اسلحے کے شعبے میں مغربی یورپ اور امریکا کا غلبہ

امن پر تحقیق کے سویڈش ادارے ’سپری‘ (SIPRI) کے مطابق گزشتہ برس شمالی امریکا اور مغربی یورپ کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ہتھیار دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہوئے۔ ’سپری‘ کی اس نئی رپورٹ میں اس تناظر میں مزید انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔

امن پر تحقیق کرنے والے سویڈش ادارے ’سپری‘ نے ۲۰۱۴ء میں اسلحے کے کاروبار سے متعلق اپنی نئی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ اسلحے و فوجی ساز و سامان بنانے والے دنیا کے سو بڑے اداروں کی فروخت ۳۶۵؍ارب یورو کے برابر رہی، جو ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں ۵ء۱؍فیصد کم ہے۔ ’سپری‘ کے مطابق گزشتہ برس بھی اس شعبے پر شمالی امریکی اور مغربی یورپی کمپنیوں کا ہی غلبہ رہا، تاہم عالمی منڈی میں ان کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کی مانگ میں کمی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ روس اور کئی ایشیائی ممالک اسلحہ سازی کے میدان میں آگے آئے ہیں۔

یہ مسلسل چوتھا برس ہے جب دنیا کی سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں اور عسکری اداروں کے کاروبار میں گراوٹ آئی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن وہ واحد ادارہ ہے کہ جسے گزشتہ برس کے دوران اندازاً ۹ء۳ فیصد کا نفع ہوا ہے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ کل مارکیٹ شیئر کا اَسی فیصد مغربی یورپی اور امریکی کمپنیوں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ’سپری‘ کے زیمون ویزیمن کے مطابق، ’’روسی اسلحہ ساز اداروں کے عروج کی وجہ ملکی دفاعی اخراجات میں اضافہ اور برآمدات ہے‘‘۔

اس رپورٹ کے مطابق ۱۴۔۲۰۱۳ء کے دوران گیارہ روسی اداروں کی سالانہ مشترکہ آمدنی میں کل ۴ء۴۸ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سب سے آگے روسی کمپنی الماز آنٹے رہی، جس کی آمدنی تقریباً نو ارب ڈالر تھی۔ یہ کمپنی بُک میزائل بھی بناتی ہے، جس کے ذریعے مبینہ طور پر ملائیشین ایئر لائن کے مسافر بردار طیارے کو گرایا گیا تھا۔ روسی اسلحہ کا ایک بڑا حصہ روسی فوج ہی کو فروخت کیا گیا۔ اس کے ساتھ چین اور بھارت بھی روسی اسلحے کے بڑے خریدار ہیں۔ ویزیمن کے مطابق، ’’عام طور پر روسی کہتے ہیں کہ رقم ادا کرنے کے بعد ہی اسلحہ مہیا کیا جائے گا ورنہ نہیں‘‘۔

دوسری جانب یوکرائنی اسلحے کی فروخت میں ۳۷ فیصد سے زائد کی کمی آئی ہے۔ ویزیمن کے بقول، ’’مشرقی یوکرائن میں تنازعے اور قومی کرنسی کی قدر میں شدید کمی اس کی وجوہات میں شامل ہیں‘‘۔ یوکرائن کی سرکاری کمپنی ۲۰۱۳ء میں اس فہرست میں ۵۸ویں نمبر پر تھی جبکہ ۲۰۱۴ء میں اسلحے کی فروخت کی فہرست میں اس کا نمبر ۹۰واں ہو گیا ہے۔

اس کے علاوہ اسلحہ سازی کے سو بڑے اداروں کی فہرست میں دو ترک اور جنوبی کوریا کی ایک کمپنی سمیت ایشیا کی کل پندرہ کمپنیوں نے جگہ بنائی ہے۔

(بحوالہ: “dw.com”۔ ۱۴؍دسمبر ۲۰۱۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*