جزیرہ نما سینا کے بپھرے ہوئے بَدّو

جزیرہ نما سینا تاریخی اعتبار سے ایسے مقام کے طور پر مشہور ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کلام کرنے کے بعد اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مزید مہلت کی استدعا کی تھی اور آج کل یہ علاقہ سیاحتی مقام کی حیثیت سے بھی شہرت کا حامل ہے۔ اس خطے پر تصرف کے لیے مصر نے اسرائیل سے تین جنگیں لڑی ہیں۔ یہ جھگڑا فراعنہ کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔ تاریخی اور سیاحتی اعتبار سے یہ خطہ مصر کی معیشت کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ دنوں سے یہ خطہ ایک مستقل رفتار سے بد امنی کی گرفت میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف تو عوام اسمگلرز سے جان بچانے کے لیے ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جزیرہ نما سینا کے رہنے والے بَدّوؤں نے مصری حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ پولیس پناہ گزینوں پر فائر کھول رہی ہے اور دوسری طرف اسی علاقے سے اسرائیل اور اردن میں میزائل داغے جارہے ہیں۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال بگڑتی جارہی ہے۔

۲؍ اگست کو جزیرہ نما سینا سے پانچ میزائل داغے گئے جو اسرائیل کی بندر گاہ ایلات اور اردن کی بندر گاہ عقبہ کے درمیان آکر گرے۔ دونوں بندرگاہیں پاس پاس ہیں اس لیے علاقہ حساس ہے اور ہر معاملے پر نگرانی کی ضرورت ہے۔ چار میزائل تو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکارہ ہوگئے تاہم پانچویں کی زد میں آکر اردن کے ایک ہوٹل میں بیٹھا ہوا شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔ مصر کی حکومت بظاہر اس صورت حال میں بے بس دکھائی دیتی ہے۔ عسکریت پسندوں نے تین میٹر تک کی لمبی گنیں حاصل کر رکھی ہیں۔ جن کی مدد سے مصر اور اسرائیل کے درمیان ۲۵۰ کلومیٹر طویل سرحد کے کسی بھی مقام پر چند کلو میٹر کے فاصلے پر میزائل داغا جاسکتا ہے۔

۲۴ اور ۲۹ جولائی کو مصر کی پولیس نے افریقی مزدوروں پر فائرنگ کرکے ایک نہتے شخص کو ہلاک کر ڈالا۔ یہ لوگ اریٹیریا اور سوڈان سے آئے تھے اور کام یا سیاسی پناہ کی تلاش میں اسرائیل جانا چاہتے تھے۔ پناہ گزینوں کو ہلاک کرنے کی مصر کی پالیسی نے اب تک ۲۱ افراد کی جان لے لی ہے۔ اسرائیل نے غیر قانونی تارکین وطن کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے مصری فورسز پر کارروائی کے لیے دباؤ بڑھا رکھا ہے۔ مصر کی فورسز نے اس حوالے سے انسانی حقوق کے اداروں کی تنقید کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ یہ ادارے مصر پر زور دیتے رہے ہیں کہ غیر قانونی تارکین وطن سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے غیر تشدد آمیز طریقے اختیار کیے جائیں اور بہتر تو یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرکے مرکزی حکومت کے حوالے کردیا جائے۔

جزیرہ نما سینا کے علاقے سے میزائلوں کا داغا جانا اور غیر قانونی تارکین وطن کی ہلاکت اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس علاقے کے بَدّو بپھرے ہوئے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے معاملات کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل نے ۱۵ سالہ قبضہ ختم کرکے یہ علاقہ ۱۹۸۲ء میں مصر کے حوالے کیا تھا۔ بدوؤں میں شرح پیدائش بہت بلند ہے۔ شمالی جزیرہ نما سینا کے قبائل کا شکوہ ہے کہ انہیں یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مصری قوم نے جنوبی حصے میں پرفضا مقامات کو سیاحت کے فروغ کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ بدوؤں کا قدیم مشغلہ لوٹ مار ہے جو اب اسمگلنگ کی شکل میں ان کی بقاء کے لیے ناگزیر ہوچلا ہے۔ ویسے اب اس میں خطرہ بھی زیادہ ہے مگر اس کے باوجود بہت سے بدو اس راستے پر چلنے پر مجبور ہیں۔ غزہ کی اسرائیلی ناکہ بندی نے سرنگوں کے لیے اسمگلنگ کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسمگلنگ کا سامان جزیرہ نما سینا کے دشوار گزار پہاڑی راستوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ بَدّو اس سامان کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہیں جبکہ انہیں مصری پولیس کی جانب سے کارروائی کا خوف بھی لاحق رہتا ہے۔

مصر میں بدوؤں کے حوالے سے شبہات ہمیشہ توانا رہے ہیں۔ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں سیاحتی مقامات پر بم دھماکوں کے بعد مصری حکام نے تین ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور ان میں سے بہت سوں کو طویل مدت تک تفتیش اور ایذا رسانی کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ مصر میں انسداد دہشت گردی سے متعلق سخت قوانین نافذ ہیں۔ ان قوانین کے تحت تفتیش کا مرحلہ حکومت سے مزید متنفر کرنے کا باعث بنتا ہے۔ پولیس کے سخت گیر رویے کے باعث بدوؤں میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوئی ہے۔ سال رواں کے اوائل میں اس حوالے سے احتجاج کے ساتھ ساتھ ہڑتالیں بھی کی گئیں۔ بعض مقامات پر سرکاری تنصیبات کو نشانہ بھی بنایا گیا۔ اب حکومت حالات بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہے۔ قبائلی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد حکومت نے درجنوں بدوؤں کو رہا کیا ہے جس سے صورت حال بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ مختلف وزارتوں نے جزیرہ نما سینا میں ملازمتیں فراہم کرنے اور سرمایہ کاری کا دائرہ وسیع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیل نے سرحد کے ایک حصے پر باڑ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ علاقہ اب پسماندگی کی دلدل سے نکل سکے گا۔

(بشکریہ: ’’اکنامسٹ‘‘۔ ۷؍ اگست ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*