سات سال قبل جب میں جرمنی کے دورے پر تھاتو میں وہاں ایک افسر سے ملا جس نے مجھے بتایا کہ ہمارے ملک کے پاس اپنی اقتصادی مشکلات کے حوالے سے خامیوں سے پاک حل موجود ہے۔ نوے کی دہائی امریکی معیشت کو عروج پر پہنچتا دیکھ کر جرمنی نے بھی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اعلیٰ ٹیکنالوجی کی راہ اختیار کرے گا۔ لیکن کیسے؟ نوے کی دہائی کے اواخر میںاس کا جواب بالکل واضح ہوچکا تھا۔ یعنی ہندوستانیوں کے ذریعہ۔ بہرحال تین ابتدائی سیلی کون وادیوں میںایک ہندوستان کا بھی شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جرمنی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ یہ ہندوستانیوں کو جرمنی آنے کی ترغیب دے گی جیسا کہ امریکا نے دیا تھا یعنی انہیں گرین کارڈز کی پیشکش کرتے ہوئے۔ حکام نے کچھ اس قسم کی چیز تخلیق کی جسے جرمنی گرین کارڈ کے نام سے کسی حد تک تعبیر دیا جاسکتا ہے اور پھر انہوں نے اعلان کیا کہ یہ پہلے سال میں بیس ہزار کی تعداد میں جاری کئے جائیں گے ۔ فطری طور سے جرمنی کو یہ توقع تھی کہ اس طرح لاکھوں کی تعداد میں مزید ہندوستانی جرمنی آنے کی التجا کریں گے اور شاید کوٹامیں بھی اضافہ کرنا پڑے۔ لیکن یہ پروگرام ناکام ہوگیا۔ ایک سال بعد صرف دس ہزار کارڈز جاری کیے گئے۔ تھوڑی سی توسیع کے بعد یہ پروگرام ختم کردیاگیا۔ میں نے جرمنی افسر سے اُس وقت یہ کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ اقدام ناکام ہوجائے گا۔ایسا اس وجہ سے نہیں تھا کہ میں کوئی امیگریشن پالیسی کا ماہر ہوں بلکہ میں گرین کارڈ کے معاملے کو تھوڑا سمجھتا تھا۔ اس لیے کہ میں خود امریکی گرین کارڈ کا حامل تھا۔ میرا استدلال تھا کہ جرمن گرین کارڈ کا نام اسے غلط دیا گیا ہے کیونکہ کبھی بھی کسی صورتحال میں یہ جرمنی شہریت میں تبدیل نہیں ہوسکتا تھا۔ جبکہ امریکی کارڈ اس کے برعکس ‘۵ سال بعد خودبخود امریکی شہریت میں تبدیل ہوجاتا ہے‘ اگر آپ کا ریکارڈ صاف و شفاف ہے۔ افسر نے میرے اعتراض کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ جرمنی کسی بھی صورت میں ان افراد کو شہریت دینے کا روادار نہیں ہے۔ اس نے کہا ’’ہمیں نوجوان ٹیک (Tech) ورکروں کی ضرورت ہے اور ہمارا پروگرام کُل یہیں تک محدود ہے‘‘۔ چنانچہ جرمنی گویا ابھرتے ہوئے نوجوان پیشہ ور ماہرین سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ اپنا ملک ‘ اپنی ثقافت اور اپنا خاندان چھوڑ کر ہزاروں میل دور آجائیں اور نئی زبان سیکھیں اور ایک اجنبی سرزمین میں کام کریں لیکن وہ اس خیال کو دل سے نکال دیں کہ وہ زندگی کے کسی مرحلے میں اپنے اس نئے گھر کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جرمنی ایک ایسا سگنل دے رہا تھا جسے ہندوستان اور دیگر ممالک میں بالکل صحیح مفہوم کے ساتھ لیا گیا بلکہ خود جرمنی کی اپنی تارکین وطن برداری نے بھی صحیح طور سے لیا۔ بہت سارے امریکی‘ امیگریشن کے یورپی ایپروچ سے بہت زیادہ متاثر دیکھائی دیتے ہیں اور شاید اسے سمجھے بغیر ہی‘ مہمان مزدور‘ جرمانے‘ پابندیاں اور بے دخلی یہ سارے طریقے یورپ کے ہیں‘ جو وہاں تارکین وطن کے ساتھ معاملات میں روا رکھے جاتے ہیں۔ اس ریسرچ کا نتیجہ ابھی حال ہی میں فرانس میں ظاہر ہوا ہے۔ جہاں تارکین وطن برادری سے تعلق رکھنے والے شورش پر آمادہ نوجوانوں نے گزشتہ دنوں پھر گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ یورپ بھر میں غیرمطمئن اور اجنبی تارکین وطن کو شدت پسندی کے لیے بالکل ہموار تصور کیا جاتا ہے۔ اس الزام کے لیے تارکین وطن برادری بھی بجا طور سے ذمہ دار ہے۔ لیکن ایک گردش ہے جو مصروفِ عمل ہے۔ یورپی معاشرے ان تارکین وطن کو خارج کردیتے ہیں جو اجنبی بن گئے ہیں اور ان کے معاشروںکو ترک کردیا ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا سے متعلق ایک معمہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے بعد سے یہاں کوئی دہشت گردی کی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی حتیٰ کہ مووی تھیٹر میں بریف کیس بم دھماکے کا بھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ ایسے درجنوں واقعات یورپ میں رونما ہوئے۔ میرااپناخیال یہ ہے کہ امریکی تارکین وطن برادریاں حتیٰ کہ عرب اور مسلمان بھی بہت زیادہ شدت پسند نہیں ہیں (اگر اس قسم کا کوئی واقعہ رونما بھی ہوتا ہے تو بھی ساڑھے چار سال کا عرصہ اس قسم کے قضیے کے ثبوت کے بغیر ہی گزر گیا) دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں امریکا کا رویہ تارکین وطن کے ساتھ بہت ہی شاندار ہے۔ کیا ہم اس رویے کو فرانسیسی ایپروچ سے متاثر ہو کر ترک کرنا چاہتے ہیں؟ امریکا کو غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کا حقیقی مسئلہ درپیش ہے جن کا زیادہ تر تعلق میکسیکو سے ہے واضح رہے کہ ۷۰ فیصد امریکی تارکین وطن صرف اس ایک ملک سے آئے ہوئے ہیں۔ لیکن جو قوتیں یہاں کارفرما ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیے۔ Stanford کے ایک مورخ David Kennedy لکھتے ہیں ’’امریکا اور میکسیکو کے مابین آمدنی کا جو فرق ہے وہ کسی بھی دو قریبی ممالک کے مابین فرق کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ عظیم تفاوت امریکا میں عظیم مانگ کی پیدائش کا سبب ہے اور میکسیکو و وسطی امریکا سے عظیم فراہمی (Supply) کا سبب ہے۔ جب بھی حکومتیں دو قوتوں کے درمیان حائل ہونے کی کوش کرتی ہیں مثلاً ڈرگز کی مانگ اور فراہمی کے درمیان تو محض قانون نافذ کرنے والی نفری بڑھانے سے کام نہیں چلتا۔ سرحد پر سخت کنٹرول ایک اچھا آئیڈیا ہے لیکن اس کو موثر بنانے کے لیے اس کے ساتھ ڈیمانڈ اور سپلائی کے کچھ تسلیم شدہ اصولوں کو جوڑنا ہوگا۔ جس کا مطلب ہے قانونی تارکین وطن میں توسیع کے منصوبے کو شامل کرنا۔
خالص اقتصادی مسئلہ سے قطع نظر بہرحال ایک کہیں زیادہ گہرا مسئلہ امریکا کی خوداپنے سامنے‘ تارکین وطن کے سامنے اور دنیا کے سامنے شناخت کا مسئلہ ہے۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتے ہیں جو اس ملک میں پہلے ہی سے رہتے آرہے ہیں اور ہمارے ساتھ کام کررہے ہیں اور زندگی بسر کررہے ہیں؟ ہم ان لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہتے ہیں جو ویزا یا مہمان پر مٹ پر اس ملک میں آئے ہیں؟ان لوگوں کے لیے امید کا کوئی پہلو ضرور ہونا چاہیے اور ان کے امریکی شہری بن جانے کا کوئی نہ کوئی معقول راستہ ضرور ہونا چاہیے۔ورنہ بصورت دیگرہم یہ اشارہ دے رہے ہوں گے کہ ہمارے یہاں لوگوں کے کچھ گروہ ایسے ہیں جو امریکا کے شہری ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے ‘ یہ کہ نواردین کو واقعتا خوش آمدید نہیں کہاجائے گا اور یہ کہ ہمیں جن لوگوں کی ضرور ت ہے وہ مزدوروں نہ کہ ممکنہ شہریوں کی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے پاس تارکین وطن کے احساسات اسی طرح سرد ہوں گے۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ شمارہ۔ ۱۰ تا ۱۷ اپریل ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply