مصر کا نیا دستور ۲۰۱۲ء|5

دفعہ۱۱۱: ہر کونسل اپنے ارکان کا استعفیٰ صرف تحریری صورت میں قبول کر ے گی۔ اگر کونسل نے کسی رکن کی رکنیت منسوخ کرنے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہوں تو اس صورت میں رکن کا استعفیٰ قبول نہیں کیا جائے۔

دفعہ۱۱۲: کسی کونسل کے رکن کی رکنیت اسی صورت میں منسوخ کی جا سکے گی، جب وہ اعتماد یا حیثیت کھو چکا ہو، یا رکنیت کی مطلوبہ شرائط میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی ہوئی ہو، یا وہ رکنیت کے فرائض کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہو۔

رکنیت کی منسوخی کا فیصلہ متعلقہ کونسل کے ارکان کی دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر ہو گا۔

دفعہ۱۱۳: اگر کسی رکن کی نشست مقررہ مدت کے خاتمے سے کم از کم چھ ماہ پہلے خالی ہوئی ہو تو اسے قانون کے مطابق اس تاریخ کے ۶۰ یوم کے اندر اندر پُر کیا جائے گا جس تاریخ کو نشست کے خالی ہونے کی پہلی اطلاع ملی ہو۔

نومنتخب رکن پرانے رکن کی مدت رکنیت کو پورا کرے گا۔

سیکشن ۲: ایوان نمائندگان

دفعہ۱۱۴: ایوان نمائندگان کم از کم ۳۵۰؍ارکان پر مشتمل ہو گا جنہیں عوام براہ راست، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منتخب کریں گے۔

پارلیمانی انتخابات کا امیدوار مصری شہریت کا حامل ہونا چاہیے، اسے شہری اور سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، بنیادی تعلیم کا تصدیق نامہ اس کے پاس ہونا چاہیے، امیدواری کے وقت اسے ۲۵ سال یا اس سے زائد عمر کا ہونا چاہیے۔

امیدواری کی دیگر شرائط، انتخاب کی اہلیت، حلقہ جات کی منصفانہ نمائندگی پر تقسیم جیسے امور قانون طے کرے گا۔

دفعہ۱۱۵: رکنیت کی مدت پانچ تقویمی (Calendar) سال ہے جو پہلے سیشن کی تاریخ سے شمار کی جائے گی۔

گزشتہ ایوان نمائندگان کی مدت ختم ہونے سے ۶۰ دن قبل نئے ایوان نمائندگان کے انتخابات کا عمل شروع کر دیا جائے گا جو اِن ۶۰ دنوں میں پورا کر لیا جائے گا۔

دفعہ۱۱۶: ایوان نمائندگان کے پاس قانون سازی کا اختیار ہو گا، وہ ریاست کی عمومی پالیسی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے سرکاری منصوبے اور ریاست کے مجموعی بجٹ کی منظوری کا ذمہ دار ہو گا۔ ایوان آئین میں طے کردہ طریقہ کار کے مطابق انتظامی مقتدرہ کے افعال پر کنٹرول رکھے گا۔

اقتصادی اور سماجی ترقی کے سرکاری منصوبے کی تیاری اور اسے ایوان نمائندگان میں پیش کرنے کا طریقہ کار قانون طے کرے گا۔

دفعہ۱۱۷: ریاست کے مجموعی بجٹ میں تمام آمدنی اور اخراجات بلا استثنیٰ درج کرنے ہوں گے۔ مجموعی بجٹ کا مسودہ نئے مالی سال کے آغاز سے کم از کم ۹۰ دن پہلے ایوان نمائندگان میں پیش کر دیا جائے گا۔ منظوری ملنے تک اسے مؤثر نہیں سمجھا جائے گا، بجٹ کے ہر باب کی منظوری کے لیے الگ الگ رائے شماری ہو گی۔

ایوان نمائندگان بجٹ کے مسودے میں اخراجات میں ردوبدل کر سکتا ہے ماسوائے ان اخراجات کے جن کی کسی مخصوص واجبات کی ادائیگی کے لیے تجویز دی گئی ہو۔ اگر ردوبدل کے نتیجے میں مجموعی اخراجات میں اضافہ ہو جائے تو ایوان نمائندگان آمدنی اور اخراجات کے مابین توازن لانے کی غرض سے محاصل کے ذرائع کے حوالے سے حکومت سے اتفاق کرے گا۔ بجٹ ایک قانون میں جاری کیا جائے گا، کسی موجودہ قانون میں اُس حد تک ردوبدل بھی اس قانون میں شامل ہو گا، جو ایسے توازن کے حصول کے لیے ضروری ہو۔

اگر نیا بجٹ نئے مالی سال سے قبل منظور نہ کیا جا سکا تو منظوری ملنے تک سابقہ بجٹ ہی مؤثر ہو گا۔

مالی سال کی تفصیلات، بجٹ کی تیاری کا طریقہ کار، اداروں، سرکاری اداروں کے بجٹ کی شرائط، اور ان کے حسابات کی تفصیل قانون طے کرے گا۔

دفعہ۱۱۸: بجٹ کی کسی مد سے رقم کی کسی اور مد میں منتقلی کے ساتھ ساتھ بجٹ میں شامل نہ کیے گئے کسی بھی خرچ، یا اپنے تخمینے سے زائد خرچ کے لیے ایوان نمائندگان کی منظوری ضروری ہو گی۔ یہ منظوری ایک قانون میں جاری کی جائے گی۔

دفعہ۱۱۹: سرکاری رقوم اکٹھا کرنے اور ان رقوم کی تقسیم کے طریقہ کار کے بنیادی ضوابط قانون طے کرے گا۔

دفعہ۱۲۰: سرکاری خزانے سے لی جانے والی تنخواہوں، پنشن، حرجانہ، ضمنی فوائد اور بونس سے متعلق ضوابط قانون طے کرے گا، اس کے ساتھ ساتھ ایسے ضوابط سے استثنیٰ کی صورتیں اور ان کے اطلاق کے ذمہ دار حکام کا تعین بھی قانون کرے گا۔

دفعہ۱۲۱: انتظامی مقتدرہ ایسے کسی قرضے کا معاہدہ نہیں کرے گی، ایسا فنڈ حاصل نہیں کرے گی، یا خود کو کسی ایسے منصوبے میں شامل نہیں کرے گی جس کے نتیجے میں ریاستی خزانے سے کسی خاص مدت تک اخراجات لیے جانے ہوں۔ ایسے اقدامات صرف اور صرف ایوان نمائندگان کی منظوری سے ہوں گے۔

دفعہ۱۲۲: مجموعی بجٹ حتمی صورت میں مالی سال کے خاتمے کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر ایوان نمائندگان میں پیش کر دیا جائے گا۔ سینٹرل آڈٹنگ آرگنائزیشن (سی اے او) کی سالانہ رپورٹ اور بجٹ کی حتمی صورت پر ’سی اے او‘ کا تبصرہ بھی اس کے ساتھ منسلک ہو گا۔

مجموعی بجٹ حتمی صورت میں رائے شماری کے لیے پیش کیا جائے گا، ہر مد (Chapter) پر الگ الگ رائے شماری ہو گی، یہ بجٹ ایک قانون کے ذریعے جاری کیا جائے گا۔

ایوان نمائندگان کو ’سی اے او‘ سے کوئی اضافی ڈیٹا یا متعلقہ رپورٹ پیش کرنے کی درخواست کا حق حاصل ہو گا۔

دفعہ۱۲۳: کسی خاص مسئلے کے حوالے سے حقائق کی تلاش کی غرض سے کسی انتظامی محکمے یا ادارے یا سرکاری ادارے کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے، یا ماضی کی کسی سرگرمی کی تحقیقات کی غرض سے ایوان نمائندگان کوئی خصوصی کمیٹی بنا سکتا ہے یا پھر موجودہ کمیٹیوں میں سے کسی کو یہ ذمہ داری تفویض کر سکتا ہے تاکہ اس حوالے سے ایوان نمائندگان کو حقیقی مالی، انتظامی یا معاشی صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں مناسب طریقہ کار ایوان نمائندگان طے کرے گا۔

مذکورہ کسی معاملے پر کمیٹی کو اپنا فریضہ انجام دینے کی خاطر شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار ہو گا، جو وہ ضروری سمجھے۔ یہ کمیٹی افراد کو انٹرویو کے لیے بھی طلب کر سکے گی۔ تمام انتظامی اور انصرامی ادارے کمیٹی کے مطالبات اور طلب کردہ تمام دستاویزات اور شواہد اس کے حوالے کرنے کے پابند ہوں گے۔

دفعہ۱۲۴: ایوان نمائندگان کے ارکان کو حق حاصل ہو گا کہ عوامی اہمیت کے کسی ہنگامی مسئلے پر معلومات حاصل کرنے کے لیے یا ان کا ہنگامی موقف معلوم کرنے کے لیے وزیر اعظم، وزیر اعظم کے نائبین، یا کسی وزیر کو درخواست کریں۔

حکومت جواب دینے کی پابند ہو گی۔

دفعہ۱۲۵: ایوان نمائندگان کے ہر رکن کو اختیار ہو گا کہ وزیر اعظم، وزیر اعظم کے نائبین، یا کسی وزیر سے ان کے دائرہ کار میں آنے والے امور سے متعلق وضاحت طلبی (Interpellation) کر سکے۔
وضاحت طلبی پر بحث درخواست جمع کرائے جانے کے کم از کم سات روز بعد کی جائے گی، ماسوائے ان صورتوں کے جن میں ایوان نمائندگان معاملے کو فوری نوعیت کا قرار دے اور حکومت بھی اس سے متفق ہو۔

دفعہ۱۲۶: ایوان نمائندگان وزیر اعظم، وزیر اعظم کے کسی نائب، یا کسی وزیر پر سے اپنا اعتماد واپس لینے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کسی وضاحت طلبی کے بعد ہی جمع کرائی جا سکتی ہے، تحریک پیش کرنے کے لیے ایوان نمائندگان کے دس فیصد ارکان کی تجویز کافی ہو گی۔ تحریک پر بحث شروع کرنے کے سات دن کے اندر ایوان نمائندگان کو فیصلے پر پہنچ جانا چاہیے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ایوان کی سادہ اکثریت کی ضرورت ہو گی۔

تمام صورتوں میں، کسی ایسے مسئلے کے حوالے سے تحریک عدم اعتماد منظور نہیں کی جا سکے گی جس پر اسی قانونی مدت میں پہلے ہی فیصلہ کیا جا چکا ہو۔

اگر رائے شماری سے قبل کابینہ نے وزیراعظم یا کسی وزیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہو، اور ایوان نمائندگان وزیراعظم یا اس وزیر پر سے اپنا اعتماد واپس لینے کا فیصلہ کرتا ہے تو کابینہ بھی اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی پابند ہو گی۔ اگر عدم اعتماد کی قرارداد حکومت کے کسی رکن سے متعلق ہو گی تو وہ رکن اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا پابند ہو گا۔

دفعہ۱۲۷: صدر جمہوریہ ایوان نمائندگان کو صرف علتی فیصلے (Causative Decision) کے ذریعے، اور عوامی ریفرنڈم کے بعد تحلیل کر سکے گا، اس کے بغیر نہیں۔

ایوان نمائندگان کو اس کے اولین سالانہ سیشن کے دوران تحلیل نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی طرح پچھلے (پیوستہ) ایوان نمائندگان کو جس بنا پر تحلیل کیا جا چکا ہو اسی بنا پر موجودہ ایوان کو تحلیل نہیں کیا جا سکے گا۔

ایوان نمائندگان کو تحلیل کرنے کے لیے صدر جمہوریہ کو پارلیمانی اجلاسوں کو معطل کرنے کا فیصلہ جاری کرنا ہو گا، اور بیس یوم کے اندر ایک ریفرنڈم کرانا ہو گا۔ اگر رائے دہندگان ایوان کی تحلیل کے حق میں اکثریتی فیصلہ دے دیں تو اس فیصلے پر عمل کرایا جائے گا۔ تب صدر جمہوریہ قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کا حکم جاری کرے گا جو ایوان کی تحلیل کے ۳۰ یوم کے اندر منعقد کیے جائیں گے۔ نیا ایوان نمائندگان انتخابات کی تکمیل کے دس دن کے اندر اجلاس منعقد کرے گا۔

اگر ریفرنڈم میں عوام کی اکثریتی رائے تحلیل کے حق میں نہ ہوئی تو صدر جمہوریہ کو استعفیٰ دینا ہو گا۔

تاہم اگر مخصوص مدت کے اندر ریفرنڈم یا انتخابات منعقد نہ ہوئے تو اس مدت کے خاتمے کے اگلے روز موجودہ پارلیمان دوبارہ اپنا اجلاس منعقد کرے گی۔

سیکشن 3: شوریٰ کونسل

دفعہ۱۲۸: شوریٰ کونسل کے کم از کم ۱۵۰؍ارکان ہوں گے جنہیں براہ راست، خفیہ رائے دہی کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ صدر جمہوریہ منتخب ارکان کی زیادہ سے زیادہ دس فیصد تعداد میں ارکان کو شوریٰ کونسل میں نامزد کر سکے گا۔

دفعہ۱۲۹: شوریٰ کونسل کا امیدوار مصری شہریت کا حامل ہونا چاہیے، اسے شہری اور سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، اعلیٰ تعلیم کا تصدیق نامہ اس کے پاس ہونا چاہیے، اور امیدواری کے وقت اس کی عمر کم از کم ۳۵ سال ہونی چاہیے۔

امیدواری کی دیگر شرائط، انتخاب کی اہلیت، حلقہ جات کی منصفانہ نمائندگی پر تقسیم جیسے امور قانون طے کرے گا۔

دفعہ۱۳۰: شوریٰ کونسل کی رکنیت کی مدت چھ سال ہے، جبکہ مجموعی تعداد کے نصف ارکان کی تجدیدِ انتخاب اور تقرر کی مدت ہر تین سال بعد ہے، اس کی تشریح قانون میں کی جائے گی۔

دفعہ۱۳۱: ایوان نمائندگان کی تحلیل کی صورت میں قانون سازی کی مشترکہ ذمہ داریاں شوریٰ کونسل انجام دے گی۔ ایوان نمائندگان کی تحلیل کے عرصے میں شوریٰ کونسل سے جو بھی بل منظور ہوں گے انہیں نئے ایوان نمائندگان میں اسی وقت غور کے لیے پیش کر دیا جائے گا جب ایوان کا اجلاس منعقد ہو گا۔

قانون سازی کے دونوں ایوانوں کی غیر موجودگی میں جب کبھی فوری اقدامات کی ضرورت پیش آئی تو صدر جمہوریہ سرکاری حکم (Decree) جاری کر سکتا ہے، اس حکم کو قانون کا درجہ ملے گا۔ بعد میں اس سرکاری حکم کو ایوان نمائندگان اور شوریٰ کونسل میں، جیسی بھی صورت ہو، اجلاسوں کے آغاز کے ۱۵؍ دن کے اندر پیش کیا جائے گا۔

اگر یہ سرکاری حکم ان کونسلوں میں پیش نہیں کیا گیا، یا وہ پیش کیے جانے کے باوجود منظور نہ کیا گیا، تو اس کی قانونی حیثیت منسوخ ہو جائے گی اور یہ منسوخی مؤثر بہ ماضی ہو گی، ماسوائے اس صورت کے کہ کونسل ماضی کے دوران میں اس کے نفاذ کو جائز قرار دے دے، یا اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے اثرات کے ازالے کا کوئی طریقہ وضع کرے۔

(ترجمہ: منصور احمد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*