1 Comment

  1. ڈاکٹر خالد ندیم، ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو، سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا
    November 19, 2018 at 1:46 pm

    ڈاکٹر ممتاز احمد واقعی ایک ایسے دانشور تھے، جن کی دانش نے ملک و قوم کے لیے بہت سے چراغ روشن کیے۔ شہرت اور دولت کی ہوس سے دُور ڈاکٹرممتاز احمد علم و آگہی کی جن منزلوں سے آشنا ہوئے، اپنے چاہنے والوں کو بھی ان منزلوں سے روشناس کرانے پر ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ انھوں نے اپنی دانش کو گرہ میں باندھ کر نہیں رکھا، بلکہ جو کچھ حاصل ہوا، دوست احباب اور شاگردوں میں تقسیم کر دیا؛ کبھی گفتگو کے ذریعے، کبھی تحریر کے ذریعے اور کبھی رویوں کی مدد سے۔ ان جیسے انسان قوموں کا سرمایہ ہوتے ہیں اور حقیقیت یہ ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دوستوں سے بھی نوازا، جو ان کی شخصیت کی قدر و قیمت سے بخوبی آشنا تھے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے مَیں اعتراف کرتا ہوں کہ اگرچہ ان سے میری براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی، لیکن ٹیلیفونک رابطوں کے سبب ان سے ہونے والی گفتگو سے مَیں نے اس قدر سیکھا ہے اور اس قدر جانا ہے کہ ان سے رابطہ ہونے سے قبل اور بعد کی زندگی میں بین فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ غیر محسوس طور پر اپنے مخاطب کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے اور زندگی کے مثبت رویوں کو سامع کے دل کر مرتسم کرتے چلے جاتے۔ میرے لیے اور میری ایک تالیف ’’شبلی کی آپ بیتی‘‘ کے لیے انھوں نے بڑی محبت سے لکھا۔ اللہ انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، اب ان جیسے انسان ڈھونڈنے سے بھی شاید ہی ملیں۔

Leave a Reply to ڈاکٹر خالد ندیم، ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو، سرگودھا یونیورسٹی، سرگودھا Cancel reply

Your email address will not be published.


*