شام کے بحران سے اسرائیل فائدہ اٹھائے گا!

لبنان کے دروز لیڈر ولید جنبلاط (Walid Jumblatt) کا شمار ان با اثر سیاست دانوں میں ہوتا ہے جن کے بیانات بحث کا موضوع بنتے ہیں۔ انہوں نے ۱۹۸۰ء کے عشرے میں لبنانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ولید جنبلاط نے خبردار کیا ہے کہ شام کی صورت حال لبنان پر اچھی خاصی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ انہوں نے لبنان کے علاقے ٹریپولی کے واقعات کو بھی شام کی صورت حال کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
پروگریسیو سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ ولید جنبلاط کا کہنا ہے کہ شام کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال خطے میں بہت سی تبدیلیوں کی نقیب ثابت ہوسکتی ہے۔ شام کی تقسیم کا امکان تو خیر نہیں ہے مگر اِس بحران کے بطن سے کئی خرابیاں نکل سکتی ہیں۔ بشارالاسد انتظامیہ کے دروز ارکان رفتہ رفتہ ڈوبتے ہوئے جہاز سے کود رہے ہیں۔ یہ صورت حال اسرائیل کو زیادہ فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو اردن کی طرف دھکیلے اور اپنے عرب باشندوں کو بھی اسلامی دنیا میں جانے پر مجبور کرے۔
ولید جنبلاط لبنان کے دور افتادہ پہاڑی علاقے مختارہ میں رہتے ہیں۔ اپوزیشن گروپس کے لیے ان کے بیانات بہت اہم ہیں۔ اُن سے ایک تازہ انٹرویو پیش خدمت ہے۔ (ٹوڈیز زمان)


٭ ٹریپولی کے واقعات سے کیا یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لبنان میں تین عشرے پہلے کی صورت حال واپس آ رہی ہے؟

ولید جنبلاط: شمالی لبنان میں شامی حکومت کے اتحادی معاملات بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں علویوں کا ایک لیڈر علی عید بھی شامل ہے۔ سُنّی اور شیعہ دونوں ہی بشارالاسد انتظامیہ کا حصہ رہے ہیں۔ ہم عوامی سطح پر کی جانے والی مزاحمت کی حمایت کر رہے ہیں۔ بعض لوگ شمالی لبنان کو بھی اِس قضیے میں گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے کا کوئی جواز پیدا نہ ہو۔ علویوں کو تحفظ دینے کے نام پر شمالی لبنان میں شام کی مداخلت کسی بھی طرح برداشت نہیں کی جاسکتی۔ علویوں کی اکثریت بشارالاسد انتظامیہ کے ساتھ نہیں۔ ہمیں اِس معاملے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔

٭ شامی حکومت اپنے حامیوں کو تحفظ دینے کے لیے شاید کچھ بھی کر گزرے گی۔

ولید جنبلاط: اُسے لبنان کے معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ لبنان خطرے میں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بشار الاسد بد حواسی کی حالت میں کوئی بھی مجنونانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔ حلب میں صورت حال محض خراب نہیں ہے بلکہ نہتے شہریوں پر قیامت ڈھا دی گئی ہے۔ اب تک پندرہ لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوچکے ہیں اور پانچ لاکھ سے زائد افراد نے ترکی اور دیگر پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہے۔ ہمیں ایسی کسی بھی حرکت سے گریز کرنا ہوگا جو شام کو مداخلت کا جواز فراہم کرتی ہو۔

٭ حزب اللہ تو شامی حکومت کی حمایت کر رہی ہے۔ کیا اِس حقیقت سے آپ کے اور حزب اللہ کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے؟

ولید جنبلاط: ہم کسی بھی سطح پر سیاسی اتحادی نہیں ہیں۔ لبنانی حکومت میں ہم بھی ہیں اور حزب اللہ والے بھی۔ ۲۰۱۱ء کی صورت حال کے تناظر میں مخلوط حکومت کا بنایا جانا لازم تھا۔ مگر تب شام میں صورت حال ایسی نہ تھی۔ ہم اور حزب اللہ والے مرکزی حکومت کا حصہ ہیں مگر یہ لازم نہیں ہے کہ حکومت میں شامل تمام افراد یا جماعتیں نظریاتی طور پر بھی ہم آہنگ ہوں۔ سب کے اپنے اپنے معاملات ہوتے ہیں۔

٭ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مغربی طاقتیں لبنان کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتی ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا یہ ممکن ہے؟

ولید جنبلاط: لبنان کسی بھی اعتبار سے بوسنیا ہرزیگووینا نہیں۔ اِس میں کئی مذاہب اور فرقے مل کر، پوری ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۷۶ء میں بھی انتہائی دائیں بازو کے عناصر نے لبنان کو تقسیم کرنے کی سازش اور کوشش کی تھی مگر اِس کا کیا نتیجہ برآمد ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔ ۱۷ سال خانہ جنگی رہی مگر ملک متحد رہا۔

٭ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں شام کے ’’دروزوں‘‘ کا کیا مستقبل ہے؟

ولید جنبلاط: ابتدا میں چند مشکلات ضرور تھیں مگر اب وہ کیفیت نہیں رہی۔ دروز مجموعی طور پر اس عوامی تحریک کے حامی ہیں جو بشارالاسد انتظامیہ کو ختم کرنے کے لیے چلائی جارہی ہے۔ اب تک شامی فوج کے دس اعلیٰ دروز افسران منحرف ہوچکے ہیں۔ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر میں اُن کے نام بیان نہیں کر سکتا۔ سیرین نیشنل کونسل میں بھی دروز سرگرم ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ شام میں دروز محفوظ رہے ہیں۔ حال ہی میں دمشق کے نزدیک دروز اکثریتی علاقے پر وحشیانہ بمباری کی گئی ہے۔ دروز کہیں نہیں جائیں گے، شام ہی میں رہیں گے۔ اس وقت شام میں دروزوں کی تعداد چار لاکھ ہے۔ ایک لاکھ ۷۰ ہزار لبنان میں ہیں۔ شام کی آبادی دو کروڑ ۳۰ لاکھ ہے۔ ایسے میں چار لاکھ کی کوئی ایسی حیثیت نہیں ہوسکتی جس سے کسی کو خطرہ محسوس ہو۔

٭ آپ شام میں دروز باغیوں کی حمایت کرتے ہیں؟

ولید جنبلاط: میں اِس معاملے کو فرقہ وارانہ نظر سے نہیں دیکھتا۔ شام کی حکومت نے شہریوں پر مظالم ڈھائے ہیں۔ حکومت اور فوج کے مظالم روکنے کے لیے جو لوگ ہتھیار اٹھاکر میدان میں آئے ہیں، ہم اُن کی حمایت کر رہے ہیں۔

٭ کیا یہ بات درست ہے کہ شنگھائی میں حالیہ سربراہ کانفرنس میں روس نے شام کی تقسیم کی بات کی ہے؟

ولید جنبلاط: جی ہاں۔ مگر خیر، شام کو تقسیم کرنے کی سازش اور کوشش کوئی نئی بات نہیں۔ ۱۹۱۶ء کے اسکائی پکوٹ (Sykes-Picot) معاہدے کے تحت بھی فرانس نے شام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اسکندرون میں علویوں کو ریاست بناکر دینے کی بات کی گئی تھی۔ دمشق کو الگ ریاست کا درجہ دیا جانا تھا۔ دروز اور حلب شہر کے مکینوں کو بھی ایسا ہی کچھ کرکے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ دروز اس وقت بھی ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔ آج پھر وہی حالات پیدا کیے جارہے ہیں۔

٭ شام کے حوالے سے روس کا کردار وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ آپ اِس معاملے کو کِس طرح دیکھتے ہیں؟

ولید جنبلاط: روس کے حکمران زار کے زمانے کی شان و شوکت بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا اور اسرائیل شام کی تقسیم کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس گھناؤنے کھیل میں ترکی بھی شریک ہے۔ بشارالاسد کے جاتے ہی تقسیم کا یہ معاملہ بھی سرد پڑ جائے گا۔ بشارالاسد کسی نہ کسی طرح اقتدار بچانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایران اب بھی شام کو فنڈ اور اسلحہ دے رہا ہے۔ ایران بظاہر علویوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کا حامی ہے۔ بصرہ اور طورطوس کے درمیان تیل کی پائپ لائن کا منصوبہ بھی اُس کے مفادات کا معاملہ ہے۔ روس نے ایران اور عراق سے بھی اسلحے کی فراہمی کے معاہدے کیے ہیں۔ یہ سب کچھ شام کے عوام کے خلاف ہے۔

٭ کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ روس، ایران، چین اور شام مل کر اتحاد قائم کرلیں گے؟

ولید جنبلاط: بالکل، خطہ سے امریکا کے نکل جانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے پُر کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ عراق اور افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد روس اور ایران اس بات کی کوشش کریں گے کہ اس خلا کو پُر کیا جائے۔

٭ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ روس اور چین روایتی سپر طاقتوں کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ آنے والے عشروں میں آپ اِن دونوں ممالک کے حوالے سے کیا دیکھتے ہیں؟

ولید جنبلاط: میرا خیال ہے کہ یہ تبدیلی آسان نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوسکتا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے ایران سے جنگ لڑی۔ ترک بصرہ میں بھی تھے۔ اب ایران کے اثرات لبنان کے ساحلوں تک ہیں۔ شام میں بھی ایرانی اثرات نمایاں ہیں۔ اب حالات بہت بدل چکے ہیں۔ روس اور چین کے لیے خطے میں قدم جمانا اور بڑی طاقت کی حیثیت سے مفادات کا دائرہ وسیع کرنا ممکن نہیں۔

٭ کیا آپ کو لگتا ہے کہ شام کے واقعات لبنان کی سیاست و معاشرت پر بھی اثر انداز ہوں گے؟

ولید جنبلاط: ہماری کوشش ہے کہ ایسا نہ ہو۔ لبنان کے دروزوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ بشارالاسد انتظامیہ کی حمایت نہیں کرتے۔ شام کے زوال کو ٹریپولی میں پرفارم کرنے کی گنجائش نہیں۔ ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ شام کو لبنان میں کچھ بھی کرنے کا موقع یا جواز نہ ملے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ لبنان میں کیا ہوسکتا ہے؟ کون کس کے خلاف لڑے گا؟ حزب اللہ لبنان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ اُس سے لڑنا فی الحال ممکن نہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ جتنی قوت حزب اللہ کی ہے اُتنی ہی قوت لبنانی ریاست کو حاصل ہو جائے۔ لبنان میں سیاسی اور اقتداری معاملات جس نوعیت کے ہیں اُس سے صرف مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔

٭ ایسے میں خطے کا نیا نقشہ کیا ہوسکتا ہے؟

ولید جنبلاط: روس اور ایران کی پالیسیاں خطے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر شام میں حکومت مخالف عناصر کو بروقت ہتھیار اور فنڈنگ نہ ملی تو شام کی سالمیت خطرے میں پڑسکتی ہے۔ ہم شام میں مغرب کے براہِ راست کردار ادا کرنے کے خلاف ہیں۔ بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف صف آرا ہونے والوں کی بھرپور مدد نہیں کی جارہی۔ فرینڈز آف سیریا کے اجلاس تیونس، پیرس اور استنبول میں ہوچکے ہیں مگر اب تک واضح پیش رفت ممکن نہیں ہوسکی۔ مغرب قتلِ عام رکوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ ترکی کچھ کرے۔ مگر جب تک مغربی قوتیں کوئی فیصلہ نہیں کرلیتیں، ترکی کیا کرسکتا ہے؟ امریکی ہچکچاہٹ اور بے حِسی افسوسناک ہے۔

٭ امریکا کو اس قدر ہچکچاہٹ کا سامنا کیوں ہے؟ وہ مختلف خطوں میں ایسی ہی صورت حال کے ابھرنے پر فعال ہوتا رہا ہے۔

ولید جنبلاط: امریکا کو صرف یہ فکر لاحق ہے کہ اسرائیل کی سلامتی خطرے میں نہ پڑے۔ شام کی صورت حال کو کنٹرول کرنے کی کسی بھی بلا واسطہ کوشش سے گریز کا یہی سبب اور مفہوم ہے۔ ایران کی پالیسی پر بھی سوالیہ نشان لگے ہیں۔ روس کے صدر پوٹن نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ بیرون ملک دوسری بڑی یہودی لابی روس میں ہے۔ پوٹن نے یقینا اسرائیلی حکومت کو یقین دہانی کرائی ہوگی کہ اس کی سلامتی خطرے میں نہیں پڑے گی۔

٭ کیا شام کے حالات سے پیدا ہونے والی خرابی کے بطن سے عظیم تر اسرائیل ابھرے گا؟

ولید جنبلاط: اس کا امکان نہیں۔ دنیا کو صرف یہ فکر لاحق ہے کہ کیمیائی ہتھیار اور میزائل اسرائیل کے خلاف استعمال نہ ہو جائیں۔ اردن میں سی آئی اے کے افسران صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ روس بھی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل بھی اِس حوالے سے خاصا سرگرم ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسرائیل سے تمام عرب باشندوں کو نکل جانے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ عرب دنیا میں آباد ہوں۔ اگر اسرائیل میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے زور دیا تو یہ ہوسکتا ہے کہ اردن میں فلسطینی ریاست قائم کردی جائے۔ اردن کی ساٹھ فیصد آبادی فلسطینی نژاد ہے۔ دو ریاستیں قائم کرنے کا نظریہ تو ناکام ہوچکا ہے۔ ہمیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے کسی بھی پاگل پن کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ غزہ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو اسرائیل کے لیے بے حد پریشان کن بات ہے۔ ایسے میں تل ابیب کوئی بھی انتہائی اقدام کرسکتا ہے۔

٭ ترکی اور ایران کے درمیان بھی خاصی کشیدگی ہے۔ خطے میں اثرات کا دائرہ وسیع کرنے سے متعلق دونوں کی کشمکش کیا رنگ لائے گی؟

ولید جنبلاط: ترکی کو محتاط رہنا چاہیے۔ خطے کے حوالے سے ایران اور روس کی پالیسیاں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ترکی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ترکی کو سب سے پہلے کرد مسئلہ حل کرنا چاہیے۔ اس کا حل متحدہ ترکی میں مضمر ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو خون بہتا رہے گا۔

٭ کیا کرد مسئلہ حل کرکے ترکی اس قابل ہوسکے گا کہ ایران کو جواب دے سکے؟

ولید جنبلاط: دونوں میں روایتی انداز کی جنگ تو خیر ممکن دکھائی نہیں دیتی مگر ہاں دوسرے بہت سے طریقوں سے وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ معاشی معاملات میں سرد جنگ ہوسکتی ہے۔ شام اور ایران کرد کارڈ کھیل سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔ ترکی کو کرد مسئلہ حل کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔

٭ عراقی کردستان کے لیڈر مسعود برزانی سے ترکی کے تعلقات اچھے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑسکتا ہے؟

ولید جنبلاط: مسعود برزانی سے ترکی کے بہتر تعلقات خوش آئند ہیں۔ اب ترک حکومت کو پی کے کے (کردستان ورکرز پارٹی) کا مسئلہ حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ حقیقی امن اور سلامتی یقینی بنائی جاسکے۔ ترک حکومت کو کردوں کا مسئلہ ثقافتی، نسلی اور معاشرتی سطح پر حل کرنا ہوگا۔ اس مسئلے کو مصطفیٰ کمال پاشا کے نظریے کے تحت دیکھا جارہا ہے جو غلط ہے۔ سب مل کر رہیں، اِسی میں ترکی کا فائدہ ہے۔

٭ کیا مشرق وسطیٰ میں بکھری ہوئی دروز آبادی سے آپ کے رابطے ہیں؟

ولید جنبلاط: میں عرب ہوں۔ شام میں آباد دروز اب عوامی مزاحمتی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔ اسرائیل میں بھی دروز ہیں مگر ان سے کوئی رابطہ نہیں۔ اسرائیل میں آباد دروز یہودیوں کے مخالف ہیں۔ دروز مسئلہ کوئی نہیں، ہاں وطن اور وطنیت کا مسئلہ موجود ہے۔

(“Druze Leader Claims Syria Crisis Could Cause Israel To Expel Its Arabs”… “Todays Zaman”. Sept 9, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*