو یورپ و ایشیا کے علاقوں تک توسیع دے۔ فوجی اور سکیورٹی امور کے ماہرین اس رجحان پر ہمیشہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور یہ خیال کرتے رہے ہیں کہ دنیا کے اس حصے تک نیٹو کی توسیع منفی نتائج کی حامل ہو گی۔ سرد جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ۱۹۴۹ء میں نیٹو کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ تنظیم ۱۶ اراکین پر مشتمل تھی اور اس کے قیام سے ان رکن ممالک کا مقصد اپنی سرزمینوں کا دفاع کرنا، سویت یونین کی بڑھتی ہوئی قوت کو روکنا اور ممکنہ حد تک مارکسی اثرات کو ختم کرنا تھا۔ سویت یونین کے تاریخ بن جانے کے بعد نیٹو کے ارکان ۲۶ تک پہنچ گئے۔ گزشتہ ۱۵ سال کے عرصے میں اس کے اتحادیوں میں جو توسیع ہوئی اور اس کے ارکان کی تعداد میں جو اضافہ ہوا وہ امریکا کی طویل المیعاد حکمتِ عملی سے ہم آہنگی اور مطابقت کی آئینہ دار ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ نیٹو اب امریکی خط کی پیروی میں مصروف ہے اور اس کی خطرناک یکطرفیت (Unilateralism) کو عالمی سطح پر استحکام بخش رہی ہے۔ مابعد سویت یونین نیٹو کے لیے جو سب سے زیادہ تزویراتی اہمیت کے حامل علاقے ہیں۔ وہ وسطی ایشیا اور قفقاز کے علاقے ہیں۔ ان علاقوں میں امریکا کی فوجی موجودگی کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ اور ’’امن کی جانب اٹھائے گئے اقدام‘‘ جیسے پُرکشش نام دیے گئے ہیں۔ بہرحال اس طرح کے اقدامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا کے خفیہ اور علانیہ ایجنڈوں کے لیے نیٹو کا غلط استعمال ہوتا رہا اور یہ گروہ روس اور چین کے مفادات کو موثر طریقے سے چیلنج کرتا رہا۔ لیکن موخرالذکر دونوں ممالک نے باہمی ارتباط کو بڑھا دیا اور دیگر اقدامات کے علاوہ شانگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے قیام کے ذریعہ اس تزویراتی اہمیت کے حامل علاقے میں امریکی بالادستی کی مزاحمت کی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ SCO یورپ و ایشیا کے مشترکہ علاقوں میں سکیورٹی اور فوجی امور کے حوالے سے مخاصمت میں شدت کا سبب بنی ہے اور اس نے انھیں علاقائی اور علاقے سے ماورا قوتوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی سے پیدا ہونے والے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ گیارہ ستمبر اور افغانستان و عراق میں امریکی جارحیت کے بعد نیٹو اپنے علاقے اور اپنی جغرافیائی حدود سے ماوراء علاقے میں موجودگی کے جواز کو پھر سے ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ محفوظ طریقے سے جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ نیٹو نے اپنے آپ کو استقلال کے ساتھ مغربی کرۂ نصف (Hemisphere) کے سکیورٹی و فوجی بازو میں تبدیل کر لیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس بات کی بھی نشاندہی ضروری ہے کہ کرغستان اور اُزبکستان میں اپنی افواج کی تعیناتی اور فوجی اڈوں کے قیام کے ذریعہ تنظیم نے علاقے کے متصلہ ممالک کی عدم سلامتی میں اضافہ کیا ہے۔ ایک سرسری جائزے کی روشنی میں بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ علاقے کے عدم استحکام پر توجہ اور اس کا تدارک صرف ہمسایہ ممالک کے
تعاون کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ ممالک مشترکہ سکیورٹی اہداف کا تعین کریں اور اپنی سکیورٹی کے معاملات کی تنظیم بغیر کسی نامطلوب اور بے فائدہ بیرونی مداخلت کے خود کریں۔ علاقے کے عوام کے نقطۂ نظر سے بیرونی قوتیں عام طور سے اپنے سیاسی محرکات کی بنا پر آتی ہیں اور ان کا مقصد مغربی مفادات کے تحفظ کے لیے نئی راہیں تلاش کرنا ہوتا ہے اور اس مہم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں اور سیاسی ماہرین دونوں ہی اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ سویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد نیٹو کو تاریخ کے عجائب خانہ میں ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال منصوبہ سازوں نے اس گروہ کے لیے نئی سرگرمیوں اور ذمہ داریوں کا تعین کر لیا جو کہ اس کے بنیادی چارٹر سے بالکل متصادم ہے۔ نئے مینڈیٹ کے ساتھ نیٹو تنظیم یورپ و ایشیا سے متصل علاقوں، وسط ایشیا اور بالخصوص قفقاز کے علاقوں میں نفوذ کی کوشش کر رہی ہے۔ مسائل سے دوچار اس علاقے کی جغرافیائی و سیاسی اہمیت اور تزویراتی حساسیت کے پیشِ نظر نیٹو کی توسیع علاقے کے ممالک کے لیے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔ جنگ زدہ اور دہشت زدہ افغانستان اس کی صرف ایک مثال ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ نیٹو کی توسیع بڑی طاقتوں کو توانائی برآمد کرنے کے راستوں پر قابض ہونے کی ترغیب فراہم کرے گی اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ علاقے کے ممالک اپنی بقا کے لیے سرتوڑ کوشش کریں گے۔ نیٹو کے جغادریوں کو دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے۔ باخبر اذہان اس فوجی تنظیم کے توسیعی پروگرام کے پیچھے ’’دہشت گردی سے مقابلہ‘‘ کے خوشنما عنوان کے حقیقی محرکات سے بخوبی آگاہ ہیں۔
(بشکریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘ تہران۔ شمارہ: ۳ ؍اکتوبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply