مصر اور ایران کی ’’مقدس سیاست‘‘

مصر کے صدر محمد مرسی نے گزشتہ ماہ ایران کے صدر محمود احمدی نژاد سے ہاتھ کیا ملایا، اب انہیں ہر طرف سے مخالفت اور تنقید کا سامنا ہے۔ حد یہ ہے کہ ان کے اپنے (حکمراں حلقے کے) لوگ بھی انہیں شک کی نظر سے دیکھنے لگے ہیں۔ نائب صدر، وزیر انصاف اور چند سینئر بیورو کریٹس سمیت بہت سے لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے۔ ۲۳؍اپریل کو مصری صدر کے ایک سینئر لیگل ایڈوائزر فواد جداللہ نے شدید غصے کی حالت میں استعفیٰ دے دیا اور ایک خط عوام کے نام لکھا جس میں صدر محمد مرسی کے بارے میں کہا کہ وہ بصیرت نہیں رکھتے، مصری نوجوانوں کے ولولے کو بروئے کار لاکر انقلاب کے اہداف حاصل کرنا نہیں جانتے اور یہ کہ پالیسیوں کی تشکیل میں اخوان المسلمون کے دانش وروں کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔

خط کے آخر میں فواد جداللہ نے صدر مرسی کی بصیرت کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے ایران سے دوستی کی بات کرکے اچھا نہیں کیا۔ انہوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ایرانی باشندوں کے لیے مصر کی سیاحت ممکن بنانا خطرناک ثابت ہوگا کیونکہ اس صورت میں مصر کے حالات بھی خراب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے خط میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ ایران سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی صورت میں مملکتِ فاطمیہ کا احیا ہوسکتا ہے۔ ایرانی حکومت مصر میں فنڈنگ بھی بڑھاسکتی ہے اور اپنے ایجنٹ بھی یہاں پھیلا سکتی ہے تاکہ فاطمی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ سُنّیوں کی طاقت ختم کردی جائے۔

یہ ردعمل ضرورت سے کہیں زیادہ بلکہ خاصا غیر منطقی ہے۔ اسماعیلی فاطمیوں کی دو سو سالہ حکومت ختم کرکے مشہور فاتح صلاح الدین ایوبی نے بارہویں صدی عیسوی میں مصر کو دوبارہ سُنّیوں کے حوالے کیا تھا تب سے اب تک مصر پر سُنّی ہی حکمران رہے ہیں۔ مصر کی آبادی میں سُنّی ۹۰ فیصد ہیں۔ شیعوں کے احیا کا دور تک کوئی امکان نہیں۔ مصر کے دروازے ایرانی سیاحوں پر تین عشروں سے بند ہیں۔ اب اگر ایرانی سیاحوں کو مصر آنے کی اجازت دے بھی دی گئی تو اِس سے مصر کی معاشرت اور سیاست پر کوئی منفی اثر مرتب نہیں ہوگا۔

فواد جداللہ کے خدشات بے بنیاد نہیں۔ اسلامی دنیا میں سُنّی شیعہ اختلافات ایک ہزار سال سے کسی نہ کسی شکل میں موجود اور متحرک رہے ہیں۔ چند عشروں کے دوران یہ تقسیم مزید گہری ہوگئی ہے۔ بعض خطوں کی بدلتی ہوئی سیاسی اور معاشرتی حالت نے سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان اختلافات کو غیر معمولی حد تک ہوا دی ہے۔ عراق، بحرین، لبنان اور شام میں ایران اور سعودی عرب نے پس پردہ متحارب قوتوں کا کردار ادا کیا۔ ان دو بڑی طاقتوں کے درمیان اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کی رَسّا کشی نے حالات کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ سُنّیوں اور شیعوں کے درمیان اختلافات غیر معمولی شِدّت اختیار کرچکے ہیں۔

دُنیا بھر کے مسلمانوں میں سُنّی ۹۰ فیصد سے زائد ہیں۔ اُن میں سعودی عرب کے متعارف کرائے ہوئے رجعت پسندانہ تقوے کو تیزی سے فروغ ملا ہے۔ مصر کے انتخابات میں بھی سلفی نمایاں رہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ذرا سی بھی مختلف نظر آنے والی ہر بات کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ صوفیانہ روحانیت اور ایرانی شیعوں کے مسلک کو بھی یکسر مسترد کرتے آئے ہیں۔ سلفیوں نے فروری میں ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے دورۂ مصر کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ایرانی سفیر کے گھر کا محاصرہ بھی کیا تھا۔

سُنیّوں کا یہ انتہا پسندانہ رویّہ اخوان المسلمون کے لیے بھی انتہائی بے مزہ کرنے والا ہے۔ اخوان نے ہر دور میں مغرب کے ثقافتی اثرات کا دائرہ محدود کرنے کے لیے پان اسلام ازم کی بات کی ہے۔ ایران میں انقلاب کی باتیں کرنے والے لوگوں کو اخوان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اخوان نے ۱۹۵۴ء میں ایران کے شعلہ بیان سیاست دان نواب صفوی کا خیر مقدم کیا تھا جن کے معتقدین نے ایران میں نصف درجن سے زائد سیکولر سیاست دانوں کو قتل کیا تھا۔ نواب صفوی پر مقدمہ چلایا گیا اور انہیں ۱۹۵۵ء میں سزائے موت دے دی گئی۔ اخوان کے مرکزی نظریاتی ستون سید قطب کو ۱۹۶۶ء میں سزائے موت دی گئی۔ اخوان المسلمون نے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک سمیت تمام سیکولر رہنماؤں پر ہمیشہ شدید نکتہ چینی کی اور ان پر ایران مخالف امریکی پالیسیوں کی سرپرستی کا الزام عائد کیا۔

مصر کے صدر محمد مرسی نے ایران سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے جو کچھ کیا ہے، اس کا کچھ زیادہ مثبت اثر اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ اعلیٰ سطح پر دوروں کا تبادلہ ہوا ہے اور وعدے بھی اب تک مبہم ہیں۔ ایران سے تعلقات بڑھانے کی کوششیں صرف مصر میں اخوان المسلمون کے ہمدردوں کو ناراض کرنے کا سبب نہیں بنیں، شام میں ایران نواز بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف برسر پیکار اخوان بھی یہ سب کچھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مصری صدر کے اقدام سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی کچھ زیادہ خوش نہیں۔ عراق، لیبیا، قطر اور ترکی کے برعکس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نمایاں طور پر مصر کی معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں اور فنڈز کے اجرا سے دور رہے ہیں۔ اب اخوان المسلمون کو بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ حمایت کرنا اور بات تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی حقیقی فتح دیکھنے کے خواہش مند کم کم ہیں۔

(“Egypt and Iran: Pious politics”…”The Economist”. May 4, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*