کرپشن اسکینڈل ترکی میں اب بھی سیاسی مباحث کا اہم موضوع ہے۔ اگرچہ وزیراعظم رجب طیب اردوان نے اپنے تین وزراء کو مستعفی ہونے کا کہہ دیا ہے لیکن جو دستاویزات اور ثبوت فاش ہوئے ہیں اور ذرائع ابلاغ تک پہنچے ہیں، ظاہر کرتے ہیں کہ اردوان پولیس آپریشن سے چند مہینے قبل ہی اسکینڈل کے بارے میں با خبر تھے۔
خبری ویب سائٹ (ٹی۲۴۔کام۔ ٹی آر) نے حال ہی میں خفیہ تنظیم نیشنل انٹیلی جنس آرگنائزیشن (ایم آئی ٹی) کی رپورٹ شائع کی ہے، جو وزیراعظم اردوان کو پیش کی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ایم آئی ٹی ایرانی تاجر رضا ضراب کی مبینہ طور پرمنی لانڈرنگ کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھی۔
ایم آئی ٹی نے اپریل ۲۰۱۳ء میں وزیراعظم کو رضا ضراب کی سرگرمیوں اور کابینہ کے دو ارکان، معمر گلر (Muammer Guler) جو اس وقت وزیر داخلہ تھے اور ظفر کغلیان (Zafer Caglayan) جن کے پاس اس وقت خزانہ کا قلمدان تھا، کے درمیان قریبی تعلقات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق ایم آئی ٹی نے اردوان کو رضا ضراب کے دو وزرا سے قریبی تعلق کے ممکنہ نتائج سے خبردار کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ اگر یہ بات میڈیا تک پہنچ گئی تو ملک کی داخلی سیاست پر اس کے سنگین اثرات ہوں گے۔ نا تو ایم آئی ٹی اور نہ ہی وزیراعظم ہاؤس سے اس رپورٹ کی تردید کی گئی ہے۔ رپورٹ میں چند ایک دلچسپ تفصیلات ہیں، جنہوں نے اردوان کو مشکل صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے۔ رپورٹ میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اگر درست ہے، تو اردوان بالواسطہ کرپشن میں ملوث ہیں۔
ایم آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق رضا ضراب نے ۱۲؍اپریل کو معمر گلر سے رابطہ کیا اور اپنے بھائی کے لیے ترک شہریت کی درخواست کی۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ رضا ضراب کو وزیر داخلہ کی جانب سے ایک روز بعد مثبت جواب ملا۔ ایرانی تاجر نے اپنے بھائی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ معمر گلر کے بیٹے بارس گلر ان سے ملاقات کریں گے اور ان کی ترک شہریت کی درخواست کابینہ کے پہلے اجلاس میں منظور کرلی جائے گی۔ ایم آئی ٹی نے رضا ضراب اور معمر گلر کے درمیان یہ گفتگو سنی اور ۱۸؍ اپریل ۲۰۱۳ء کو اردوان کو آگاہ کردیا۔
وزیراعظم کو مشکوک ایرانی تاجر اور کابینہ کے ارکان کے درمیان ہونے والی گفتگو کے بارے میں جان کر کیا کرنا چاہیے تھا؟
کم ازکم مجھے یہ توقع تھی کہ وزیراعظم سب سے پہلے قابلِ اعتماد خفیہ تنظیم ایم آئی ٹی کے خبردار کرنے پر ایرانی تاجر کے بیٹے کی شہریت کی درخواست کو روکتے، اور اس پر مزید تفتیش کی ہدایات دیتے۔ تاہم مزید تفتیش کی ہدایات دینے کے بجائے، وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے تمام ارکان نے محمد ضراب کی شہریت کی درخواست پر دستخط کردیے اور ۲۲ جولائی ۲۰۱۳ء کو انہیں ترک شہریت عطا کردی۔
استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ ایرانی تاجر نے اپنے والد، بھائی، رشتہ داروں اور ملازمین سمیت پانچ ایرانی شہریوں کی ترک شہریت حاصل کرنے کے لیے کابینہ کے ارکان کو پچاس لاکھ ڈالر رشوت دی۔
کوئی یہ فرض کرلے کہ کابینہ کے دیگر ارکان اس بات سے نا واقف تھے کہ ایرانی تاجر اور وزیر داخلہ کے درمیان کیا گفتگو ہوئی ہے،تاہم ایم آئی ٹی کی رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اردوان کو رضا ضراب اور معمر گلر کے درمیان ہونے والی گفتگو سے مطلع کردیا گیا تھا۔
جیسا کہ سرکاری طور پر ایم آئی ٹی کی بدعنوانی سے متعلق اس رپورٹ کی کوئی تردید سامنے نہیں آئی ہے، لہٰذا کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ وزیراعظم کو ان خفیہ تعلقات کے بارے میں علم تھا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے کیوں نہ اپنے وزیر کو روکا؟ اور نہ ہی شہریت کی درخواست کو روکا اور محمد ضراب کو ترک شہریت دے دی۔
میں نہیں سمجھتا کہ اردوان کرپشن کے اس اسکینڈل میں شامل ہیں، تاہم انہیں ان سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔
(“Did Erdogan know about the corruption?” “Today’s Zaman” Turkey. Jan. 8, 2014)
Leave a Reply