مصر کا نیا دستور ۲۰۱۲ء|6

باب دوم: انتظامی مقتدرہ

سیکشن 1: صدر

دفعہ۱۳۲: صدر ریاست اور انتظامی مقتدرہ کا سربراہ ہو گا۔ وہ عوام کے مفادات کی نگہبانی، مادر وطن کی آزادی اور علاقائی خود مختاری کی حفاظت، اور اختیارات کے مابین علاحدگی کی پابندی کرے گا۔
وہ آئین میں دیے گئے طریقے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں انجام دے گا۔

دفعہ۱۳۳: صدر جمہوریہ چار تقویمی (Calendar) برس کے لیے منتخب کیا جائے گا، جس کی مدت کا آغاز اس کے پیش رو کی مدت کے آخری دن سے ہو گا۔ صدر کو دوبارہ صرف ایک اور بار (یعنی زیادہ سے زیادہ دو بار) منتخب کیا جا سکے گا۔

صدارتی مدت ختم ہونے سے کم از کم ۹۰ روز قبل صدارتی انتخاب کا عمل شروع ہو جائے گا۔ مدت ختم ہونے سے کم ازکم ۱۰؍ روز قبل نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔

مدتِ صدارت کے دوران صدر جمہوریہ کسی پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں سنبھالے گا۔

دفعہ۱۳۴: صدارتی امیدوار لازماً مصری شہری ہونا چاہیے، اس کے والدین بھی مصری ہونے چاہئیں، اس کے پاس کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہونی چاہیے، وہ شہری اور سیاسی حقوق کا حامل ہونا چاہیے، اس کی/ اس کا شریک حیات غیر مصری نہیں ہونا چاہیے، نامزدگی کے وقت اس کی عمر ۴۰ عیسوی سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔

دفعہ۱۳۵: صدر کی نامزدگی کے لیے ایوان نمائندگان اور شوریٰ کونسل کے کم ازکم ۲۰ منتخب ارکان کی طرف سے، یا کم ازکم ۱۰؍ گورنریٹ (صوبوں) میں حق رائے دہی کے حامل کم از کم ۲۰ ہزار شہریوں کی طرف سے سفارش لازم ہو گی جبکہ ہر گورنریٹ سے کم ازکم ایک ہزار سفارشی آرا موصول ہونا ضروری ہے۔

کوئی شخص ایک سے زائد امیدواروں کی توثیق نہیں کرے گا، جیسا کہ قانون اس کی وضاحت کرے گا۔

دفعہ۱۳۶: صدر جمہوریہ کا انتخاب براہ راست اور خفیہ رائے دہی سے ہو گا، ڈالے گئے ووٹوں میں سے مؤثر ووٹوں کی سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ صدر جمہوریہ کے انتخاب کا طریقہ کار قانون وضع کرے گا۔

دفعہ۱۳۷: عہدۂ صدارت پر متمکن ہونے سے پہلے صدر جمہوریہ ایوان نمائندگان اور شوریٰ کونسل کے سامنے درج ذیل حلف اٹھائے گا: ’’میں خدائے واحد کی قسم کھاتا ہوں کہ جمہوری نظام کا وفادار رہوں گا، آئین اور قانون کا احترام کروں گا، عوام کے مفادات کی مکمل نگہبانی کروں گا اور مادر وطن کی آزادی اور علاقائی خود مختاری کی حفاظت کروں گا‘‘۔

اگر ایوان نمائندگان تحلیل ہونے کے باعث موجود نہ ہو تو حلف شوریٰ کونسل کے سامنے اٹھایا جائے گا۔

دفعہ۱۳۸: صدر جمہوریہ کے مالی امور قانون طے کرے گا، صدر کوئی اور تنخواہ یا مشاہرہ وصول نہیں کرے گا، اور اپنی صدارتی مدت کے دوران بذات خود یا کسی کی وساطت سے کسی آزاد پیشے یا کاروبار سے وابستہ نہیں ہو گا، صدر کو ریاستی املاک خریدنے یا کرایے پر لینے کی اجازت نہ ہو گی، وہ اپنی جائداد یا املاک کو کلی یا جزوی طور پر ریاست کو پٹے پر نہیں دے سکے گا، نہ فروخت یا تبادلے میں حاصل کر سکے گا، وہ بطور فروخت کار (Vendor)، سپلائر یا ٹھیکے دار ریاست کے ساتھ کوئی معاہدہ بھی نہیں کر سکے گا۔

صدر عہدۂ صدرات پر متمکن ہوتے وقت، عہدہ چھوڑتے وقت اور ہر سال کے خاتمے پر اپنے مالی گوشوارے ایوان نمائندگان کو لازماً پیش کرے گا۔

اگر صدر کو عہدۂ صدرات کے حوالے سے خود یا کسی کی وساطت سے نقد رقم یا تحائف موصول ہوں گے تو یہ چیزیں ریاستی خزانے میں جمع کرا دی جائیں گی۔

مندرجہ بالا تمام دفعات کا ضابطہ قانون وضع کرے گا۔

دفعہ۱۳۹: صدر جمہوریہ وزیر اعظم کا تقرر کرے گا، وزیر اعظم تقرر کے ۳۰ دن کے اندر اپنی کابینہ تشکیل دے کر اسے ایوان نمائندگان کے سامنے پیش کرے گا۔ اگر کابینہ پارلیمان کا اعتماد حاصل نہ کر پائے تو صدر ایوان نمائندگان میں اکثریت کی حامل جماعت میں سے کسی اور کو وزیراعظم مقرر کرے گا۔ اگر اس نئے مقرر کردہ وزیراعظم کی کابینہ بھی ۳۰ دن کے اندر پارلیمان کا اعتماد حاصل نہ کر پائے تو ایوان نمائندگان خود کسی کو وزیراعظم مقرر کرے گا، جس کو صدر جمہوریہ کابینہ بنانے کی ذمہ داری سونپے گا، بشرطیکہ یہ کابینہ مذکورہ عرصے کے اندر اندر پارلیمان کا اعتماد حاصل کر لے۔ بصورت دیگر صدر جمہوریہ ایوان نمائندگان کو تحلیل کر دے گا اور ایک نئے ایوان کے لیے انتخابات کرانے کا حکم دے گا، جو تحلیل کے اعلان کے ۶۰ دن کے اندر منعقد کیے جائیں گے۔

اس دفعہ میں مقرر کیے گئے تمام عرصوں کا مجموعہ کسی بھی صورت میں ۹۰ دن سے زائد نہیں ہونا چاہیے۔

ایوان نمائندگان کی تحلیل کی صورت میں وزیر اعظم نئے ایوان نمائندگان کے پہلے اجلاس میں کابینہ اور اس کا منصوبہ پیش کرے گا۔

دفعہ۱۴۰: صدر جمہوریہ کابینہ کے ساتھ مل کر ریاست کی سرکاری پالیسی تشکیل دے گا اور آئین میں دیے گئے طریقے کے مطابق اس پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گا۔

دفعہ۱۴۱: صدر جمہوریہ اپنا صدارتی اختیار و اقتدار وزیر اعظم اور وزیر اعظم کے نائبین اور وزرا کے ذریعے استعمال کرے گا، ماسوائے ان اختیارات کے جو دفاع، قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق ہیں، اور جو آئین کی دفعات ۱۳۹، ۱۴۵، ۱۴۶، ۱۴۷، ۱۴۸ اور ۱۴۹ میں دیے گئے ہیں۔

دفعہ۱۴۲: صدر جمہوریہ قانون میں وضع کردہ طریقے کے تحت بعض صدارتی امور وزیراعظم، وزیراعظم کے نائبین، وزرا یا گورنروں کو تفویض کر سکتا ہے۔

دفعہ۱۴۳: صدر جمہوریہ اہم معاملات پر بحث کے لیے کابینہ کے اجلاس طلب کر سکتا ہے، وہ ان اجلاسوں کی صدارت کر سکتا ہے، اور سرکاری امور کے بارے میں وزیراعظم سے رپورٹوں کی درخواست کر سکتا ہے۔

دفعہ۱۴۴: صدر جمہوریہ ایوان نمائندگان اور شوریٰ کونسل کے معمول کے سالانہ اجلاسوں کے آغاز پر ان کے ایک مشترکہ اجلاس میں ریاست کی عمومی پالیسی پر ایک بیان دے گا۔

صدر جمہوریہ جب بھی مناسب سمجھے، دیگر بیانات بھی دے سکتا ہے یا کوئی مخصوص پیغام کسی بھی کونسل کو دے سکتا ہے۔

دفعہ۱۴۵: صدر جمہوریہ خارجہ تعلقات میں ریاست کی نمائندگی کرے گا اور بین الاقوامی معاہدوں کی ایوان نمائندگان اور شوریٰ کونسل سے منظوری کے بعد ان کی توثیق کرے گا۔ مقررہ طریقہ کار کے مطابق اس توثیق اور اشاعت کے بعد ان معاہدوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

امن، اتحاد، تجارت اور جہاز رانی سے متعلق کسی بھی ملکی معاہدے کی منظوری کے لیے دونوں قانون ساز اداروں کے ارکان کی دو تہائی اکثریت درکار ہو گی، اسی طرح ریاست کے حقِ خود مختاری سے متعلق تمام معاہدات یا جو معاہدے ریاستی خزانے کو ایسے کسی خرچ سے دوچار کر دیں جو اس کے مجموعی بجٹ میں شامل نہ ہو، ان تمام کی منظوری کے لیے درج بالا شرط پوری کرنا لازم ہو گا۔

آئین کی شقوں سے متصادم کسی معاہدے کو منظور نہیں کیا جائے گا۔

دفعہ۱۴۶: صدرِ جمہوریہ مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہو گا۔ صدر قومی دفاعی کونسل سے مشاورت اور ایوان نمائندگان کے ارکان کی اکثریتی منظوری کے بغیر اعلان جنگ کر سکے گا، نہ مسلح افواج کو ریاستی حدود سے باہر روانہ کر سکے گا۔

دفعہ۱۴۷: صدرِ جمہوریہ سول اور فوجی اہلکاروں کا تقرر بھی کرسکے گا اور ان کو برطرف بھی کر سکے گا، اسی طرح سفارتی نمائندوں کو مقرر بھی کر سکے گا اور برطرف بھی، نیز وہ قانونی ضوابط کے مطابق دوسرے ملکوں اور اداروں کے سیاسی نمائندوں کے تقرر کی بھی توثیق کرے گا۔

دفعہ۱۴۸: صدرِ جمہوریہ کابینہ سے مشاورت کے بعد ہنگامی حالت کا اعلان کرے گا لیکن اس انداز میں جو قانون نے وضع کیا ہے۔ ہنگامی حالت کے اعلان کو اگلے سات روز کے اندر ایوان نمائندگان میں پیش کرنا لازم ہو گا۔

اگر اعلان ایسے موقع پر کیا جائے جب ایوان نمائندگان کا اجلاس نہ ہو رہا ہو تو فوری اجلاس طلب کیا جائے گا۔ اگر ایوان نمائندگان تحلیل ہو چکا ہو تو معاملہ مذکورہ بالا مدت کے اندر شوریٰ کونسل کے پاس بھیجا جائے گا۔ ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان کے لیے دونوں اداروں کے اکثریتی ارکان کی منظوری درکار ہو گی۔ یہ اعلان مخصوص مدت کے لیے نافذ العمل ہو گا اور چھ ماہ سے زائد نافذ نہیں رہے گا۔ ہنگامی حالت کے نفاذ میں چھ ماہ کی توسیع کے لیے ریفرنڈم کے ذریعے عوام کی منظوری لی جائے گی۔

ہنگامی حالت کے عرصے کے دوران ایوان نمائندگان کو تحلیل نہیں کیا جا سکے گا۔

دفعہ۱۴۹: صدرِ جمہوریہ سزا کو معاف یا سزا میں تخفیف کر سکے گا۔

عام معافی کا اعلان صدر کی مرضی پر نہیں بلکہ صرف قانون پر منحصر ہو گا۔

دفعہ۱۵۰: صدرِ جمہوریہ ریاست کے اعلیٰ تر مفادات سے متعلق اہم امور پر ریفرنڈم کرانے کا اعلان کر سکے گا۔

ریفرنڈم کے نتائج کی پابندی تمام صورتوں میں تمام ریاستی حکام اور عام لوگوں پر لازم ہو گی۔

دفعہ۱۵۱: صدرِ جمہوریہ مستعفی ہونا چاہے تو اپنا تحریری استعفیٰ ایوان نمائندگان کو پیش کرے گا۔

دفعہ۱۵۲: صدرِ جمہوریہ کے خلاف تحریک لانے کے لیے ضروری ہے کہ صدر پر سنگین جرم یا غداری کا الزام ہو، ایسی تحریک پر ایوان نمائندگان کے کم از کم ایک تہائی ارکان کے دستخط ہونے چاہئیں۔ مواخذے کی تحریک پر ایوان نمائندگان کے کم از کم دو تہائی ارکان کے دستخط ہونے چاہئیں۔

جیسے ہی مواخذے کا فیصلہ جاری ہو، صدرِ جمہوریہ کو تمام کام روک دینا ہوں گے، مواخذے پر فیصلہ آنے تک صدر کے لیے صدارتی فرائض کی انجام دہی میں عارضی وقفہ برقرار رہے گا۔

صدرِ جمہوریہ پر ایک خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ اس عدالت کا سربراہ سپریم آئینی عدالت کا صدر، کورٹ آف کسیشن (Cassation) اور اسٹیٹ کونسل کے صدر کا طویل ترین مدت رکھنے والا نائب، اور کورٹ آف اپیل کے طویل ترین مدت والے دو صدور ہوں گے۔ اس عدالت میں استغاثہ پراسیکیوٹر جنرل پیش کریں گے۔

استغاثہ، مقدمے کی کارروائی اور سزا تمام چیزیں قانونی ضوابط کے تحت ہوں گی۔ سزایابی کی صورت میں صدر کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا، جرم کی اصل سزا بھی برقرار رہے گی۔

دفعہ۱۵۳: کسی عارضی رکاوٹ کی بنا پر صدرِ جمہوریہ اپنے صدارتی فرائض انجام دینے کے قابل نہ رہے تو وزیر اعظم اس کی جگہ کام کرے گا۔

اگر عہدہ صدرات استعفے، وفات، کام کرنے سے مستقل معذوری یا کسی اور وجہ سے خالی ہو جائے تو ایوان نمائندگان عہدہ خالی ہونے کا اعلان کرے گا اور صدارتی الیکشن کمیشن کو مطلع کرے گا۔ ایوان کا اسپیکر عارضی طور پر صدارتی اختیارات سنبھال لے گا۔

اگر ایوان نمائندگان بھی تحلیل ہو چکا ہو تو مذکورہ بالا صورتوں میں ذمہ داری شوریٰ کونسل اور اس کا اسپیکر اٹھائے گا۔

عہدہ صدارت خالی ہونے کے ۹۰ روز کے اندر نیا صدر ہر صورت میں منتخب کیا جائے گا۔

قائم مقام صدارت پر فائز شخص کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی، وہ آئین میں کسی ترمیم کی درخواست نہیں کر سکے گا، پارلیمان کو تحلیل یا کابینہ کو برطرف نہیں کر سکے گا۔

دفعہ۱۵۴: اگر صدر کا عہدہ ایسے وقت خالی ہوا ہو جب ریفرنڈم یا ایوان نمائندگان یا شوریٰ کونسل میں سے کسی ادارے کا انتخاب بھی ہو رہا ہو تو ترجیح صدارتی انتخاب کو دی جائے گی۔ موجودہ پارلیمان صدارتی انتخاب کی تکمیل تک کام کرتی رہے گی۔

سیکشن ۲: کابینہ

دفعہ۱۵۵: کابینہ وزیر اعظم، وزیر اعظم کے نائبین اور وزرا پر مشتمل ہو گی۔

وزیر اعظم کابینہ کا سربراہ ہو گا، وہ اس کے کاموں کی نگرانی، اور امور کی انجام دہی میں اس کی رہنمائی کرے گا۔

دفعہ۱۵۶: کابینہ میں بطور وزیر اعظم یا کسی اور عہدے پر مقرر ہونے والا شخص لازماً مصری شہری ہونا چاہیے، اسے شہری اور سیاسی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، عمر ۳۰ سال سے زائد ہونی چاہیے، کسی اور ملک کی شہریت اس کے پاس نہیں ہونی چاہیے اور اگر اس کے پاس کسی ملک کی شہریت رہی ہو تو لازم ہے کہ عمر اٹھارہ سال ہونے سے ایک سال پہلے، وہ اس شہریت سے دستبردار ہو چکا ہو۔

ایوان نمائندگان یا شوریٰ کونسل کی رکنیت کے ساتھ ساتھ کابینہ میں بھی کوئی عہدہ رکھنا ممنوع ہے، اگر ایوان یا کونسل کے کسی رکن کو حکومت میں شامل کیا جائے گا تو پارلیمان میں اس کی نشست خالی ہو جائے گی اور آئین کی دفعہ ۱۱۳؍ لاگو ہو گی۔

دفعہ۱۵۷: وزیراعظم اور کابینہ کے ارکان اپنے فرائض سنبھالنے سے پہلے صدرِ جمہوریہ کے سامنے یہ حلف اٹھائیں گے: ’’میں خدائے واحد کی قسم اٹھاتا ہوں کہ جمہوری نظام کا وفادار رہوں گا، آئین اور قانون کا احترام کروں گا، عوام کے مفادات کی مکمل نگہبانی کروں گا، اور مادر وطن کی آزادی اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کروں گا‘‘۔

دفعہ۱۵۸: وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان کے مالی امور قانون میں طے کیے گئے ہیں، وہ کوئی اور تنخواہ یا مشاہرہ وصول نہیں کریں گے، اپنے عہدوں کی مدت کے دوران نہ تو خود اور نہ ہی کسی کی وساطت سے کسی آزادانہ پیشے یا کاروبار میں مصروف ہوں گے، انہیں ریاستی املاک خریدنے یا کرایے پر لینے کی اجازت نہ ہو گی، وہ اپنی جائداد یا املاک کو کلی یا جزوی طور پر ریاست کو پٹے پر نہیں دے سکیں گے، نہ فروخت یا تبادلے میں حاصل کر سکیں گے، وہ بطور فروخت کار، سپلائر یا ٹھیکے دار ریاست کے ساتھ کوئی معاہدہ بھی نہیں کر سکیں گے۔

کابینہ کا ہر رکن عہدہ سنبھالتے وقت، عہدہ چھوڑتے وقت اور ہر سال کے خاتمے پر اپنے مالی گوشوارے ایوان نمائندگان کو لازماً پیش کرے گا۔

اگر ان کو عہدۂ صدرات کے حوالے سے خود یا کسی کی وساطت سے نقد رقم یا تحائف موصول ہوں گے تو یہ چیزیں ریاستی خزانے میں جمع کرا دی جائیں گی۔

مندرجہ بالا تمام دفعات کا ضابطہ قانون وضع کرے گا۔

دفعہ۱۵۹: کابینہ درج ذیل فرائض بطور خاص انجام دے گی:

۱۔ ریاست کی سرکاری پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کی نگرانی میں صدرِ جمہوریہ کے ساتھ تعاون کرے گی۔

۲۔ وزارتوں اور ان سے منسلک سرکاری اداروں اور تنظیموں کے کاموں کی رہنمائی کرے گی، ان کے ساتھ رابطہ رکھے گی اور تعمیلات کی بھی خبر (follow up) لے گی۔

۳۔ قوانین اور احکامات کا مسودہ تیار کرے گی۔

۴۔ قانون کے مطابق انتظامی فیصلے جاری کرے گی، اور ان پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی۔

۵۔ ریاست کے مجموعی بجٹ کا مسودہ تیار کرے گی۔

۶۔ ریاست کے اقتصادی و سماجی ترقی کے منصوبے کا مسودہ تیار کرے گی۔

۷۔ آئین کے تقاضوں کے مطابق معاہدے کرے گی اور قرضے فراہم کرے گی۔

۸۔ قوانین پر عمل درآمد کی نگرانی کرے گی، ریاست کی سلامتی کو برقرار رکھے گی، شہریوں کے حقوق اور ریاست کے مفادات کی نگہبانی کرے گی۔

دفعہ۱۶۰: وزرا وزارت کی عمومی پالیسی وضع کریں گے، اس پر عمل درآمد کی نگرانی کریں گے، اور ریاست کی سرکاری پالیسی کے فریم ورک میں رہنمائی اور نظم و ضبط فراہم کریں گے۔

(ترجمہ: منصور احمد)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*