جاپان کی بھرپور اقتصادی ترقی نے سماج کو بہت کچھ دیا ہے مگر ہر فرد کو اتنا تنہا کردیاہے کہ وہ دیواروں سے باتیں کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ لوگوں کے رویئے تبدیل ہونے لگے ہیں‘ اس ماحول کا سب سے زیادہ اثرنوجوان نسل اور بچوں پر پڑا ہے۔اب یہ ایک معاشرہ بنتا جارہا ہے جہاں بے حسی پروان چڑھ رہی ہے‘ یوں لگتا ہے جیسے اسکولوں اورکالجوں میں پڑھنے والے بچے جذبات سے عاری ہیں۔ یہ اسی نفانفسی کا نتیجہ ہے کہ آبادی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ شادی شدہ لوگ بچوں کے جھمیلے میں پڑنا نہیں چاہتے‘ اس سے ان کی اپنی آزادیاں متاثر ہوتی ہیں۔ جن والدین کے ایک یا دو بچے ہیں‘ وہ بھی اپنی زندگی میں اتنے مگن ہیں کہ ان کے پاس بچوں کے لئے اتنا وقت بھی نہیں ہے کہ ان کی زندگی کے معمولات کے بارے میں پوچھ سکیں یا ان کے مسائل پر تبادلہ خیال کرسکیں۔ بچے اس ماحول کے عادی ہوچکے ہیں۔ ماں ‘ باپ‘ بہن ‘ بھائی اور رشتہ داروں کے درمیان اس اجنبیت نے انہیں دکھ سکھ اور غمی خوشی کے احساس سے بیگانہ کردیا ہے۔ نئی نسل کے بارے میں تواتر کے ساتھ پریشان کن اطلاعات آنے لگی ہیں کہ پورے معاشرے کو فکر لاحق ہوگئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ ایسی تعلیم و ترقی کا کیا فائدہ جس سے انسانی رشتے ختم ہوجائیں۔
چند ماہ قبل پندرہ سال کے ایک لڑکے نے اپنی ماں اور باپ کو سوتے میں قتل کردیا‘ پھر اس نے پولیس کو دھوکہ دینے کے لیے گھر کو آگ لگادی اور خود وہاں سے نکل بھاگا۔ اس لڑکے نے کام تو کردیا مگر گرفتاری کا خوف دامن گیررہا۔ چنانچہ وہ ایک بس میں سوار ہوکر دوسرے شہر میں چلا گیا اورپناہ کے لئے ایک ایسے ہوٹل میں پہنچاں جہاں عام طور پر لوگ قدرتی چشموں کے گر نے سے غسل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ہوٹل کی انتظامیہ کو جب پتہ چلا کہ لڑکا تنہا قیام کرنا چاہتا ہے تو اسے شبہہ ہوا لیکن اسے کمرہ دیدیا گیا ‘ اس شبے کو تقویت اس طرح ملی کہ رات بھر اس کے کمرے میں لائٹ جلتی رہی۔ اس کے ماں باپ کے قتل کی خبر صبح اخبارات میں چھپ چکی تھی۔ لڑکے نے ہوٹل والوں کو اپنا نام اور پتہ غلط بتایاتھا‘ انتظامیہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی تھی‘ چنانچہ حفظ ماتقدم کے طور پر پولیس کو اطلاع کردی گئی۔ سادہ لباس میں چند پولیس والے وہاں پہنچ گئے جہاں پر وہ لڑکا خاصا پریشان نظر آرہا تھا۔ پولیس نے اس کی حرکات نوٹ کرنا شروع کردیں۔ جب یہ لڑکا ہوٹل کی لابی میں آیا تو کچھ فاصلے سے ایک پولیس والے نے اسے اس کے اصلی نام سے آواز دی۔ مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ لڑکا واقعی وہ ہے جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کیا ہے یا کوئی اور ہے۔ اصل نام پکارے جانے پر اس نے فوراً پلٹ کر دیکھا چنانچہ گرفتار ہوگیا اور اپنے جرم کو بھی قبول کرلیا۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ شدیدپریشانی میں مبتلا تھا۔ والدین سارا دن کام کاج کرکے تھک جاتے تھے۔ ماں اپنی زندگی سے ہمیشہ اکتاہٹ کا اظہار کرتی تھی‘ باپ اسے کو ستا رہتا تھا چنانچہ اس نے بہتر سمجھا کہ دونوں کو ٹھکانے لگادیا جائے تاکہ وہ خود آزادی کے ساتھ زندگی گزارسکے۔
ایک اور واقعہ میں جونیئر ہائی اسکول کی ایک غیرہ سالہ طالبہ نے اسکول میں اپنی ایک ہم جماعت کو قتل کردیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ شروع میں ان دونوں لڑکیوں میں بہت اچھی دوستی تھی مگر قتل ہونے والی لڑکی کبھی کبھار اس کی شکل و صورت کا مذاق اڑایا کرتی تھی اور اسے طنزیہ ای میلز بھی کرتی تھی۔ا س لڑکی نے کبھی اپنی والدین سے اپنی دوست کے اس ناپسندیدہ رویے کی شکایت نہیں کی تھی‘ اس کا رویہ بھی بظاہر معمول کے مطابق تھا البتہ وہ خاموش طبع تھی اور بہت کم لوگوں سے بات کرتی تھی۔ ایک روز جب اسکول میں لنچ ٹائم ہوا تو اس نے ایک ضروری بات کے لیے اپنی اس ’’دشمن‘‘ کو دوسری منزل پر لائبریری میں چلنے کے لیے کہا۔ اندر جانے کے بعد اسے ایک کرسی پر بٹھایا اور پیپر کٹر سے اس کا گلا کاٹ دیا۔اسکول کے اسٹاف کا کہنا ہے کہ اس واردات کے بعد جب لڑکی نیچے آئی تو اس کے ہاتھوں اور لباس پر خون کے چھینٹے تھے مگر وہ بالکل نارمل تھی۔ اگرچہ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا مگر کم سنی کے باعث اس پر باقاعدہ مقدمہ نہیں چلایا جاسکے گا۔
جاپان میں اسلحہ رکھنا ایک سنگین جرم ہے۔ چند سال قبل تک یہاں پولیس کو بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی مگر جب مجرم پولیس پر حاوی ہونے لگے تو یہ اختیار دیدیا گیا۔ یہاں عام لوگ ایئر گن رکھ سکتے ہیں جس کو درحقیقت ایئر سائٹ گن کہا جاتا ہے‘ یہ بندوق کی طرح نہیں بلکہ ایک بڑے پستول کی شکل میں ہوتی ہے اور ایک طرح سے کھلو نا ہوتا ہے کیونکہ اس سے پرندوں وغیرہ کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی ایکشن فلموں کے رسیا نوجوانوں نے اپنی بے چینی ختم کرنے کے لیے ان ایئرگنز میں اضافی تبدیلیاں کیں اور ان کے ساتھ کمپریسڈ ایئر کے سلنڈر لگا کر ان کی فائر پاور میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ ان میں چلنے والی پلاسٹک بلٹس کو بھی جدید شکل دی گئی اور ان کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ اگر چند میٹر کے فاصلے سے فائر کیا جائے تو ایک انچ موٹے لکڑی کے تختے میں سوراج ہوجاتا ہے۔ یہ کامیابی حاصل کرلی گئی تو سوال پیدا ہوا کہ اس اسلحہ کو کہاں استعمال کیا جائے۔ طبیعت کی بے چینی اور اپنا ’’ڈیپریشن‘‘ دور کرنے کے لئے ان متلون مزاج نو جوانوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ رات بھر گاڑی میں ٹوکیو کو دوسرے شہروں سے ملانے والے ہائی ویز پر ڈرائیونگ کرتے رہتے اور موقع ملتے ہی آگے جانے والی گاڑی پر فائر کرکے اس کی بیک ونڈ اسکرین کو توڑ دیتے‘ اس سے لوگوں میں سخت خوف و ہراس پیدا ہوگیا۔ جب تواتر کے ساتھ یہ واقعات پیش آنے لگے تو پولیس حرکت میں آئی۔ چند نوجوانوں کو شبہہ کی بنیا دپر گرفتار کیا گیا اور پولیس ان لڑکوں تک جاپہنچی جو اس جرم میں ملوث تھے۔ ان لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا جنہوں نے بعد میں بتایا کہ وہ کسی کو نشانہ بنانا نہیں چاہتے تھے بلکہ صرف انجوائے کررہے تھے۔
ایک تازہ واقعے نے تو پورے معاشرے کو حیرت زندہ کردیا ہے۔ ایک 47 سالہ عورت کو پچھلے ہفتے اس کی سولہ سالہ بیٹی نازک حالت میں ہاسپٹل لے کر آئی جسے فوری طور پر داخل کرکے مختلف ٹیسٹ لینے کا عمل شروع کردیا گیا۔ ہاسپٹل کو اس بات پر حیرت تھی کہ اپنی ماں کی نازک حالت پر بیٹی کو کوئی تشویش نہیں اور وہ ڈاکٹروں کے سوال کا جواب بھی نہیں دے رہی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ہروز ہاسپٹل میں آکر ڈیجیٹل کیمرے سے اپنی بیمار ماں کا باقاعدہ ’’فوٹو سیشن‘‘ کرتی تھی۔ اس لڑکی کا یہ رویہ ہاسپٹل کے لیے پریشان کن اور غیرمعمولی تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ لڑکی پچھلے دو ماہ سے اپنی ماں کو کھانے میں آہستہ آہستہ زہر دے رہی تھی۔ یہ زہر تھلیم Thallium کیڑے مار دوائوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لڑکی ہائی اسکول میں سال اول کی طالبہ ہے۔ نابالغ ہونے کی وجہ سے پولیس اس کا نام ظاہر نہیں کررہی ۔ وہ اپنے اسکول کے کیمسٹری کلب میں کافی فعال تھی اور اس کا زیادہ تر وقت اسکول کے لیب میں گزرتا تھا۔ وہ تھلیم اور اس سے ملتے جلتے دوسرے کئی خطرناک کیمیکل اسکول سے چوری چھپے گھر لاتی رہی۔ سب سے پہلے اس نے اپنے فارمولے کو کبوتروں پر آزمایا جو تقریباً ہر پارک میں موجود ہوتے ہیں‘ اس نے ڈبل روٹی کو مسل کر اس میں مختلف کیمیکلز ملائے اور کبوتروں کو کھلانے چنانچہ اس سے کئی کبوتر مر گئے ‘ وہ اپنے تجربات کی روزانہ رپورٹ اپنے کمپیوٹر کی ویب لاگ میں محفوظ کرتی رہی۔ پھر اس نے آس پاس کی بلیوں کو اپنے تجربات کا نشانہ بنایا‘ ان میں کئی بلیاں بھی مر گیں۔ وہ بازار سے چھوٹے چھوٹے معصوم جانور خرید کر لاتی اور اپنے کمرے میں ان کا پوسٹ مارٹم کرتی۔ یہ جانور مردہ شکل میں اب بھی اس نے ایک مخصوص محلول میں محفوظ کر رکھے ہیں۔ اس نے بعض سانپوں پر بھی اپنے تجربات کئے کیونکہ بقول اس کے وہ ایک ایسی دوا تیار کرنا چاہتی تھی جس سے ہر قسم کے سانپ کے زہر کا علاج ہوسکے‘ اس نے اس مقصد کے لیے سانپوں کے کئی آپریشن کیے اور ان کا زہر نکال کر محفوظ کرتی رہی‘ پھر اس نے خرگوش لانے شروع کئے اور ان کی چیڑ پھار کرتی رہی۔ وہ اپنے تجربات عام طور پر رات کو کرتی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے تجربات کے نتائج نوٹ کرتی رہتی تھی‘ اس نے اپنے کمرے کو باقاعدہ آپریشن تھیٹر بنا رکھا تھا۔
طالبہ کے بعض قریبی رشتہ داروں کو اس پر شبہ تھا وہ اس کی حرکات کو بڑی تشویش کے ساتھ نوٹ کررہے تھے‘ چنانچہ جب اس کی ماں کے جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونے لگے تو ان کے کان کھڑے ہوئے اور جیسے ہی وہ ماں کو لے کر ہاسپٹل گئی‘ پولیس کو خبردا کردیا گیا اب یہ لڑکی پولیس کی تحویل میں ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ لڑکی کی ذہنی حالت بالکل صحیح ہے البتہ وہ خوشی اور غم دونوں قسم کے جذبات کا نارمل طریقے سے اظہار کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ہر سوال کابالکل درست جواب دیتی ہے۔ کیمسٹری کے بارے میں اس کی معلومات بہت وسیع ہیں‘ اس کی یادداشت خاصی تیز ہے اس کے سامنے کیمسٹری کا کوئی فارمولا غلط بیان کیا جائے تو وہ ٹوک دیتی ہے۔ وہ اس بات سے انکار کرتی ہے کہ اس نے اپنی ماں کو زہر دے کر قتل کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ وہ مانتی ہے کہ اس نے اپنی ماں کو تھلیم دیا تھا مگر کہتی ہے کہ اس کا مقصد اسے قتل کرنا نہیں بلکہ محض تجربہ کرنا تھا۔ وہ اپنی بات کے حق میں یہ کہتی ہے کہ وہ خود بھی یہ زہر کھاتی رہتی ہے اور ری ایکشن معلوم کرنے کے لیے کچھ دوسرے کیمیکلز بھی اپنے کھانے میں شامل کرتی رہی ہے‘ اس کے میڈیکل ریکارڈ اور کمپیوٹر ڈاٹا سے اس کی تصدیق ہوچکی ہے۔ ہاسپٹل کے ذرائع کے مطابق ایک بار اسے بے ہوشی کی حالت میں ہاسپٹل لایا گیا جس کے بعد اس کا معدہ صاف کرنا پڑا اس نے ڈاکٹروں کو اصل بات نہیں بتائی تھی‘ اس لیے اس کی بیماری کو عام فوڈ پوائزننگ کا واقعہ سمجھا گیا اور ضروری دوائیں دے کر فارغ کردیا گیا۔ وہ اپنی ذاتی زندگی ‘ رشتہ داوں سے تعلقات اپنے رویے اور احساسات کے بارے میں ایک لفظ نہیں بتاتی۔ البتہ اس کی ڈائری سے پتہ چلا ہے کہ وہ برطانوی مجرم گراہم ینگ Graham Young کو بہت پسند کرتی ہے۔ اس شخص نے ۱۹۶۲ ء سے ۱۹۷۱ ء کے دوران تین افراد کو زہردے کر ہلاک کیا تھا ‘ بعد میں اسے پھانسی دیدی گئی۔
اس لڑکی کا چرچا ابھی زبان زد عام تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ پولیس نے جاپان کے سرکاری ٹیلی ویژن ادارے NHK کے ایک رپورٹر ہیرو فومی کاساماتسو کو گرفتار کرلیا ہے۔ اس ۲۴ سالہ صحافی پر الزام ہے کہ وہ کئی عمارتوں خصوصاً گھروں کو آگ لگانے کے واقعات میں ملوث ہے۔ NHK میں اس رپورٹر کے فرائص جرائم اور حادثات کی کوریج تھی جو وہ بڑی خوبی کے ساتھ کررہاتھا۔ اب یہ حقیقت سامنے آئی کہ آتشزدگی کے جن واقعات کی کوریج میں اس نے دوسرے تمام چینلز کو مات دی تھی وہ آگ خود اس کی لگائی ہوئی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اب تک آتشزدگی کے گیارہ ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں یہ نوجوان صحافی ملوث رہا ہے۔ یہ تمام واقعات۲۳ اپریل سے ۱۵مئی کے درمیان ایک ہی علاقے میں پیش آئے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ملزم خود رہتا تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک شخص خود گھروں کو جلا کر ان کے ویڈیو امیج بنارہا ہے اور پھر اسے اتفاقی آتشزدگی کے واقعات بنا کر جاپان کے سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کیا جارہا ہے۔ دوسرے چینلز میں کام کرنے والے اس کے ساتھی رپورٹر اس بات پر حیران تھے کہ آگ لگنے کے واقعات کی اتنی تفصیلی ویڈیوز صرف یہ رپورٹر ہی کیوں بناپاتا ہے اور دوسروں کو وہاں پہنچنے میں دیر کیوں ہوجاتی ہے۔ خود پولیس کے لیے بھی یہ سوال پریشان کن تھا۔ پولیس نے ان واقعات کی تفتیش کے طور پر جب اس رپورٹر سے ملاقات کی تو اسے مشتبہ شخص اور خود اس کے حلیے میں حیرت انگیز مشابہت نظر آئی۔ پولیس نے رضاکارانہ طور پر اسے شامل تفتیش کرلیا ۔ ملزم نے بہت جلد اعتراف کرلیا کہ ان واقعات میں وہ خود ملوث رہا ہے جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے بتایا کہ وہ ذہنی دبائو سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتا تھا۔
جاپان کی بھرپور صنعتی اور اقتصادی ترقی نے اپنے معاشرے کو بہت کچھ دیاہے۔ مگر ہر فرد کو اپنی ذات کے اندر اتنا تنہا کردیا ہے کہ ان کی سوچ اور رویے تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان میں انسانی جذبات ختم ہورہے ہیں۔ پولیس اس قسم کے واقعات کی تفتیش کرکے چالان عدالت میں پیش کرتی رہے گی‘ اندھا قانون انصاف کرتا رہے گا مگر خاندانی نظام کی بنیادیں مزید کمزور ہوتی رہیں گی۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب تک والدین اپنے بچوں سے پیار کرنا نہیں سیکھیں گے‘ ان کے مسائل کو نہیں سمجھیں گے‘ ان سے قربت نہیں بڑھائیں گے اس قسم کے مسائل کو حل کرناممکن نہیں ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply