مصر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ منتخب حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ۸ کروڑ ۶۰ لاکھ افراد کا مستقبل ایک بار پھر داؤ پر لگ گیا ہے۔ کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اب مصر میں صرف خرابیاں پیدا ہوں گی، کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ مصری فوج نے ۲۰۱۱ء میں عوامی انقلاب کو کچلنے کی بھی بھرپور کوشش کی تھی۔ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے والوں کو طاقت سے کچلنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ فوج نے معاملات کو دوبارہ کنٹرول کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
ایک سال قبل جب محمد مرسی نے مصر کے صدر کا انتخاب جیتا تو دارالحکومت قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ان کے حق میں نعرے لگانے والوں نے فوج کے خلاف بھی نعرے لگائے۔ مگر یہ کیا؟ صرف ایک سال میں سب کچھ بدل گیا؟ محمد مرسی کے خلاف نعرے لگانے والے میدان میں نکل آئے اور انہوں نے امریکا کی سرپرستی میں کام کرنے والی فوج کے حق میں خوب نعرے لائے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیا ہوگیا کہ محض ایک سال میں لوگ محمد مرسی کے خلاف ہوگئے اور ان کی حکومت ہی ختم کرنے پر اُتر آئے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد مرسی نے چند غلط اشارے دیے۔ انہوں نے اختیارات سمیٹنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں لوگ شکوک میں مبتلا ہوگئے اور ان کا اعتبار کھو بیٹھے۔ سبھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ طاقت اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہے۔ مصر میں نیا آئین ریفرنڈم کے ذریعے نافذ کیا گیا۔ ۶۴ فیصد رائے دہندگان نے آئین کی منظوری دی تاہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ صرف ۳۳ فیصد مصریوں نے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالا۔ معیشت کی زبوں حالی نے بھی لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر اکسایا۔ معاشی مسائل کو حل کرنے میں تاخیر، توانائی کے بحران اور عالمی مالیاتی فنڈ سے قرضے کے حصول میں تاخیر نے بھی معاملات کو خراب کیا اور حکومت کے خلاف رائے عامہ مضبوط ہوئی۔
مصر کی معیشت کا ایک معقول حصہ فوج کے کنٹرول میں ہے۔ مصر کی فوج سے متعلق امور کے ماہر رابرٹ اسپرنگ بورگ نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کو بتایا: ’’مصر کی فوج کبھی نہیں چاہے گی کہ جن کاروباری اداروں کو وہ چلاتی آئی ہے، ان کا آڈٹ ہو، حساب کتاب مانگا جائے۔ یہ وہ ریڈ لائن ہے جو مصری فوج بہت مستعدی سے کھینچنا چاہے گی۔‘‘ یہ بات کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ ملک بھر میں ایندھن کا بحران تھا۔ قاہرہ میں لوگ گاڑیوں میں پیٹرول اور ڈیزل ڈلوانے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے رہا کرتے تھے۔ فوج کے ہاتھوں منتخب حکومت کا تختہ الٹے جانے کے ساتھ ہی ایندھن کی قلت ختم ہوگئی۔ اس سے یہ تاثر پروان چڑھا ہے کہ ایندھن کا بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا تھا تاکہ عوام حکومت سے بدظن ہوں اور اس کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آجائیں۔
یکم مئی ۲۰۱۳ء کو ایک باغی گروپ نے اعلان کیا کہ وہ ۳۰ جون تک ڈیڑھ کروڑ افراد کے دستخطوں کے ساتھ ایک پٹیشن پروسیکیوٹر جنرل کو پیش کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ دس لاکھ افراد کو لے کر تحریر اسکوائر پہنچے گا۔ اس گروپ نے دن رات کام کیا۔ ملک بھر میں حکومت کے خلاف دستخط جمع کرنے کی مہم چلائی گئی۔ آن لائن کلچر کا سہارا بھی لیا گیا۔ ایک ماہ بعد یہ دعویٰ کیا گیا کہ ۷۰ لاکھ دستخط حاصل کرلیے گئے ہیں۔ مگر ۲۸ جون کو امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے دعویٰ کیا کہ باغی گروپ حکومت کے خلاف اب تک ۲ کروڑ ۲۰ لاکھ دستخط جمع کرچکا ہے۔ ٹائم فریم اور چیلنجز کی روشنی میں دیکھا جائے تو محض ایک ماہ میں اِتنی بڑی تعداد میں دستخطوں کا حصول ایسا کارنامہ ہے جو، تصدیق ہو جانے کی صورت میں، گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کیا جاسکتا ہے۔
باغی گروپ نے دستخطوں کے حوالے سے جو دعویٰ کیا تھا، اس کی تصدیق کیے بغیر میڈیا آؤٹ لیٹس نے اسے آگے بڑھانا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ حکومت کے خلاف فضا تیار ہونے لگی۔ مصر کے عام باشندوں نے محسوس کیا کہ حکومت کے خلاف سبھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اخوان کی حکومت کے خلاف کوئی بھی دعویٰ کرنا اور کسی بھی حد تک سے گزرنا ناممکن نہ تھا۔ حکومت کے خلاف فضا اس طرح سازگار کی گئی کہ منتخب حکومت کو ختم کرنے کے لیے فوج نے جو کچھ کیا، اسے بھی جمہوری انقلاب قرار دیا گیا۔ واشنگٹن کو صرف اس بات سے غرض تھی کہ مصر کی فوج اس کی وفادار رہے۔ اس نے غیر معمولی فنڈز جاری کرکے مصر کے معاملات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ امریکا نے ایک طویل مدت تک اخوان المسلمون سے تعلقات برقرار رکھے۔ پھر محمد مرسی کو مسترد کیوں کردیا گیا؟
پہلا اور سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ محمد مرسی منصوبے کا حصہ نہیں تھے۔ ۲۰۰۷ء میں جب حسنی مبارک بیمار پڑے تو امریکا اور یورپ نے سوچنا شروع کیا کہ اب مصر میں کسے حکومت سونپی جائے۔ حسنی مبارک کے بعد کے مصر میں امریکا اور اسرائیل موافق پالیسیاں چاہتے تھے۔ امریکی تجزیہ نگاروں نے اس حوالے سے ممکنہ منظر نامے کی طرف اشارا کرنا شروع کردیا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۷ء میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ میں مائیکل اسٹیکمین نے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ حسنی مبارک کے بعد بھی امریکا چاہے گا کہ مصر میں ایسی حکومت آئے جو امریکی مفادات کے خلاف جانے کا سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کرے۔ ۲۰۰۸ء میں اس وقت کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے مصر کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں سے ملاقات کی تھی، جنہیں امریکی وزیر خارجہ نے آنے والے دنوں کی امید قرار دیا تھا۔ مصر کے مستقبل کی اِن امیدوں نے امریکا کے قومی سلامتی کے مشیروں اور دیگر سرکردہ شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں کا اہتمام فریڈم ہاؤس نام کے تھنک ٹینک نے کیا تھا۔ یہ تھنک ٹینک کہنے کو تو غیر سرکاری اور غیر جانبدار ہے مگر اس کی ۸۰ فیصد فنڈنگ قومی خزانے سے آتی ہے۔ سی آئی اے کا سیاسی محاذ نیشنل اینڈومنٹ فار ڈیموکریسی بھی اسی نوعیت کا ادارہ ہے جو جمہوریت کے حوالے سے تحقیق، رائے عامہ کی تشکیل، شہری تحرک، اسٹریٹجک تھنکنگ اور میڈیا کے حوالے سے گراں قدر ’’خدمات‘‘ انجام دیتا ہے۔
۲۰۱۰ء میں حسنی مبارک کی صحت مزید گرگئی۔ اس سے امریکی اداروں کو تشویش لاحق ہوئی۔ فریڈم ہاؤس نے زیادہ تندہی سے کام شروع کردیا تاکہ حسنی مبارک کے بعد مصر کی حکومت کسی ایسی شخصیت کو سونپی جائے جو ہر اعتبار سے امریکی مفادات کی نگراں اور محافظ ہو۔ امریکی تھنک ٹینکس فورڈ، سوروس اور کارنیگی اینڈومنٹ نے جوہری ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے کے سابق سربراہ محمد البرادعی کو منتخب کیا۔ انہیں سیاسی اعتبار سے بڑھاوا دینے اور آگے لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ محمد البرادعی انٹر نیشنل کرائسز گروپ کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں تھے۔ اس بورڈ میں انہیں سعودی شہزادہ ترکی الفیصل، شمون پیریز، رچرڈ آرمیٹیج، بگنیو برززنسکی کے ساتھ بیٹھنے اور ان کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔
واشنگٹن تو محمد البرادعی کو لانا چاہتا تھا۔ محمد مرسی کے انتخاب نے پوری بساط ہی الٹ دی۔ انہوں نے مختلف معاملات میں جواب طلبی کی۔ اس کے نتیجے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچنا ہی تھا۔ اب امریکا کو فکر لاحق ہوئی کہ محمد مرسی کی جگہ اپنی پسند کا بندہ کس طور لایا جائے۔ محمد مرسی نے امریکا کے لیے کئی چیلنج کھڑے کیے۔ انہوں نے یہودیوں کو بندروں کی اولاد ہی نہیں کہا بلکہ اپنے دفتر کے دروازے حماس اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے لیے بھی کھلے رکھے۔ فلسطینی رہنماؤں نے بھی محمد مرسی کے انتخاب کو درست قرار دیتے ہوئے کہا، اِس سے فلسطینی کاز کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔
امریکا اور اسرائیل کو جب اپنے منصوبے مٹی میں ملتے دکھائی دیے تو انہوں نے محمد مرسی اور ان کے رفقا کے خلاف محاذ بنانا شروع کردیا۔ سب کچھ بہت منظم طریقے اور تیزی سے ہوا۔ اور اس کے نتیجے میں محمد مرسی کو ایوانِ صدر سے نکال دیا گیا۔ امریکا اور اسرائیل کے پاس بظاہر اِس کے سِوا کوئی چارا نہ تھا۔
دریائے نیل پر ایتھوپیا کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے گریٹ رینیژاں ڈیم کی تعمیر نے بھی معاملات کو الجھادیا۔ مصری فوج کے نائب سربراہ کو کہنا پڑا کہ ان کا ملک کسی بھی ملک سے اس ڈیم کے حوالے سے متصادم ہونے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس ڈیم کے لیے فنڈنگ رک گئی تو مصر میں شور بلند ہوا۔ اب فوجی حکومت آگئی ہے تو سعودی عرب کی فنڈنگ سے اس ڈیم پر دوبارہ کام شروع کردیا جائے گا۔ یعنی پہلے مسائل پیدا کیے گئے تاکہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں۔ جب حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی تو مسائل بھی بیکار ہوگئے۔ اب ان مسائل کو حل کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ اس ڈیم کے مسئلے نے مصریوں کو مزید برہم کردیا اور وہ حکومت کے بارے میں کچھ اور سوچنے پر مجبور ہوئے۔
(“Egypt: Staging a ‘Democratic’ Military Coup”… “globalresearch.ca”. July 10, 2013)
Leave a Reply