مصر کے عوام نے ایک سال سے بھی زائد مدت قبل حسنی مبارک سے نجات پائی۔ یہ ایک انقلاب کا نتیجہ تھا۔ اس انقلاب سے مصریوں کو کیا ملا؟ کیا ان کے حالات بہتر ہوئے؟ کیا ان کے خوابوں کو تعبیر ملی؟ کیا انہیں اپنے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دیتی ہے؟ زیر نظر مضمون میں انہی سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔)
مصر عرب دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ ۲۵ جنوری کو ایک بار پھر قاہرہ میں لوگ تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے۔ اس بار جمع ہونے کی نوعیت مختلف تھی۔ ایک سال قبل حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور انہوں نے مستعفی ہوکر شرم الشیخ میں رہنا قبول کرلیا تھا۔ ایک سال قبل بھی لوگ جمع ہوئے تھے اور انہیں کچلنے کے لیے فوج اور پولیس کے دستے موجود تھے۔ اب کے ایسا نہیں تھا۔ فوجی تعینات نہیں کیے گئے۔ مگر جلسے کے لیے بنائے جانے والے اسٹیج پر فوج کی اتحادی اخوان المسلمون کی موجودگی سے فوج کی موجودگی لوگوں کو پوری شدت سے محسوس ہوئی۔ اس موقع پر لوگوں نے عبوری فوجی سیٹ اپ کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی مگر اخوان المسلمون کے کارکنوں نے اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ ساتھ فوج کے حق میں بھی نعرے لگائے۔ یہ نعرے کسی نئی احتجاجی تحریک کی راہ روکنے کی غرض سے تھے۔
تحریر اسکوائر سے دور طلبہ اور مزدور انجمنوں کے ارکان بنیادی مطالبات کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ مسائل برقرار ہیں۔ ان کے حل کی کوئی سبیل بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا شکوہ ہے کہ عبوری فوجی سیٹ اپ نے عوام سے جو بھی وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔ معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
عبوری حکمراں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کو بھی اندازہ ہے کہ محنت کش طبقہ اگر احتجاج پر اتر آیا تو ملک کا نظم و نسق مزید مشکل ہو جائے گا۔ حسنی مبارک کی حکومت کو ختم کرنے میں سب سے اہم کردار محنت کشوں نے ادا کیا۔ انہوں نے ملک کی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال نہ کی ہوتی، معاشی مفادات کی قربانی نہ دی ہوتی تو ملک میں کسی حقیقی تبدیلی کی راہ ہموار نہ ہوئی ہوتی۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۸ء کے دوران مصر میں ۱۹۰۰ ہڑتالیں کی گئیں جن کے نتیجے میں حکومت کی جڑیں کمزور ہوئیں۔ کئی مواقع پر حکومت نے مراعات دے کر محنت کشوں کو منانے کی کوشش بھی کی۔
حسنی مبارک کے دور میں مزدور انجمنوں کے قیام پر پابندی عائد تھی۔ ایک ادارے میں ایک سے زیادہ مزدور انجمنیں نہیں ہوسکتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ آج مصر میں مزدور انجمنوں کی صرف ایک فیڈریشن پائی جاتی ہے۔ ایجپشین ٹریڈ یونین فیڈریشن حسنی مبارک کے دور میں قائم ہوئی۔ وہ حسنی مبارک کی حامی تھی اور احتجاجی تحریک کو کچلنے کے الزام میں اس فیڈریشن کے سربراہ کو مقدمات کا سامنا تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے تحریر اسکوائر میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے اونٹ سوار، چابک بردار دستے بھجوائے تھے۔ اب یہ فیڈریشن اخوان کے ساتھ مل کر مزدوروں کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
لوگ احتجاج اور مظاہروں سے تھک گئے ہیں۔ عام آدمی کا خیال یہ ہے کہ اگر احتجاج ترک کردیا جائے اور مطالبات پر زور نہ دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ حسنی مبارک کی حکومت ختم کرنا کوئی حتمی مقصد نہ تھا۔ حسنی دور میں جو مسائل پیدا ہوئے تھے انہیں حل کرنا تحریک کا اصل مقصد تھا۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں کہ تحریک کے مقاصد کیا ہوئے؟ نگراں حکومتی سیٹ اپ نے اب تک بنیادی مسائل حل کرنے کی سمت کوئی اہم اقدام نہیں کیا۔ سب کچھ ہوچکا ہے یا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہیں۔ جون میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔ یکم جولائی کو نئے صدر کا انتخاب عمل میں آنا ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ پریشان اور بدحواس ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اب کیا ہوگا۔ بات کچھ یوں ہے کہ پارلیمان میں اسلام پسند عناصر کا تناسب ۷۰ فیصد تک ہے۔
مصر کے طول و عرض میں یہ بات پوری شدت سے محسوس کی جاسکتی ہے کہ لوگ انقلاب کے نتائج سے خوش نہیں۔ حسنی مبارک کے دور کا خاتمہ ان کے مسائل کے خاتمے میں تبدیل نہیں ہوسکا۔ احتجاج کی ہوا اب بھی چل رہی ہے۔ سول سوسائٹی کے لیے آواز بلند کرنے والے اب بھی احتجاج کا ارادہ رکھتے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں۔ ۴۸ سالہ مترجم نادیہ کا کہنا ہے کہ جو کچھ عوام نے چاہا تھا وہ نہیں ہوا۔ حسنی مبارک کے دور سے نجات پائی تو فوج کی حکومت قائم ہوگئی اور پارلیمنٹ میں اسلام پسند عناصر کی اکثریت واقع ہوئی۔ ہم سول سوسائٹی چاہتے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔
مصر کے عوام اب ذہنی تھکن محسوس کر رہے ہیں۔ ان میں مزید احتجاج کا حوصلہ نہیں رہا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ مسائل حل نہ ہونے سے ان کے دل و دماغ میں نا امیدی گھر کرتی جارہی ہے۔ غربت میں ذرا بھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ معیشت کا حال ذرا بھی نہیں بدلا۔ اب بھی ملک بھر میں غریبوں کا تناسب چالیس فیصد ہے۔ خواندگی کی شرح بھی چالیس فیصد ہے۔ ملک بھر میں نچلے طبقے کے لوگوں کا بہت برا حال ہے۔ حالات کی خرابی نے سیاحت کے شعبے کو تباہ کردیا ہے۔ سیاحت کے شعبے میں رونما ہونے والی ۷۰ فیصد گراوٹ نے معاملات کو مزید خراب کردیا ہے۔ یومیہ ۲ ڈالر پر گزارا کرنے والے گھرانے اب مزید مشکلات میں جی رہے ہیں۔
سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز نے چند ایک اقدامات کے ذریعے عوام کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے۔ ۲۴ جنوری کو فیلڈ مارشل حسین طنطاوی نے فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے دو ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی انہوں نے تیس سال سے نافذ ایمرجنسی بھی اٹھالی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ فوج اب عوام سے اپنا تعلق بہتر بنانا چاہتی ہے تاکہ مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو۔ ان اقدامات کا مقصد بظاہر یہ تاثر دینا ہے کہ حسنی مبارک کا دور اب لد گیا ہے اور لوگوں کو یقین ہو جانا چاہیے کہ حقیقی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مگر تجربہ کار سیاسی کارکنوں کی آنکھوں میں آسانی سے دھول نہیں جھونکی جاسکتی۔ وہ اب تک نومبر اور دسمبر میں احتجاج کرنے والوں پر پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کے مظالم بھولے نہیں۔ حسنی مبارک کے دور کے خاتمے کے دس ماہ بعد بھی کوئی حقیقی تبدیلی دکھائی نہیں دی اور مسائل حل ہونے کی راہ پر گامزن نہ ہوئے تو لوگ پھر احتجاج کی راہ پر گامزن ہوئے۔ انہیں یقین تھا کہ نئے سیٹ اپ میں انہیں کچلنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ مگر ان کا اندازہ غلط نکلا۔ عبوری فوجی حکومت نے انہیں کچلنے کی بھرپور کوشش کی۔
لوگ مایوس کیوں نہ ہوں؟ معیشت کی حالت اب تک بہتر نہیں کی جاسکی ہے۔ مرکز برائے معاشی و سماجی حقوق مصر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ندیم منصور کا کہنا ہے کہ ہڑتال اب بھی جاری ہیں اور احتجاج ہو رہا ہے۔ آزاد اور خود مختار مزدور انجمنیں اب مقامی سطح پر اپنے آپ کو مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ محنت کش طبقہ مجموعی طور پر مایوس نہیں اور اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ اب بھی موجود ہے۔ وہ اپنی طاقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ نوجوان بھی مزدوروں کے ساتھ ہیں۔ یہ دونوں طبقے مل کر اپنی بات بہتر طور پر منوا سکتے ہیں اور دوسروں کے مسائل حل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
عالمی بینک نے بتایا ہے کہ مصر کی ساٹھ فیصد آبادی تیس سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے اور ان میں بیروزگاری ۹۰ فیصد تک ہے۔ ایسی خطرناک صورت حال میں اپنے جذبات پر قابو رکھنا آسان کام نہیں۔ مصر کے نوجوانوں نے تحمل پسندی کا مظاہرہ کیا ہے جو ہر اعتبار سے مثالی امر ہے۔ ہشام مبارک لا سینٹر کے میڈیا ڈائریکٹر ملک مصطفٰی نے بتایا کہ عبوری فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران ربڑ کی گولی لگنے سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی مگر اس کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری اور اب بھی حقوق کے حوالے سے متحرک ہے۔
مصر کی صورت حال یہ کہہ رہی ہے کہ بہت سے مشکل دن ابھی آئیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصر میں معاملات مکمل طور پر درست ہونے کی منزل سے ابھی بہت دور ہیں۔ عوام کو شاید بہت کچھ برداشت کرنا ہوگا۔ سیاسی سطح پر کسی بھی حقیقی بڑی تبدیلی کے لیے ذہن کو تیار رکھنا اور تحمل سے کام لینا ہے۔
(کارل فنامور کا تعلق سان فرانسسکو لیبر کونسل سے ہے۔ انہوں نے مصر میں آٹھ دن گزارنے کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی۔)
(بشکریہ: ’’کاؤنٹر پنچ‘‘- ۲۷ جنوری ۲۰۱۲ء)
Leave a Reply