تعلیم کی عالمگیریت

برطانوی ناول نگار Kingsley Amis کہتا ہے، زیادتی کا مطلب معیار میں کمی ہے۔ اس نے پیش گوئی کی کہ یونیورسٹیز کا پھیلائو اس کے معیار کو کم کرے گا۔ سال کے اس حصے میں جب بہت سے طلبہ کالج جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں، یہ موزوں ہو گا کہ ہم یہ معلوم کریں کہ آیا بات درست ہے؟

اعلیٰ تعلیم کی ابتدا عالمگیریت کا مظہر ہے۔ ۴۵ سال پہلے جب Amis نے اپنی پیش گوئی کی‘ اس وقت صرف ۵ فیصد برطانیہ کے طالب علم اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آج یہ ۴۵ فیصد کے قریب ہے اور امریکی کالجز میں داخلے کی شرح میں بھی برابر اضافہ ہو رہا ہے۔

۱۹۶۰ء میں ۴۵ فیصد اسکول کے بچے کالج میں میں enroll ہوتے تھے جو کہ اب ۶۵ فیصد ہو گیا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ پھیلائو یکساں جاری ہے اور ایشیا میں اس کی رفتار خطرناک حد تک کم ہے۔ تمام لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ دنیا کے اس خطے میں دس کروڑ طلبہ ہیں۔

اگر Amis کا خیال صحیح تھا اور زیادتی کا مطلب خرابی ہے تو عالمگیر سطح پر اعلیٰ تعلیم میں ابتری وقوع پذیر ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے‘ وہ دراصل دنیا کی یونیورسٹیز کے مابین مسابقت میں شدت ہے۔ یونیورسٹیز مختلف کام انجام دیتی ہیں اور سیاست دان بھی انجام دیتے ہیں۔ لیکن ان دونوں کے درمیان شاذ و نادر ہی فرق کیا جاتا ہے۔

ایک کام بذریعہ تحقیق معاشی پیمانے کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، دوسرا کام اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ انتہائی علمی استعداد کے حامل جواں سال لوگ اپنی تعلیمی استعداد سے بھرپور انداز سے مستفید ہو سکیں‘ تیسرا کام معلومات کے بین الاقوامی تبادلے کو فروغ دینا ہے۔

اس بنیاد پر امریکی جامعات بالعموم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں۔ برطانیہ کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ زیادتی کے بجائے کمی کا مطلب خرابی ہے۔

برطانیہ میں ۱۹۷۶ء سے سرکار کی طرف سے فی طالب علم پبلک فنڈنگ میں ۴۰ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس خلاء کو پر کرنے کے لئے نجی رقم کا کہیں پتا نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں اوسطاً تعلیم گاہوں میں تنخواہ امریکہ کے مقابلہ میں آدھے سے بھی کم ہے۔

اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ میری طرح بہت سے برطانوی اکیڈمکس براعظم کی دوسری جانب اپنے Career کا انتخاب کرتے ہیں۔

اول نمبر پر امریکہ اور یورپی یونیورسٹیز کی مالی تفریق اصلاً جمع شدہ دولت کا مسئلہ ہے۔

آکسفورڈ اور کیمبرج جو کہ یورپ کی امیر ترین جامعات شمار ہوتی ہیں‘ کے مشترکہ کالجوں پر سرمایہ کاری ۵ بلین ڈالر کے قریب ہے۔ ذرا موازنہ کیجئے ہارورڈ کا وقف ۲۳ بلین ڈالر ہے جو کہ برطانیہ کی تمام یونیورسٹیز کے اثاثہ سے دو گنا ہے اور ہارورڈ کوئی ایسی یونیورسٹی نہیں ہے جو اپنے امریکی حریفوں (rivals) سے بہت آگے ہو۔ اگر آکسفورڈ اور کیمرج کو امریکہ میں منتقل کر دیا جائے تو جامعات کی دولت کی فہرست میں ان کا نمبر۱۵ سے اوپر نہیں ہو گا۔

پیسہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ کم از کم ایک بات تو ہے کہ تحقیق میں اس کی مدد سے کمال حاصل کیا جاتا ہے۔

۱۹۰۱ء اور ۱۹۵۰ء کے درمیان امریکا کی بہترین یونیورسٹیاں اپنی ہم منصب یورپین یونیورسٹیوں سے زیادہ مالدار نہیں تھیں۔ اس عرصے میں امریکا کو سائنس میں محض ۲۸ نوبل پرائزز ملے۔

۱۹۵۰ء سے امریکا کی اعلیٰ جامعات بھرپور Fund Raising اور دانشمندانہ سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے اوقاف میں اضافہ کرتی رہی ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ وہ اپنے کثیر تحقیقی وقف اور تنخواہوں کے سہارے سائنٹیفک ریسرچ پر غالب رہے۔

۱۹۵۱ء سے ۱۹۹۷ء کے درمیان ۱۵۹ نوبل انعامات امریکیوں کو دیے گئے۔ ان میں زیادہ تناسب امریکا کی جامعات میں کام کرنے والے غیرامریکی معلمین کا ہے۔ لیکن ہم نے اپنے انتہائی جواں سال روشن دماغ لوگوںکے لئے کیا کیا؟ کالج میں توسیع کی گئی‘ جیسا کہ منصوبے کے مطابق کیا جانا تھا جو کہ اہلیت پیدا کرنے کی جانب ایک قدم شمار ہوتا؟

یہاں خبر بہت زیادہ اچھی نہیں۔ کالج میں داخل ہونے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ کے باوجود ماہرِ معاشیات Gary Solon کی تازہ تحقیق کے مطابق امریکا میں سماجی تحرک میں ۱۹۶۰ء کی دہائی سے نمایاں طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔

ایک سرسری اندازے کے مطابق اوسطاً امریکی بچے اپنے Scandinavian بچوں کے مقابلے میں دوگنے ہیں اور ان کا بھی اسی سطح کے Income group سے تعلق ہے جس سے ان کے والدین کا تھا۔ یہ معاملہ اتنا خراب نہیں ہے جتنا کہ سماجی طور سے سخت گیر برطانیہ کا تھا لیکن معاملہ اسی طرف جا رہا ہے۔

یہ شماریات موقع بہ موقع مستعد ہونے والے لبرلوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی elite universities تک بہتر رسائی کا مطالبہ کریں۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ رو بہ زوال سماجی تحرک کا امریکی اسکول کے مقابلے میں امریکی جامعات سے بہت ہی کم تعلق ہے۔ اصل مسئلہ سرکاری ثانوی تعلیم کا کم تر معیار ہے‘ جسے نجی تعلیم پر آنے والا روز افزوں خرچ مزید دو آتشہ کر رہا ہے۔

امریکا میں ۸۳ فیصد ہائی اسکول کے طلبہ کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جن کی آمدنی پہلے پانچ نمبروں پر ہے اور اس کا موازنہ نیچے کے تیسرے درجے سے کیا جاتا ہے۔ اس تفریق کی بہترین وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ امیر گھرانے نجی تعلیم کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں۔

جامعات کا کردار بین الاقوامی کردار ہے۔ یہاں بھی تشویش کی بنیادیں موجود ہیں۔ معمول یہ تھا کہ ایشیائی طلباء جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے امریکا چلے جاتے تھے۔ لیکن پچھلے سال کچھ ویزا پابندیوں کی وجہ سے اور کچھ امریکا کے بین الاقوامی امیج خراب ہونے کے باعث امریکہ جانے والے صرف چینی طالب علموں میں ۴۵ فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کے برعکس برطانیہ کی جامعات میں ۳۸۰۰۰ چینی طالب علم ہیں اور یہ تعداد روزافزوں ہے۔

یورپ کی قومی یونیورسٹیاں خاص طور پر اعلیٰ سطحی تحقیقی ادارے جن کے پاس فنڈز کی بے انتہا کمی ہے‘ امریکی کالج اِن پر بازی لے جاتے ہیں۔

لیکن وہ اپنے برطانوی جامعات سے بہت زیادہ بہتر نہیں ہیں۔ خاص طور پر ایسے لوگوں کو تعلیم دینے کے حوالے سے جن کا تعلق کم آمدنی والے گروہ سے ہے۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں جیسا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی عالمی مارکیٹ میں یورپی مسابقت سے لاحق خطرات ہیں۔

Amis کے دعویٰ کے باوجود ’’زیادہ کا مطلب خراب نہیں۔‘‘ امریکی کالجز اپنی تعریف و توصیف پر اکتفا نہیں کر سکتے۔ اگر انہیں اس معیار پر پہنچنا ہے جس کی توقع وہ اپنے آپ سے رکھتے ہیں یعنی بہتر معیار۔

(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*