مصر افریقا میں پھر سرگرم!

مصر کے سابق کرشماتی صدر جمال عبدالناصر کا دعویٰ تھا کہ مصر کی تین خصوصیات اس کا تعارف ہیں۔ ان میں عرب اور مسلمان ہونا تو ثابت ہیں مگر بقول جمال عبدالناصر، تیسری خصوصیت ایسی ہے جس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ ان کا استفسار تھاـ کہ کیا ہم اس بات سے صَرفِ نظر کر سکتے ہیں کہ برِاعظم افریقا کا حصہ ہونا قدرت نے ہماری تقدیر میں لکھ دیا ہے؟‘‘ ناصر مصر کو افریقا کے قریب لے کر آئے اور انہوں نے ان راہ نمائوں کے ساتھ تعلقات پروان چڑھائے، جو اُن کے مصر میں لائے گئے انقلاب کی تقلید کرنا چاہتے تھے۔

مگر حالیہ برسوں میں مصر افریقا سے بہت دور جا چکا ہے۔ تعلق میں یہ تلخی اُس وقت آئی، جب ۱۹۹۵ء میں مصری صدر حسنی مبارک ایتھوپیا میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔ اگلے سولہ سال حسنی مبارک نے افریقی اجلاسوں میں شرکت نہیں کی۔ جب بالآخر ۲۰۱۱ء میں انہیں عوامی دبائو کے نتیجے میں عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، تو ملک کی افریقی پالیسی پانی کے اوپر جھگڑنے سے زیادہ اور کچھ نہ تھی۔ مگر تعلقات میں رونما ہونے والی خرابی کے کئی سال بعد مصر اب ایک بار پھر اس برِاعظم میں دلچسپی لے رہا ہے۔

افریقا کی جانب نئے سرے سے توجہ کی منتقلی مصر کے وقار اور ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔ مصر عالمی سطح پر اپنی زوال پذیری کی وجہ سے بے چین ہے اور ایک بار پھر اس مقام کو حاصل کرنے کا خواہاں ہے جو ناصر کے دورمیں اسے حاصل تھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں جہاں وہ خوشحال پڑوسیوں کی وجہ سے پس منظر میں چلا گیا ہے، ایسا ہونا مشکل ہے۔ لیکن افریقا میں اس کے پاس طاقتور ترین فوج اور تیسری بڑی معیشت ہے۔ یہاں کاروبار سے ہی شروع کرے تو اس کے پاس حاصل کرنے کو بہت کچھ ہے۔

اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ مصر افریقا سے کتنا دور جا چکا ہے، یہ اشارہ کافی ہے کہ اس کی مجموعی تجارت کا تین فیصد سے بھی کم حصہ افریقا کے ساتھ ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک سوئیس ادارے ’’بین الاقوامی مرکز برائے تجارت اور پائیدار ترقی‘‘ سے منسلک وینائے انچیرس کے بیان کردہ ہیں۔ لیبیا کو چھوڑ کر، کوئی بھی افریقی ملک اس کی پہلی پندرہ برآمدی مارکیٹوں میں نہیں ہے۔ نائیجیریا اس وقت افریقا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن وہ مصر کی بیرونِ ملک فروخت کا صرف ۳ء۰ فیصد خریدتی ہے۔ حالانکہ چالیس دیگر ممالک سے وہ مال خرید رہی ہے اور اس میں بارباڈوس اور انڈورا جیسے دور دراز اور چھوٹے ممالک بھی شامل ہیں۔

اس کی کچھ وجوہات ناقص انفرا اسٹرکچر، ذرائع آمد و رفت اور افریقی ممالک میں پرانے تجارتی ساتھیوں کے ساتھ ہی جڑے رہنے کا رجحان ہے۔ لیکن افریقی ترقیاتی بینک کی لیلیٰ مقدم کا کہنا ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ مصر کی تجارت بڑھی ہے مگر افریقا کے ساتھ اس کی تجارت میں کوئی قابلِ ذکر بڑھوتری نہیں ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ابھی بہتری کی بہت گنجائش باقی ہے۔ کیونکہ اہم ترین بات یہ ہے کہ مصر وہی اشیا فروخت کر رہا ہے جن کی افریقا میں مانگ ہے۔ جیسے دوا سازی سے متعلقہ سامان اور تعمیرات کے لیے سیمنٹ اور اسٹیل۔

مصر کے صدر السیسی اگرچہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری لانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، لیکن تجارتی حلقوں نے ان کے افریقا کی طرف مائل رجحان کو پوری طرح محسوس کیا ہے۔ قلعہ ہولڈنگز ایک مصری کاروباری ادارہ ہے۔ اس ادارے سے وابستہ احمد ہیکل کا کہنا ہے کہ ہم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ حکومت افریقا کے ساتھ تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے۔ ایک سرمایہ کاری کانفرنس، جس کا بہت چرچا ہے، ۱۳ سے ۱۵ مارچ کو ساحلی شہر شرم الشیخ میں منعقد ہونے جارہی ہے۔ اس کانفرنس میں مصر سمیت دس افریقی سربراہانِ مملکت شرکت کریں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ قاہرہ میں ایک آزاد تجارتی علاقہ کے قیام کا آغاز کریں گے۔ گو کہ ٹیرف غیر معقول حد تک زیادہ رہیں گے اور اس پر عملدرآمد بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہوگا، مگر یہ صر ف ابھی آغاز ہے۔

السیسی اور افریقا کے درمیان ابتدائی کشیدگیوں کو دیکھتے ہوئے تعلقات میں بہتری کی رفتار حیران کن ہے۔ ۲۰۱۳ء میں مصر کے پہلے جمہوری صدر کو طاقت کے ذریعے ہٹائے جانے کے بعد افریقی یونین نے مصر کی رکنیت معطل کر دی تھی۔ یہ رکنیت تقریباً ایک سال تک معطل رہی۔ السیسی کے خیال میں یہ نہ صرف توہین تھی بلکہ افریقی رہنماؤں کی جانب سے اِخوان المسلمون کے خطرے کو سمجھنے میں بھی ناکامی تھی اور ظاہر ہے محمد مرسی اِخوان کے ہی ایک رکن تھے۔ اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے بعد سے السیسی نے اپنے افریقی دوستوں کو سیاسی اسلام کے نقصانات باور کرانے کی کوشش کی ہے۔

لیبیا کی خانہ جنگی میں مصر کی مداخلت السیسی کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ مل کر مصر نے مشرقی لیبیا میں پائی جانے والی کسی حد تک سیکولر حکومت کی پشت پناہی کی ہے۔ جبکہ قطر اور ترکی مغربی حصے میں موجود حریف اسلامی اتحاد کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ پراکسی جنگ اس وسیع کشمکش کا حصہ ہے جو خطے میں آمروں اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے جنہیں السیسی اکثر غلط طور پر دہشت گردوں سے ملا دیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خوش کُن بات اُن کی اسلام میں ’انقلاب‘ لانے کی دعوت رہی ہے جس کا مقصد افریقی جہادی گروہوں کو کمزور کرنا ہے۔

لیبیا تو اب مرکزِ نگاہ بنا ہے لیکن مصر کے جنوبی پڑوسی نیل کے پانی پر جھگڑوں کی وجہ سے اس کے لیے ہمیشہ باعثِ آزار رہے ہیں۔ دریائے نیل مصر کے لیے پانی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ مصر نچلی سطحِ زمین پر واقع ہے، لہٰذا دریا کے بہاؤ پر اس کا زور نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود سوڈان کے ساتھ ۱۹۵۹ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت وہ نیل کے زیادہ تر پانی کا دعویدار ہے۔ یہ پانی اسوان ڈیم کے ذریعے جمع ہوتا ہے۔ ایک دوسرا معاہدہ جو برطانویوں کے ساتھ تیس سال پہلے طے پایا تھا، مصر کو بظاہر یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ دریا کی بالائی سطح پر بننے والے کسی بھی تعمیری منصوبے کو روک دے۔ ایتھوپیا نیل کے زیادہ تر پانی کا منبع ہے، چنانچہ جب ۲۰۱۱ء میں اس نے ایک وسیع ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا تھا تو جنگ کی باتیں شروع ہو گئی تھیں۔

پرانے معاہدے واضح طور پر غیرمنصفانہ تھے اور ڈیم کی اہمیت بھی بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی۔ لیکن اس جھگڑے نے مصر کے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو تلخ کر دیا تھا۔ زیادہ تر ممالک، جن میں نیل کا پانی تقسیم ہوتا ہے، ایک نئے معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں مگر مصر اُن میں شامل نہیں ہے۔ البتہ مبارک نے اگر افریقی رہنماؤں کے ساتھ درشت رویہ رکھا تھا تو السیسی نے تلخیوں کو کم کیا ہے۔ پچھلے ہفتے وہ ایتھوپیا کے ساتھ نیل کے پانی کی تقسیم پر ایک ابتدائی سودا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اس سودے کی اہمیت بعض بنیادی چیزوں پر منحصر ہوگی مثلاً مصر کو کتنا پانی ملتا ہے، کتنا جلدی ڈیم بھرتا ہے اور پیدا ہونے والی بجلی میں اشتراک ہوتا ہے یا نہیں۔ مگر جس طریقے سے السیسی نے معاہدے کو یقینی بنایا ہے، وہ افریقا کے ساتھ ان کی قربت کی واضح مثال ہے۔ انہوں نے لچک اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ افریقی اجلاسوں میں موجود رہے ہیں اور دیگر راہ نماؤں کے ساتھ مِلے جُلے ہیں۔ اس طور ان کا قد کاٹھ شاید ناصر جتنا تو نہ ہو پائے مگر ہو سکتا ہے وہ برِاعظم افریقا میں مصر کی دوبارہ جگہ بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں۔

(مترجم: طاہرہ فردوس)

“Egypt and Africa: Looking up the Nile”.
(“The Economist”. March 14, 2015)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*