چین کی بڑھتی ہوئی قوت نے امریکا اور یورپ کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ عالمی امور میں چین کا اثر و رسوخ روکنے کی خاطر امریکا اور یورپ مل کر بہت کچھ کر رہے ہیں۔ عالمی سیاسی و مالیاتی نظام کی ہیئت تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ جن خطوں کو امریکا اور یورپ نے مل کر ایک زمانے تک لُوٹا ہے اُنہیں تادیر اپنی مٹھی میں رکھنے کی تگ و دَو تیز تر ہوگئی ہے۔ دونوں چاہتے ہیں کہ اُن کا راج برقرار رہے، چاہے باقی دنیا کی مٹی پلید ہوتی رہے۔ مغرب کے بیشتر سیاسی تجزیہ کار اور تجزیہ نگار دن رات یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ سب کچھ چین کے ہاتھوں میں چلا گیا تو دنیا تلپٹ ہو جائے گی، چل نہیں پائے گی۔ کوئی اُن سے یہ پوچھے کہ سب کچھ مغربی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہونے سے کون سی بہتری آگئی، کس خطے کا بھلا ہوگیا۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت سے پریشان مغربی طاقتیں اب کھیل کو بگاڑنے پر تُل گئی ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عالمی سیاست و معیشت پر اگر چین متصرّف ہوگیا تو کسی کو دو وقت کی روٹی بھی نہ مل سکے گی۔
جب چین کا معاملہ زیر غور ہو تو معاملات وہ نہیں ہوتے جو دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ اب ایسا تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں غیر معمولی استعداد کا مظاہرہ کرکے چین نے خود کو امریکا کی جگہ سپر پاور کے درجے پر فائز کرلیا ہے۔ یہ تاثر مغرب پوری دنیا میں جڑ پکڑ رہا ہے۔ امریکا نے چند ایک معاملات میں کمزوری دکھائی ہے۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے حوالے سے تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کسی اور چیز کی توقع رکھی تھی؟ یہ تو آپ نے بھی سنا ہی ہوگا کہ سب کچھ چینی تیار کرتے ہیں۔ امریکی تو بس اُنہیں ڈبوں میں پیک کرکے اُن کی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ چین طویل المیعاد کھیل کھیلتا ہے۔ ہم امریکی آئندہ انتخابات سے آگے کا نہیں سوچ سکتے۔ اور ہر تین ماہ بعد جاری کی جانے والی معاشی رپورٹس تک محدود رہتے ہیں۔ چینیوں نے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کا کریک ڈاؤن کیا اور کامیابی حاصل کرلی۔ اور اب وہ صورتِ حال کے فوائد بٹور رہا ہے۔ چین نے کورونا کی وبا سے متعلق تمام ممکنہ کامیابیاں حاصل کرلی ہیں مگر امریکا اب تک رگڑا ہی کھارہا ہے۔ ایک طرف تو یہ غم ہے کہ کورونا کی وبا کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں اور دوسری طرف یہ مسئلہ بھی ہے کہ نسلی بنیاد پر فسادات نے امریکا کے بہت سے علاقوں کو سخت مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔
ایک زمانے سے ہم دیکھتے آئے ہیں کہ چین کے حوالے سے معاملات وہ ہوتے نہیں جو دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر معاملات میں ہوتا ہے کچھ اور دکھائی کچھ دیتا ہے۔ چین نے یہ تاثر دے رکھا ہے کہ اس کے ہاں تعلیم، مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کا معاملہ بہت مضبوط ہے یعنی وہ ان تینوں شعبوں میں بہت آگے جاچکا ہے، ایسا نہیں ہے۔ چین اتنا مضبوط نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے یا کوشش کرتا ہے کہ دوسروں کو مضبوط دکھائی دے۔ اس حوالے سے بہت سے امریکیوں کے تصورّات انتہائی بے بنیاد اور کمزور ہیں۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے حوالے سے بھی امریکیوں کے ذہن واضح نہیں۔ دکھائی ایسا دیتا ہے جیسے چین نے بیشتر معاملات میں امریکا کو پچھاڑ دیا ہے اور اب وہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لینے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طاقت کے معاملے میں چین اب بھی امریکا سے پیچھے ہے۔ واشنگٹن کے پالیسی ساز اور تجزیہ کاروں کو یہ حقیقت ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ امریکا کے لیے امکانات اُتنے کم نہیں ہوئے، جتنے دکھائی دے رہے ہیں۔
چین کی بڑھتی ہوئی قوت کا طاقت کے افق پر طلوع ہونے کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہ تاریخی طور پر کوئی ناگزیر معاملہ ہو۔ یعنی یہ کہ چین کو یوں ابھرنا ہی تھا۔ یہ نکتہ بھی زور دے کر بیان کیا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں اپنی بڑھتی ہوئی کمٹمنٹس کے باعث کمزور پڑتا ہوا امریکا ایک ایسی نئی قوت کو راہ دے گا جو منظم ہو، اپنے آپ کو متحرک رکھنا جانتی اور چاہتی ہو اور اپنے اہداف پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہو۔ اور یہ کہ امریکا بھی بہت جلد تاریخ کی ردّی کی ٹوکری میں جا گِرے گا، جیسا کہ برطانیہ اور رومن سلطنت گرگئی تھیں۔ ہیج فنڈ برج واٹر ایسوسی ایٹس کے بانی رے ڈیلیو کی نظر میں چین کا عالمی سطح پر ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرنا ویسا ہی ہے جیسا صنعتی انقلاب کے نتیجے میں یا اس کے بعد برطانیہ کا ابھرنا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخی اعتبار سے ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ایک قوت کمزور پڑتی ہے تو دوسری اُس کی جگہ لیتی ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں ولندیزی بھی بحری قوت کے طور پر ابھرے تھے اور عالمی سیاست و معیشت میں اپنے لیے بہت سے فوائد کی راہ ہموار کی تھی۔
چین کی پروپیگنڈا مشین یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ امریکا زوال آشنا ہوچکا ہے۔ اِدھر امریکا کورونا وائرس سے لڑ رہا ہے اور نسلی منافرت بھی عروج پر ہے اور اُدھر بیجنگ کی پروپیگنڈا مشین یہ تاثر مضبوط تر کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ چین نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے میں امریکا کو پچھاڑ دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں چینی پروپیگنڈا مشین تواتر سے کہہ رہی ہے کہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کی صلاحیت دکھانے میں یکسر ناکام رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گورننس کے معاملے میں چینی قیادت امریکی جمہوری روایات سے کہیں بہتر اقدار کی حامل ہے۔ سیاہ فام امریکی جارج فلائڈ کی موت کے بعد پھوٹ پڑنے والے نسلی فسادات کے حوالے سے چین کے سرکاری اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ نے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکا اب ایک ناکام ریاست ہے۔ مؤرخین، صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار امریکا کے زوال کی پیشگوئی عشروں سے کرتے آئے ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں صاف دکھائی دے رہا تھا کہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز امریکا سے چھین لے گا۔ جاپان کے لیے ایسا اس لیے ممکن ہوتا دکھائی دے رہا تھا کہ ریاستی پالیسیوں کے تحت معیشت کو کنٹرول کرلیا گیا تھا اور یوں طاقت بڑھ گئی تھی۔ امریکا، آج کی طرح، تب بھی کھلے بازار کی معیشت پر یقین رکھتا تھا۔ جاپان، بہر حال، وہ سب کچھ نہ پاسکا جس کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا۔ اس کی معیشت نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں ابھرنے والے مالیاتی بحران سے مکمل طور پر جان چھڑانے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ جن جاپانی کاروباری اداروں کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ وہ دنیا کے کسی بھی بڑے کاروباری ادارے کو پچھاڑ دیں گے، وہ اب کچھ زیادہ کر دکھانے کی حالت میں نہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ چین کیا جاپان سے بڑھ کر کچھ کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے تو خیر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین کی دولت اور اثر و نفوذ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ مگر نمبر ون بننے کے لیے بیجنگ کو بہت سی رکاوٹیں عبور کرنا ہوں گی۔ امریکا نے متعدد معاملات میں اپنی برتری برقرار رکھی ہے مگر طاقت کے حوالے سے تجزیہ کرتے وقت ان معاملات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
چین نے کم و بیش چار عشروں کے دوران معیشتی قوت کے حوالے سے اپنی پیش رفت جاری رکھی ہے مگر پھر بھی امریکا نے اپنی برتری سلامت رکھی ہے۔ ۲۰۱۸ء میں امریکی معیشت کا مجموعی ٹرن اوور ۵ء۲۰ کھرب یعنی ۲۰۵۰۰؍ارب ڈالر تھا جبکہ چینی معیشت کا ٹرن اوور ۱۳۶۰۰؍ارب ڈالر تھا۔ اگر فی کس آمدن یا یافت کے حوالے سے جائزہ لیں تو یہ فرق اور بھی زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی امریکی برتری کو زیادہ واضح طور پر پیش نہیں کرتے۔ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر ڈیرک سِزرز کہتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ، اسٹاکس اور دیگر اثاثوں کی مجموعی مالیت کے حوالے سے قومی دولت کا موازنہ بہتر ہے کیونکہ یہ سب کچھ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھیے تو امریکا بہر حال چین سے زیادہ مال دار اور خوشحال دکھائی دیتا ہے۔ ڈیرک سِزرز نے ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ۲۰۱۹ء کے وسط میں امریکا کی اندرونی آمدن ایک لاکھ ۶ ہزار ارب ڈالر تھی جبکہ چین کے یہی اعداد و شمار ۶۰۴۰۰؍ارب ڈالر تک محدود تھے۔
عالمگیر مالیاتی نظام کے حوالے سے بھی چین کی بڑھتی ہوئی قوت امریکا کی پوزیشن کو بہرحال چیلنج نہیں کر رہی۔ چین کی اسٹاکس مارکیٹس اگرچہ وسعت پارہی ہیں مگر فارن شیئر اونر شپ اور سرحد پار سرمائے کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے چینی استعداد دکھائی نہیں دیتی۔ کورونا وائرس کے پھیلنے پر عالمی سرمایہ کاروں نے اپنے سرمائے کو محفوظ رکھنے کے لیے چینی بونڈز پر بھروسا کرنا مناسب نہیں سمجھا، ہاں امریکی محکمہ خزانہ کے بونڈز کو انہوں نے ترجیح دی ہے۔ عالمی سطح کی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی چین کا شیئر بہت کم ہے۔ چین نے اپنی کرنسی کو عالمی سطح کی کرنسی بنانے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں وہ بہت حد تک نیم دِلانہ ہیں۔
جن معاملات میں چین برتری لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اُن میں بھی امریکا کی پوزیشن اُتنی کمزور نہیں جتنی دکھائی جاتی ہے۔ ہم یہ بات آسانی سے مان لیتے ہیں کہ امریکا کچھ نہیں بناتا کیونکہ یہ بات پھیلادی گئی ہے کہ چین سب سے بڑا مینوفیکچرنگ ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۸ء میں مینوفیکچرنگ کے حوالے سے چین کا حصہ ۲۸ فیصد تھا۔ یہ بات زیادہ زور دے کر نہیں بتائی جاتی کہ امریکا کا حصہ ۱۷ فیصد تھا۔ یہ حصہ جرمن فیکٹریز کی مجموعی پیداوار کا تین گنا ہے۔ امریکا انجینئرنگ کے شعبے کی اعلیٰ ترین اشیا تیار کرتا ہے۔ ان میں طیارے اور چپس سبھی کچھ شامل ہے۔ چین اس معاملے میں نقالی کی پوزیشن میں نہیں۔ تجارتی بنیاد پر استعمال ہونے والے طیارے تیار کرنے کے معاملے میں بوئنگ اور ایئر بس سے مقابلے کے لیے چین نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ منصوبہ تیکنیکی کمزوری کے باعث کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ چین میں کچھ تیار کرنا بہت آسان اور سستا ہو۔ امریکا اور چین میں فیکٹری چلانے کی لاگت میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ امریکی ورکرز کی پیداوار چینیوں سے زیادہ ہے۔
ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی امریکا غیر معمولی حد تک برتری کا حامل ہے۔ یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان ’’ٹیک وار‘‘ چل رہی ہے۔ بیجنگ کے پالیسی ساز الیکٹرک گاڑیاں بنانے سے 5G ٹیلی کام سسٹم تک کم و بیش ہر تکنیکی شعبے میں مسابقت کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ جسے جنگ کہا جارہا ہے وہ اب تک محض جھڑپ کے مرحلے میں ہے۔ ریاستی مشینری کی غیر معمولی مالیاتی مدد کے باوجود چین کے ہائی ٹیک ادارے اب تک امریکا کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ چین کی سیمی کنڈکٹر فرمز اب تک بہت کمزور ہیں۔ سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ ہائی ٹیک میں چینی ادارے مکمل خود مختاری اور اعتماد کے ساتھ بے داغ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی منزل سے بہت دور ہیں۔ امریکا کے ٹیک جائنٹس فیس بک، الفابیٹ اور ٹوئٹر حقیقی معنوں میں عالمگیر نوعیت کے ادارے ہیں۔ دنیا کے ہر گوشے میں اِن کے استعمال کرنے والے موجود ہیں۔ اس کے مقابل چینی ادارے ٹینسنٹ، بائیڈو اور سائنا وائبو اب تک چین کی سرحد ہی سے نکلنے کی تگ و دَو میں مصروف ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین غیر معمولی رفتار سے بڑھ رہا ہے مگر امریکی برتری اب تک سلامت ہے۔ امریکا کے بنائے ہتھیار آج بھی غیر معمولی حد تک کارگر ہیں۔
امریکا کی برابری کرنا چین کے لیے اب بھی بہت بڑا دردِ سر ہے۔ چین میں اعلیٰ تعلیم کا نظام اب تک عالمی معیار کا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ چینی طلبہ بڑی تعداد میں امریکی جامعات کا رخ کرتے ہیں۔ دنیا کی بہترین جامعات میں ۵۰؍امریکی جامعات کے بعد پیکنگ یونیورسٹی ۹۲ ویں نمبر پر ہے۔ چین کے کالجوں اور جامعات میں طلبہ اور اساتذہ کو کھل کر بولنے اور لکھنے کی آزادی میسر نہیں۔ علمی سطح پر آزادی سے متعلق ایک حالیہ سروے کے مطابق اس معاملے میں کیوبا اور ایران بھی چین سے بہتر ہیں۔
ایک صدی کے دوران دنیا بھر میں متعدد ممالک ابھرے ہیں اور ایک خاص حد تک جاکر ٹھہر گئے ہیں۔ چین کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی بھی ابھرتی ہوئی معیشت میں جب آمدن ایک خاص حد تک بلند ہوجاتی ہے تب اطمینان کا سانس لیا جاتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے غیر معمولی جدوجہد ترک کردی جاتی ہے۔ چین میں بھی جدت اور تحقیق و ترقی پر غیر معمولی توجہ نہیں دی جاتی، اور ظاہر ہے کہ، مطلوبہ فنڈنگ بھی نہیں کی جاتی۔
چین میں بیشتر معاملات اب تک ریاستی کنٹرول میں ہیں۔ ریاست ہی طے کرتی ہے کہ کاروباری ادارے کس طور کام کریں۔ ہوسکتا ہے کہ امریکا میں پالیسی سازوں کو اس بات پر رشک آتا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاستی کنٹرول ہی نے چینی کاروباری اداروں کو بیرون ملک مسابقت کے قابل نہیں چھوڑا۔ چین کی غیر معمولی دولت ناکارہ ریاستی اداروں کا خسارہ پورا کرنے پر ضائع کی جارہی ہے۔ یہی معاملہ اندرونی قرضوں کا بھی ہے۔
یہ کہنا تو سادہ لوحی کا مظاہرہ ہوگا کہ چین کسی بھی حوالے سے امریکا کے لیے بڑا چیلنج نہیں مگر ہاں، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چین اُتنا بڑا خطرہ نہیں جتنا بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں امریکا سے بہت پیچھے ہے۔ امریکا کو ابھی سے پالیسی کے میدان میں ایسی تبدیلیاں لانی چاہییں جو معاملات کو خرابی کی طرف جانے سے روکیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Don’t believe the China hype”. (“defenseone.com”. June 16, 2020)
Leave a Reply