کیا ’’تَھر‘‘ میں تعلیم کی ڈوبتی کشتی کو کنارہ ملے گا؟

تھر‘ سندھ کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے جو اپنے معدنی ذخائر کے حوالے سے پورے ملک سمیت دنیا میں مشہور ہے۔ اس علاقے کی تعلیمی صورتحال سوچنے کے لائق ہے۔ تھرپارکر ضلع کے تعلیمی اداروں کے گذشتہ دس سال ۱۹۹۴ء سے ۲۰۰۴ء تک کی خواندگی شرح کی رپورٹ کے مطابق سال ۹۵۔۱۹۹۴ء کے مدمقابل گذشتہ سال ۲۰۰۴ء میں ضلع کا واحد کالج مٹھی میں ۵۷ فیصد طلبا کے داخلوں میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ جبکہ اسی طرح دس سال کے مدمقابل سال ۴۔۲۰۰۳ء میں ضلع کے پورے ہائی اسکولوں میں طلبا کے داخلوں میں ۹ فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح اس سے پہلے والے تین سالوں میں ۱۹۹۹ء کے دوران کالج کے طلبا کے داخلوں میں ۷۴ فیصد‘ ۲۰۰۰ء میں ۷۳ فیصد‘ ۲۰۰۱ء میں ۶۴ فیصد اور ۲۰۰۲ء میں ۶۰ فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہائی اسکولوں کے طلبا کے داخلوں میں گذشتہ تین سالوں کے دوران ۱۹۹۹ء میں ۲ فیصد‘ ۲۰۰۰ء میں ۲۹ فیصد‘ ۲۰۰۱ء میں ۲۳ فیصد اور ۲۰۰۲ء میں ۲۷ فیصد کمی ہوئی ہے۔ جبکہ ضلع کے پورے پرائمری اسکولوں میں ۱۹۹۴ء کے مدمقابل سال ۲۰۰۴ء کے دوران دس سال کے عرصے میں طلبا کے داخلوں میں ۵۱ فیصد کا اضافہ دکھایا گیا ہے۔

اسی طرح ضلع بھر کے مڈل اسکولوں میں طلبا کے داخلوں میں ۶۲ فیصد کا اضافہ دکھایا گیا ہے۔ جس میں سال ۱۹۹۴ء کے دوران پورے ضلع میں پرائمری اسکولوں کی تعداد ۲۲۶۷ تھی اور سال ۲۰۰۴ء میں پرائمری اسکولوں کی کل تعداد ۳۴۰۵ ہو گئی ہے۔ اسی طرح مڈل اسکول ۳۸ سے ۱۰۲ اور ہائی اسکول ۲۶ سے ۳۲ ہو گئے۔ ایک کالج سے تین کالج ہوئے ہیں جبکہ ۲۰۰۴ء میں اس وقت ضلع کے کل ۳۴۰۵ پرائمری اسکولوں میں سے صرف ۱۵۶۶ اسکولوں کی تو عمارتیں ہی نہیں ہیں۔

ضلع کے اسکولوں میں اس وقت کل ۶۸۲ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں حالانکہ سال ۹۵۔۱۹۹۴ء میں ضلع کے تعلیمی اداروں کے کل اسکولوں اور کالجوں کا سالانہ بجٹ ۱۸ کروڑ ۷۱ لاکھ ۸۲ ہزار ۱۸۱ روپے تھا۔

جبکہ سال ۰۴۔۲۰۰۳ء میں یہی بجٹ دگنا ہو کر ۳۵ کروڑ ۷۱ لاکھ ۳۷ ہزار ۵۶۶ روپے ہو گیا۔ ۹۵۔۱۹۹۴ء میں ۲۲۶۷ پرائمری اسکولوں میں ۲۴۷ اسکول بند تھے اور ۱۰ سال کے بعد سال ۲۰۰۴ء میں ۳۴۰۵ پرائمری اسکولوں میں سے ۳۵۲ اسکول بند بتائے جاتے ہیں حالانکہ وزارت تعلیم کے ڈیٹا بیس ادارے (سندھ ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) کی طرف سے ضلع تھرپارکر کے تعلیمی اداروں کے متعلق سال ۰۵۔۲۰۰۴ء کے جاری کردہ اعداد و شمار کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ضلع تھرپارکر میں لڑکیوں اور لڑکوں کے پرائمری اسکولوں کی تعداد ۳۵۲۲ ہے‘ جس میں مین گرلز پرائمری اسکولوں کی تعداد ۱۹۹ اور بوائز اسکولوں کی تعداد ۱۶۵۷ ہے۔ جبکہ برانچ گرلز پرائمری اسکولوں کی تعداد ۲۸۹ ہے جس میں گرلز مڈل مین اسکول ۱۵ اور بوائز ۷۱ ہیں۔ جبکہ برانچ مڈل گرلز اسکول ۸‘ بوائز ۱۹۵ ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع میں کل ہائی اسکولوں کی تعداد ۲۹ ہے‘ جس میں ۴ گرلز ہائی اسکول اور ۲۵ بوائز ہائی اسکول شامل ہیں اور ضلع میں کل ۳ کالجز ہیں۔ اسی طرح ضلع میں کل اسکولوں اور کالجوں کی تعداد ۳۸۴۳ ہے۔

بتائے گئے اعداد و شمار کے مطابق ۷۹۸ اسکول بند ہیں‘ جس میں پرائمری گرلز طلبا کی تعداد ۵۰ ہزار ۲۴۶‘ بوائز طلبا کی تعداد ۷۹۹۰۲ ہے اور گرلز مڈل اسکولوں کے طلبا کی تعداد ۱۲۸۰ اور بوائز طلبا کی تعداد ۴۸۳۹ ہے۔

اس کے علاوہ ضلع کے تمام گرلز بوائز پرائمری مڈل اور ہائی اسکولوں میں اساتذہ کی کل تعداد ۴۶۰۰ ہے‘ جس میں پرائمری گرلز ٹیچر کی تعداد ۴۸۸ اور بوائز ٹیچر کی تعداد ۳۳۶۲ ہے۔ مڈل اسکولوں کی گرلز ٹیچرز کی تعداد ۲۸ اور بوائز ٹیچر کی تعداد ۳۳۰ ہے جبکہ ہائی اسکولوں کی گرلز ٹیچر کی تعداد ۳۴ اور بوائز ٹیچر کی تعداد ۳۵۸ ہے‘ جبکہ ۹۹۹ اساتذہ اور دوسرے ملازمین کی آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔

اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پورے ضلع میں صرف ۳۹ اسکولوں میں بجلی کی سہولت موجود ہے اور ۳۷۸۸ اسکولوں میں بجلی نہیں ہے جبکہ ۲۴۸۵ اسکولوں کو پینے کے پانی کی بھی سہولت میسر نہیں ہے۔ اسی طرح ۲۷۵۷ اسکول بغیر ٹوائلٹ اور ۲۸۷۴ اسکول بغیر چار دیواری کے شامل ہیں۔

دوسری طرف ۱۹۹۸ء کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق ضلع تھرپارکر کی کل مردم شماری ۹ لاکھ ۱۴ ہزار ۵۶۰ ہے اور ضلع میں گائوں کی کل تعداد ۲۴۴۲ ہے جبکہ ضلع کے اندر مردوں کی خواندگی کی شرح ۳۳ء۲۸ فیصد ہے اور عورتوں کی خواندگی کی شرح ۹۱ء۶ فیصد ہے جبکہ باقی پورے ملک میں سرکاری طور پر خواندگی شرح ۴۵ فیصد ظاہر کی گئی ہے۔

مندرجہ بالا رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد تھر میں تعلیم کی تباہی کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

ضلع کے پوری یوسیز میں سپروائزر مقرر ہونے کے باوجود ایڈیشنل سپروائزر مقرر کرنا‘ بغیر کسی ضرورت کے برانچ اسکولوں کا کھلنا‘ ایک گائوں میں کئی اسکولوں کا ہونا اور کئی گائوں میں اس کے برعکس ایک بھی اسکول کا نہ ہونا۔ کئی گائوں میں اسکولوں کی عمارتوں کے ہوتے ہوئے ان کا بند رہنا تو دوسری طرف کئی گائوں میں اسکولوں کی عمارتیں نہیں بنی ہوئی ہیں اور انہیں تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں چلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ اسکولوں میں کہیں ایک استاد کے پاس ۴۰ بچے تو کہیں استادوں کے پاس صرف ۸ بچے داخل ہیں۔ ضلعی تعلیمی پوسٹوں پر نان گزیٹڈ افراد کا ہونا‘ سینئر اور ہوشیار اساتذہ کو ایک طرف کرنا۔ اساتذہ کی تنظیموں کے بائیکاٹ کا معمول پر ہونا‘ تعلیم کی ترقی کے لیے بنائی گئی پی ٹی اے اور ایس ایم سی جیسی کمیٹیوں کا غیرفعال ہونا۔ انتظامیہ اور تنظیموں میں مخصوص لابیوں کا حاوی رہنا‘ اساتذہ کی تنخواہ کم ہونے اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے ان کا تعلیم پر توجہ نہ دینا۔

سپروائزروں اور افسروں کو آدھی تنخواہ دے کر اساتذہ کا اسکول میں ڈیوٹی نہ کرنا‘ نصاب کا غیرمعیاری اور خشک ہونا‘ تعلیمی شعور نہ ہونا اور نوکریاں نہ ملنے کی وجہ سے والدین کی تعلیم کی طرف عدم دلچسپی‘ مرکز کی طرف سے ضلعوں کو اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے شعبہ کو فنڈز دیر سے مہیا کرنا‘ تعلیمی پالیسیوں پر سختی سے عمل نہیں کرنا‘ فنڈز کا خرد برد ہونا‘ تعلیمی اداروں کی صحیح مانیٹرنگ نہیں ہونا‘ کئی گائوں میں گرلز اسکولوں کا بند رہنا یا بعض گائوں میں گرلز اسکولوں کا نہ ہونا‘ تعلیمی ادارے میں بہت عرصے سے اساتذہ اور دوسرے اسٹاف سمیت چھوٹے ملازموں کا تقرر نہ ہونے کی وجہ سے آسامیوں کا خالی رہنا۔ کئی اسکولی عمارتوں کا وڈیروں کی بیٹھکوں میں تبدیل ہو جانا اور ایسے مسائل کا تعلیمی ڈپارٹمنٹ کے علم میں ہوتے ہوئے بھی ان کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کرنا۔ اس جیسے کافی مسائل تھر کی تعلیم کی تباہی کا سبب ہیں۔

تعلیمی اداروں کے پچھلے دس سالوں کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف غیرضروری اسکولوں‘ پڑھانے والے اسٹاف‘ عمارتوں اور بجٹ میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف بچوں کے داخلوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ انتظامی مسائل بڑھنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ ایسے حالات میں تھر کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کون سا کنارہ ملے گا؟ یہ ہم سب کے آگے ایک بہت بڑا سوال ہے۔

(ماخوذ از سندھی روزنامے: ’’کاوش‘‘ و ’’ہلالِ پاکستان‘‘)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*