عرب ممالک میں آئی تبدیلی کی حالیہ لہر کے دوران برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا قاہرہ بیان کہ ’’میں الاخوان المسلمون سے بات چیت نہیں کروں گا۔ ہم انہیں دیگر انقلابی قوتوں کا لیڈر نہیں تسلیم کر سکتے‘‘۔ کوئی اتفاقی نہیں،بلکہ یہ ان کی آبائی اسلام دشمنی کے اظہار کا تسلسل ہے۔ اگر ہم مصر کے پچھلے ۱۵۰ سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مصر پر فرانسیسی حملے ۱۷۹۹ء کے بعد سے جو دور شروع ہوا ہے وہ۱۸۸۲ء میں برطانوی براہ راست قبضے سے اپنے عروج کو پہنچا تھا۔ جو بات آج ۲۰۱۱ میں برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہی اسی طرح کا رویہ اس کے پیش رو لارڈ کرومر نے اپنایا تھا۔ لارڈ کرومر خدیو مصر کی موجودگی کے باوجود مصر کا حقیقی حکمراں تھا۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے اس نے جو ہتھکنڈے اپنائے اور جو ہتھکنڈے مغرب ومشرق کے اسلام دشمن آج اپنا رہے ہیں اس میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بلکہ اگر آپ تاریخوں اوربرسوں کا اندراج نہ کریں تو آپ کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ یہ بیسویں صدی کے شروع کی بات ہے یا اکیسویں صدی کے شروع کی۔ ۷ مارچ ۲۰۱۱ء میں برطانیہ کے اخبار میں اخوان کا ڈر جس طرح دکھایاگیا ہے، اس کا تقابل ۲۲ مارچ ۱۹۵۲ء کے مشہور برطانوی اخبار State man of Nation سے کریں: وفد پارٹی خواہ خراب اور کمزور ہی کیوں نہ ہو لیکن الاخوان المسلمون وفد پارٹی سے کہیں خطرناک ہے۔ جہاں وفد پارٹی اپنی اصلیت کے اعتبار سے ایک مغربی جمہوریت پسند پارٹی ہے، وہاں الاخوان المسلمون مذہبی جنون کی بنا پر مغرب سے ہر قسم کے اشتراک عمل سے متنفر ہے۔ وفد پارٹی جس قدر کمزور ہوگی الاخوان المسلمون اسی قدر مضبوط ہوگی۔ یونیورسٹیوں میں اخوان پہلے سے ہی چھائے ہوئے ہیں اور بہت سے دیہاتوں کو وہ نوجوان اسکول ماسٹروں کے ذریعے اپنے قابو میں کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے ٹریڈ یونین بھی قائم کر رکھی ہے۔ اگر ہم نے وفد پارٹی کو کمزور کرنے کے شاہی منصوبے سے چشم پوشی کی تو اس سے امن وامان کے قیام میں کوئی فائدہ نہ ہوگا، بلکہ ہم آنے والے انقلاب کی باتیں ان مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں میں منتقل کردیں گے جن کی تحریک کی بنیاد ہی مغرب سے نفرت پر ہے۔
عرب ممالک میں انقلابات کی آمد کی دستک کے ساتھ ہی الاخوان المسلمون کا ہوا کھڑا کرنے والی بین الاقوامی ٹولی وہی ہے جو آج سے سو سال قبل مختلف حیلے بہانوں سے عرب کو اپنا غلام بناکر انہیں ’’مہذب‘‘ اور ’’ترقی یافتہ‘‘ بنانے کی مہم سرکرچکی ہے۔ صرف ایکٹر بدلے ہیں کیریکٹر وہی ہے۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں اس وقت جس طرح مصری قوم پرستی، عرب قوم پرستی، مشرقیت (آبا پرستی) اور عالمگیریت کی آڑ میں اسلامی، فکری، ملی رشتے کو پارہ پارہ کیاگیا، تقریباً وہی سازشیں اور ایکٹر آج پھر عرب دنیا میں تلاش کرکے سامنے لائے جارہے ہیں۔ وہ سارے نام نہاد، وطن پرست، ماڈرن لبرل اور سائنسی فکر کا دعویٰ کرنے والے عناصر موجودہ انقلابی تحریک کے سرخیل بنائے جارہے ہیں، جو جبر و انتشار کے ۶۰ برسوں کے عرصے میں آرام سے آمروں کے ہم پیالہ و ہم نوالہ یا کم از کم خاموش تماشائی بنے رہے اور قومی لوٹ مار میں بھی شریک رہے۔ مصر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دیکھتے ہیں کہ ۱۸۸۳ء میں اعرابی پاشا کی بغاوت کی ناکامی کے بعد انگریزوں کا مصر پر مکمل قبضہ ہوگیا اور انہوں نے آئندہ کبھی اس قسم کی بغاوت کے امکانات کو پہلے سے ہی روکنے کے لیے مصر میں فکری انتشار کو ہوا دی۔ ایک گروہ محب وطن و محب اسلام تھا، جس کے قائد مصطفی کمال تھے۔ دوسرا گروہ اسلامی رشتے پر زندگی کی تعمیر کے خلاف مصری وطنیت کا علمبردار تھا۔اس وطنیت کا مطلب تھا ’’اوّل وآخرمصر اور صرف مصر‘‘۔ مصری وطنیت کے عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے وہ مصر کی ماقبل اسلام کی فرعونی تہذیب کو کرید کرید کر لا رہاتھا۔ وہ دور فراعنہ سے اپنی تاریخ کے قلابے ملاتا تھا۔ اس گروہ میں سعد زغلوں، قاسم امین شامل تھے۔ یہ ترکوں کو ظالم اور برطانیہ کو عادل ثابت کرتا تھا۔ اس گروہ کو انگریز ایجنٹ لارڈ کرومر کی مکمل سرپرستی و رہنمائی حاصل تھی۔انگریز ایک طرف عربوں کو ترکوں سے جدا کر رہا تھا تو دوسری طرف عربوں کو عربوں سے بیزار کر رہا تھا۔ ’’المقطم‘‘ اخبار اس گروہ کا نمائندہ تھا۔ وہ صاف لکھ رہا تھا: ’’انگریز مصر میںقیام کی مشقت اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ وہ مصریوں کو نظام ظلم سے نجات دلاناچاہتے ہیں اور انہیں عدل وانصاف کی بہار سے بہرہ اندوز کرنا چاہتے ہیں۔ مصر کو افلاس سے نکالنے اور متوازن اقتصادی نظام قائم کرنے کا سہرا انگریزوں کے سر ہے‘‘۔ اسی جماعت کا نام ’’الحزب الوطی الحر‘‘ رکھ کر مصطفی کامل کی الحزب الوطنی مصری و طنیت کے تیسرے گروہ ’’حزب الام‘‘ پاشائوں اور جاگیرداروں کی جماعت تھی۔ یہ انگریزوں سے ڈرتی بھی تھی اور مرعوب بھی تھی۔ یہ گروہ اقتصادی، سیاسی، ثقافتی ہر لحاظ سے مصر کو مغرب کے رنگ میں رنگ دینے کی دعوت پیش کر رہے تھے۔ لارڈ کرومر اس گروہ کوجس کی قیادت لطفی سید کر رہے تھے ’’حزب شیخ عبدہ‘‘ کہا کرتا تھا۔ مصری زعماء کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے اور خصوصاً انگریزوں کو باہر نکالنے کی بات کو اہمیت نہ دیتا تھا۔ اس گروہ کو کرومر مصلحین کہہ کر پکارتا تھا اور بھرپور حمایت کرتا تھا۔ یہ گروہ کہتا تھا کہ انگریزوں کے استعمار کا سبب ہمارا جماعتی بگاڑ ہے۔ لہٰذا اگر ہم معاشرتی خرابیوں کو درست کرلیں تو بیرونی تسلط سے خود بخود نجات مل جائے گی۔ ان مجددین و مصلحین میں بھی دو گروہ تھے۔ ایک گروہ تہذیب مغربی کو جو ں کا توں اختیار کرلینے کا مدعی تھا جب کہ دوسرا گروہ اسلامی اور مشرقی روایات کو بھی اختیار کرنے پر زور دیتا تھا۔ پہلے گروہ کے علمبرداروں میں کچھ مسلمان (جنہوں نے مشنری اسکولوں میںتعلیم پائی تھی) کے علاوہ زیادہ تر شامی اور لبنانی عیسائی تھے اور یہ برطانیہ اور فرانسیسی حلقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں فکری یلغار بھی جاری رہی۔ عرب قومیت کے تصو ر اور اسلام کے سیاسی تصور کو مسخ کرنے کے لیے مختلف اوقات میں بڑی بڑی تصانیف سامنے آئیں جن میں سلاسہ موسیٰ کی کتاب ’’الیوم ولغد‘‘ آج اور کل عبدالرزاق کی کتاب ’’الاسلام و اصول الحکم‘‘، عبدالغنی ترکی کی ’’خلافت اور اقتدار امت‘‘ طٰہٰ حسن کی کتاب ’’مصر کے مستقبل کی تعلیمی راہ‘‘، ’’مستقبل فی الثقافۃ المصر‘‘ کے علاوہ قاسم امین کی ’’تحریر المراۃ‘‘ عورتوں کی آزادی اور دوسری کتاب ’’المراۃ الجدید‘‘ جدید عورت۔ طٰہٰ حسن فرانسیسی ادب اور ثقافت اور یونانی فکر سے بہت مرعوب تھے۔
مندرجہ بالا کتب میں کسی میں خلافت کی ضرورت کا انکار اور اسے غیر اسلامی اور غیرضروری بتایا گیا، کسی میں رسولؐ کو صرف پہنچانے والا بتایا، حکومت کرنے والا نہیں، کسی میں تعلیمی نظام کی بنیادمغربی فکر پر رکھنے کی سفارش کی گئی، کسی میں پردہ کو غیر فرض بتایا اور کسی میں عورت کو ہر قید سے آزادی اور معاشرے کی روایات و آداب کے خلاف بغاوت پر ابھار کر دل کھول کر مغرب کی تقلید کی دعوت دی گئی۔ ’’الیوم ولغد‘‘ میں سلاسہ موسیٰ نے صاف صاف لکھاکہ ’’ہمیں ایشیا سے قطع تعلق کرکے یورپ سے وابستہ ہوجانا چاہیے، میں زندگی بھر خفیہ بھی اور علانیہ بھی اس کے لیے سرگرم رہوں گا۔ میں مشرق کا کافر اور مغرب کا مومن ہوں‘‘۔
اس تحریک نے چار محاذ (عورت، لباس، تعلیم ، ادب اور زبان) کھول رکھے تھے۔ تہذیبی لحاظ سے مغربی بے حیائی، جام ومینا، زنا وقمار کے ساتھ فرعونی تہذیب کو جھاڑ پونچھ کر چوراہوں، تعلیم گاہوں، سرکاری عمارتوں، ریلوے پلیٹ فارموں، ڈاک ٹکٹوں پر بوالہول اور فراعنہ کی تصاویر کے ذریعے فروغ دیا گیا۔ اس کے ساتھ عورت کے میدان میں اسی تحریک کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ مسئلہ بے حجابی تک نہیں عریانی تک پہنچا دیاگیا۔ سیاسی میدان میں بھی خواتین کو شامل کرلیاگیا، جن میں صفیہ زغلول اور ہدی شعراوی خاص طور پر مشہور ہوئیں۔ انہوں نے آزادیٔ نسواں کے نام پر مصری خواتین کو حد درجہ بے غیرت بنا دیا۔ تعلیم کے میدان میں کرومر نے خاص طور پر قاہرہ میں یونیورسٹی قائم کرنے میں روڑے اٹکائے مگر ہاں ازہر کی جدید کاری میں خصوصی دلچسپی لی۔ ازہر میں جدید علوم کے ساتھ عربی اور قرآنی علوم کو پس پشت ڈال کر جاہلی ادب اور جاہلی شعراء کو ترجیح دی گئی۔ ازہر میںدینی تعلیم کے فارغین پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کردیئے گئے۔
اس کے ساتھ ہی ان مغربی طاقتوں کو جو آج اسلامی تحریکوں خصوصاً اخوان پر تشدد کاالزام لگاکر اسے تشدد پسند جماعت بتا رہی ہیں، انہی نے درحقیقت ان تحریکوں کو تاریخ کے خوفناک ترین ظلم و تشدد اور تعذیب کا نشانہ بنایا۔ اخوان اور حکومت مخالف طاقتوں کو ان نام نہاد سیکولرسٹوں، انقلابیوں اور سوشلسٹوں نے بے مثال ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا۔ حقوق انسانی کے ان ظالم نام لیوائوں نے جن کا کعبہ کبھی لندن اور پیرس تھا اور کبھی ماسکو (ناصر اور سادات کے دور میں) یا آخر میں واشنگٹن سب نے تسلسل کے ساتھ اسلام کے نام لیوائوں پر جھوٹے الزام لگاکر قیدوبند، جنسی تعذیب، پھانسیاں اور ملک بدری ہر طرح کے ظالمانہ طریقے پورے پچھلے ۸۰ سالوں سے جاری رکھے۔ ناصر کے زمانے میں اس کے وزیراعلیٰ صبری اور شکراوی جمعہ تعذیب و تشدد کے تعذیب کا یہ طریقہ رواج دیا تھا کہ جو اخوان کہنا نہ مانے اس کے گھر کی خواتین کو جیل یا تفتیشی مرکز بلاکر ان پر پولیس کے کتے چھوڑ دیئے جائیں۔ مشہور مصری عالمہ زینب الغزالی نے اس طریقے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
پی- ایس – آئی کی قاہرہ سے ۱۰ مارچ ۲۰۱۱ء کی خبر کے مطابق قاہرہ میں مظاہرین نے ’’دوزخ سیف ہاؤس‘‘ نامی ایک بدنام زمانہ ٹارچر کا مرکز دریافت کرکے اس سے ۱۴ خواتین اور ۲۵ مرد قیدیوں کو آزاد کرایا ہے۔ یہ تمام افراد گزشتہ کئی سالوں سے اس عقوبت خانے میں تشدد کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ چھڑائے گئے افراد ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں۔ گزشتہ دنوںحسنی مبارک کے دور کے خاتمے کے بعد سے ’’تحریک انقلاب ۲۵ جنوری‘‘ کے نام سے موسوم گروپ نے ملک بھر میں چھاپے مار کر بڑی تعداد میں مظلوم بے گناہ مرد اور خواتین کو رہا کرایا ہے۔ مصری جوڈیشیل کلب کے سابق صدر اور معروف وکیل ڈاکٹر زکریا عبدالعزیز نے مصری ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے قاہرہ کے دفترداخلہ کے مرکز کے تہہ خا نے میں ’’لاظوغلی‘‘ نامی ٹارچر مرکز سے قیدیوں کو رہا کرایا۔ جبکہ نومنتخب وزیر داخلہ جنرل منصور العیسوی اس کی موجودگی سے انکار کر رہے تھے۔ برطرف وزیرداخلہ میجر جنرل حبیب العادل نے اقرار کیا کہ حسنی مبارک کو تمام قید خانوں کی سرگرمیوں اور تفصیلات کا علم تھا۔ سابق وزیراعظم صفوت الشریف کو بھی علم تھا۔ جن کانام ’’دوزخ قید خانے‘‘ رکھا گیا تھا۔ ان کا ذکر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد الدردینی نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور آپ بیتی بتائی ہے کہ انہیں کس کس طرح چالیس روز تک ان تعذیب خانوں میں ٹارچر کیاگیا۔
یہ تو برفانی تودے کا صرف سرا ہے ورنہ جو کچھ مغرب کے شیطانوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے پچھلی صدی میں تمام عرب اسلامی ممالک میں شیطانی ظلم وتشدد کرایا ہے اس کی ہلکی سی مثالیں ابوغریب ، بگرام ایئر بیس ،خلیج گوانتانامو کے علاوہ متعدد یورپی اور عرب ممالک میں آج بھی جاری تشدد اور تعذیب سے ملتا ہے۔ کل مظلومین کی اہل خانہ خواتین کو بے آبرو کرکے مظلومین کو توڑا جاتا تھا اور آج قرآن پاک کے اوراق پھاڑ کر ان اوراق کو پاخانوں میں مظلوموں کے سامنے فلش کرکے توڑا جارہا ہے۔ اور یہ تمام تفصیلات ’’غیرت لابی‘‘ یا ’’سازش لابی‘‘ کے ذہنوں کی اختراع نہیں ہیں۔ یہ عدالتوں میں دیے گئے حلفیہ بیانات اور عدالتوں میں ثابت شارہ رودادیں ہیں۔ وکی لیکس نے ان کے سچ ہونے پر مہر لگا دی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، پاکستان، عراق وغیرہ میں پکڑے گئے قیدیوں سے راز اگلوانے کے لیے انہیں آج تک یہ انسانی حقوق کے مافیا دنیابھر میں موجود ٹارچر مراکز میں بھیج رہے ہیں۔ یورپ میں بھی۔
اسلامی تحاریک کو بدنام کرنے کے لیے خود ساختہ تحریکیں قائم کراکر ان سے سویلین آبادی، سیاحتی مراکز کو نشانہ بنوایا گیا۔ موساد کے سابق افسر آسٹوسکی کی کتاب ’’موسادکا فریب‘‘ میں اس نے مصر کے بارے میں بتایا ہے کہ موساد افغانستان سے صحرائے سینا کے راستے مصری تنظیموں کے ہتھیار سپلائی کرتا تھا اور بدلے میں وہ مصرمیں یورپی نشانوںکی نشاندہی کرکے ان پر حملے کراتا تھا۔ کیایہ سب آسیہ بی بی، سلمان تاثیر ، شہزاد بھٹی پر آنسو بہانے والوں کو معلوم نہیں تھا؟ دنیابھر کی سول سوسائٹی نے آج تک ان مظالم کے خلاف کتنے احتجاج کیے جو آج وہ اخوان پر تشدد کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں؟ سوشلسٹ اور ’’عظیم‘‘ سیکولرسٹ جمال عبدالناصر نے پابندیوں کے دوران اخوان کے ۲۰ ہزار کارکنوں کو بغیر مقدمہ چلائے سالہا سال ٹارچر مراکز میں رکھا۔۱۹۶۵ء کی پکڑ دھکڑ میں بیس ہزار مردوں کے ساتھ ۸۰۰ خواتین کو بھی قید میں رکھ کر شرمناک طریقے سے ٹارچر کیا گیا۔ خود ناصر نے اس بات کو ماسکو میں تسلیم کیا تھا کہ ان ہزاروں لوگوں میں سے صرف پندرہ سو پر مقدمے چلائے گئے۔ باقی سب بغیر مقدمے کے جیلوں اور حراستی تعذیبی مراکز میں رکھے گئے۔
عرب ممالک کی معاشی لوٹ کا فائدہ چاہے وہ نہرِسوئز کی آمدنی کا ٹھیکہ ہو یا وہاں کے تعمیری ٹھیکے ہوں یا پٹرول کی کھدائی اور ریفائنری کی صنعت ہو یا ہتھیاروں کی اربوں کھربوں کی سپلائی ہو یہ کہاں گئی؟ ان مغربی لٹیروں کے اربوں کھربوں ڈالر آج امریکا، لندن ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ میںہی کیوںہیں؟کل بھی وہ غریب عوام کی لوٹ میں شریک تھے اور آج بھی ان کے اربوں ڈالر ضبط کرکے ایک اور ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔
یہ بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ظلم وتشدد کے ان سوسالوں میں تحریک اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھ پائی۔ کس طرح اس نے اپنی سرگرمیوں کو مختلف رخ دے کر زندہ رکھا۔ کس طرح وہ انتہائی سفاک دشمنوں کی چالوں کے باوجود زندہ رہی اور آج بھی انسانیت کے دشمنوں کے قلب میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت انسانوں کی مرضی کا نام ہے تو ڈیوڈ کیمرون مصری آبادی کی اکثریت کی رائے کو غیر اہم بنانے والا کون ہوتا ہے؟ یہی گناہ ان منافقین نے آج سے ۲۱ سال پہلے الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کی فتح کے امکان کے وقت کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں اب تک ڈیڑھ لاکھ لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں ہمیشہ کے لیے برباد کردیے گئے ہیں۔ ظلم پسندوں کو چاہیے کہ وہ وہاں کے ظالم حکمرانوں کے ذلت آمیز انجام سے سبق لے کر ظلم اور تشدد کا راستہ چھوڑ کر عدل وانصاف کی روش اپنائیںچاہیے ورنہ مظلوم کا خون رنگ لاکر رہے گا۔ حسنی مبارک، زین العابدین بن علی کاانجام سامنے ہے۔
(بشکریہ: ’’زندگی نو‘‘ دہلی۔ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply