امریکی صدر جارج بش کی شام میں جمہوریت اور حقوقِ انسانی جیسے معاملات میں اچانک دلچسپی بہت سے تبصرہ نگاروں کے لیے حیرت کا باعث بنی ہو گی۔ حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کے ایک تحریری بیان میں شام کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا کہ وہ اپوزیشن کو اپنے نظریات اور اظہار کی آزادی سے محروم رکھے ہوئے ہے۔
اس بیان کا متن یہ تھا: ’’صدر بش حکومتِ شام پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوراً اور غیرمشروط طور پر ضمیر کے تمام قیدیوں کو رہا کر دے۔ ان افراد کو قید میں رکھنا حکومتِ شام کی طرف سے اپنے عوام پر مسلسل روا رکھے جانے والے مظالم کی صرف ایک مثال ہے۔ حکومتِ شام پر لازم ہے کہ وہ ان افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کر دے جو اپنے ملک میں جمہوری اصلاحات لانے کے لیے پُرامن جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔
ہم گذشتہ دو برسوں سے امریکی حکام کے وہ بیانات سن رہے ہیں‘ جن میں وہ شام پر غیرملکی جنگجوؤں کو سرحد عبور کر کے عراق میں داخل ہونے کی اجازت دینے‘ فلسطینی اور لبنانی جنگجوؤں کی مدد کرنے اور لبنان کے معاملات میں مداخلت کرنے سمیت ہر قسم کے الزامات عائد کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس سے قبل شام میں جمہوریت‘ حقوقِ انسانی اور اس طرح کے دیگر معاملات کبھی بھی امریکی حکومت کی تشویش کا سبب نہیں بنے اور انہیں کوئی دوسرا رخ دینے کے لیے ابھی تک کوئی تبدیلی بھی نہیں لائی گئی۔ اصل میں شام پر ہمیشہ یہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی علاقائی پالیسیاں تبدیل کر کے انہیں ’’عظیم تر مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے بارے میں امریکی منصوبے سے ہم آہنگ کرے۔
دو برس قبل جب امریکی کانگریس نے شام کے احتساب کا ایکٹ (Syrian accountability act) پاس کیا تو امریکی حکومت نے شام پر جاری دباؤ نرم کرنے کے لیے تین شرائط رکھیں‘ جن میں سے کسی ایک کا بھی تعلق جمہوری اصلاحات سے نہیں تھا۔
امریکی دباؤ کے نتیجے میں شام کی خارجہ پالیسی میں بنیادی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔ حکومتِ شام نے مذکورہ احتساب ایکٹ میں شامل تین میں سے ایک شرط کو پورا کرتے ہوئے لبنان میں اپنی تیس سالہ فوجی موجودگی کو ختم کر کے وہاں سے اپنی افواج واپس بلا لیں۔
شام نے دوسری امریکی شرط پر پورا ترنے کی جانب قدم بڑھاتے ہوئے عراق کے ساتھ اپنی سرحد پر ۷۰۰۰ مزید فوجی تعینات کر دیے تاکہ ان جنگجوؤں کو عراق میں داخل ہونے سے روکا جاسکے‘ جن کے وہاں جاکر امریکا کے خلاف مسلح کارروائیوں میں حصہ لینے کا امکان ہو۔ شام نے خیرسگالی کا مزید مظاہرہ کرتے ہوئے عراق کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کو شام میں مقیم عراقی کمیونٹی سے ووٹ مانگنے کے لیے انتخابی مہم چلانے کی بھی اجازت دے دی۔ یہ اقدام شام کی اس اصل پالیسی سے واضح انحراف تھا‘ جو عراق پر امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہر چیز کی مخالفت پر مبنی تھی۔
فلسطینیوں کے مسئلے پر بھی شام وہ امریکی مطالبہ پورا کرتا نظر آرہا ہے کہ دمشق میں قائم فلسطینیوں کے استردادی گروپوں (Rejectionist groups) کے دفاتر بند کر دیے جائیں۔ چنانچہ گذشتہ ہفتے فلسطینی اسلامی جہاد کے لیڈر رمضان عبداﷲ شلاح خاموشی سے دمشق چھوڑ کر چلے گئے۔ اس واقعہ کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ فلسطینی لیڈر شامی حکومت کی درخواست پر ہی دمشق سے چلے گئے ہیں۔ شام نے حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی نیشنل اتھارٹی (پی این اے) کے صدر محمود عباس اور دمشق میں موجود دوسرے فلسطینی گروپوں کے مابین مصالحتی ملاقاتیں کرانے کی بھی کوششیں کی ہیں۔
مزید برآں شام کے صدر بشار الاسد نے ۱۰ نومبر کو دمشق یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام پی این اے کی طرف سے فلسطینیوں کی حتمی حیثیت کے بارے میں اسرائیل کے ساتھ طے کیا گیا معاہدہ قبول کر لے گا۔ گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق شام اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات بھی بحال کرنا چاہتا ہے جن کا مقصد فروری میں لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل میں اس کے مبینہ کردار کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کو ٹالنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ معاملہ ماہِ رواں کے آغاز میں تنظیمِ اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کے مکۂ معظمہ میں منعقدہ سربراہی اجلاس میں بھی اٹھایا گیا تھا۔
لیکن واشنگٹن ان مقامی اور جزوی نوعیت کی تبدیلیوں سے کچھ زیادہ کا خواہاں ہے جن کا مقصد شامی حکومت کی بقا ہے۔ وہ شام کو ایک منفعل یا مجہول عامل (Passive actor) سے ایک ایسے مکمل شراکت دار (Partner) میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جو اس خطے میں امریکا کے دور رس مفادات کے حصول میں مددگار بن جائے۔ اس منزل کی طرف جانے کے سلسلے میں فی الوقت جمہوری راگ کا الاپ نہایت موزوں ہے۔ موجودہ صورتحال میں شام کو مطلوبہ کردار ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے جمہوریت کے قیام کا مطالبہ ایک اضافی ہتھیار ہے۔ جونہی شام نے یہ کردار قبول کر لیا‘ جمہوریت کا نعرہ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جائے گا۔
[ڈاکٹر مروان القبلان شام کی دمشق یونیورسٹی کی فیکلٹی آف پولیٹیکل سائنس اینڈ میڈیا میں ابلاغیات اور بین الاقوامی تعلقات کے استاد ہیں]
(ترجمہ: ملک فیض بخش۔۔۔ بشکریہ: ’’گلف نیوز‘‘)
Leave a Reply