دنیا بھر میں ۸۰ کروڑ سے زائد افراد شدید افلاس کے باعث دو وقت کی روٹی کا اہتمام بھی مشکل ہی سے کر پاتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے؟ کیا افلاس انسان کا مقدر ہے؟ کیا اس لعنت کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے؟ افلاس کے باعث معاشروں میں کون کون سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں؟ ان سوالوں پر غور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ان کے جواب ملنے کی صورت میں کروڑوں افراد کی زندگی کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے اور وہ بھی سکون سے جی سکتے ہیں۔ افلاس ختم کرنے کی کوششیں دنیا بھر میں جاری ہیں مگر اس حوالے سے منظم کوششوں کا فقدان واضح ہے۔ اور پھر نیت کا فتور بھی ایسا نہیں کہ چھپایا جاسکے۔ چند خطوں کے نصیب میں تو جیسے پسماندہ رہنا ہی لکھ دیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک ان خطوں کے مفاد کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ کروڑوں انسانوں کی زندگی خوراک کی قلت نے مستقل عذاب میں تبدیل کردی ہے مگر ان کے بارے میں پورے خلوص سے سوچنے والوں کی واضح قلت ہے۔ ہر گزرتا ہوا دن ان کی مشکلات میں اضافہ ہی کر رہا ہے۔ افلاس نے ایک ایسی منحوس گردش کی شکل اختیار کرلی ہے، جس سے باہر آنا بظاہر، ایک ارب سے زائد افراد کے بس کی بات نہیں۔ افریقا، لاطینی امریکا اور جنوب مشرق ایشیا میں افلاس کا پہیہ تیزی سے گھوم رہا ہے۔
’’اینڈنگ گلوبل پاورٹی: اے گائڈ ٹو واٹ ورکز‘‘ میں اسٹیفن سی اسمتھ نے اس نکتے پر بحث کی ہے کہ افلاس دراصل ایک جال کی مانند ہے۔ جو اِس جال میں پھنس جائے، اُس کا پھنسے رہنا ممکن دکھائی دینے لگتا ہے۔ اسٹیفن سی اسمتھ نے بارہ ایسی صورت ہائے احوال کی توضیح کی ہے جن کو بہتر طور پر سمجھ پانے کی صورت میں انسان افلاس سے بہتر طور پر نپٹ سکتا ہے۔ ہم ’’اینڈنگ گلوبل پاورٹی‘‘ سے اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں تاکہ افلاس پیدا کرنے والی مختلف صورتحال ہائے احوال سے آپ بہتر طور پر روشناس ہوسکیں۔
جب ہم کسی جال کی بات کرتے ہیں تو جال بچھانے والے کے بارے میں بھی سوچنا فطری امر ہوتا ہے۔ کوئی بھی جال خود بہ خود نہیں بچھ جاتا، کوئی کسی کے لیے بچھاتا ہے تو جال بچھتا ہے۔ افلاس کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ پسماندہ ممالک اپنے طور پر، اپنے حالات کے باعث ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کی ریشہ دوانیوں کے باعث بھی افلاس کی چکّی میں پس رہے ہیں۔ روئے زمین پر ہر دور میں ایسا ہی ہوا ہے۔ علم اور فن میں ترقی نے ایسی روشن خیالی کبھی پیدا نہیں کی جس کے طفیل دنیا سے افلاس اور پس ماندگی کا حقیقی خاتمہ ممکن ہو۔
کسی بھی دوسری صورتِ حال کی طرح افلاس کو بھی شکست دی جاسکتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل تلاش نہ کیا جاسکتا ہو۔ افلاس کو ختم کرنے کے لیے اِس کے اسباب کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ دنیا میں ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کوئی مسئلہ خود بہ خود حل ہوگیا ہے۔ ہر مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اس کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ چند ممالک کی فقید المثال ترقی در اصل منصوبہ بندی اور اس پر عمل کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی ملک نے محض حالات کی بہ دولت ترقی نہیں کی بلکہ حالات سے فائدہ اٹھانے کا انعام ترقی کی صورت میں ملا ہے۔ افلاس اور پس ماندگی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کئی ممالک اپنے حالات درست کرنے پر توجہ نہیں دیتے۔ اور دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک ان کے حالات خراب کرنے میں جُتے رہتے ہیں۔ یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو دُہری دھار کے خنجر سے ذبح کیا جائے! جو ممالک افلاس کی چکّی میں پس رہے ہیں انہیں خود بھی سوچنا ہے اور دوسروں سے اخلاص کے ساتھ مدد بھی درکار ہے۔ معاملات کو بگاڑنے میں کبھی کچھ وقت نہیں لگتا۔
افلاس تمام حالات میں لعنت کی شکل اختیار نہیں کرتی۔ کسی بھی شخص، خاندان یا معاشرے میں افلاس محض عارضی حقیقت بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگ خراب صورتِ حال کو بہتر منصوبہ بندی اور جامع عمل کے ذریعے موافق حالات میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی صورت میں افلاس یقیناً ایک لعنت کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔ اگر کسی معاشرے کے خراب حالات کو درست کرنے کی مخلصانہ، شعوری کوشش نہ کی جائے تو ہر بگڑا ہوا معاملہ مزید بہت سے معاملات کو بگاڑتا چلا جاتا ہے۔ بیشتر معاشرے پس ماندگی کے چنگل میں پھنس کر بد حواس ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے معاملات میں عدم توازن کا تناسب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ افلاس کو توانا کرنے والے عوامل پر غور کیا جائے تو کوئی نہ کوئی حل در اصل خود مسئلے کی تہہ میں چھپا ہوا ملتا ہے۔ آیے، دیکھتے ہیں کہ افلاس کی طرف لے جانے والے حالات کون کون سے ہیں۔
٭ والدین اگر غیر صحت مند اور غیر ہنر مند ہوں اور گھر چلانے کے لیے مطلوب وسائل کا انتظام نہ کرسکیں تو بچوں کو بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق دنیا بھر میں اٹھارہ کروڑ سے زائد بچے والدین کی خراب صحت اور بے ہنری کے باعث کچھ نہ کچھ کمانے پر مجبور ہیں۔ ایسے بچے افلاس کے چکر سے نکلنے میں خاصی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔
٭ بہت سے والدین بچوں سے کام نہیں کرواتے مگر خیر وہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہوتے کہ انہیں اسکول بھیج سکیں۔ اسکول بھیجنے میں ناکامی دراصل خراب معاشی حالت کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے اگر قرضہ لیا جائے تو سودا بُرا نہیں۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند بچے زیادہ کماکر والدین کا قرضہ چکانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مائکرو کریڈٹ اسکیم سے افلاس زدہ گھرانوں کے بچوں کو تعلیم دلانے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ افلاس زدہ گھرانوں کو معمولی قرضوں کے حصول میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو واقعی پریشان کن بات ہے۔
٭ پسماندہ معاشروں میں افلاس زدہ گھرانوں کو روایتی طریقوں سے ایسے قرضے دیے جاتے ہیں، جن کا بھگتان نسلیں کرتی ہیں۔ دیہی اور پس ماندہ شہری علاقوں میں موزوں مالیاتی اداروں کی عدم موجودگی میں انفرادی سطح پر دیے جانے والے قرضے دراصل نسل در نسل برقرار رہتے ہیں۔ سود پر سود وصول کیا جاتا ہے اور اصل وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ افلاس زدہ گھرانے اس قدر کما نہیں پاتے کہ مکمل سود ہی بر وقت ادا کرسکیں۔ غیر ادا شدہ سود بھی اصل میں جُڑتا چلا جاتا ہے اور قرضوں کے چکّر سے نکلنا غریبوں کے لیے ممکن نہیں ہو پاتا۔
بھارت میں کروڑوں افراد مہاجن کے سود کی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ یہ بد نصیب لوگ زندگی بھر سود ادا کرتے رہتے ہیں اور قرضے پھر بھی ختم نہیں ہوتے۔ افریقا اور امریکا میں جس طرح غلاموں کو صرف زندہ رہنے کے لیے کافی سمجھے جانے والے مالی وسائل دیے جاتے تھے بالکل اسی طرح بھارت کے کروڑوں غریبوں کو بھی صرف زندہ رہنے دیا جاتا ہے تاکہ وہ مہاجن کا سود ادا کرنے کے لیے مزید کماسکیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے قرضوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے انسان جتنا زیادہ کماتے ہیں اتنا ہی زیادہ انہیں سود ادا کرنا پڑتا ہے۔ مہاجن چاہتے ہیں کہ کوئی ان کا قرضہ ادا کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکے۔ اس معاملے میں آجروں سے ساز باز کرلی جاتی ہے تاکہ افلاس زدہ گھرانے زیادہ کمانے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔ یہ ’’معاہدے کے ذریعے طے شدہ مشقت‘‘ ہی کی ایک شکل ہے۔ جو لوگ مہاجن کے سود کا طوق اپنے گلے میں ڈال چکے ہوتے ہیں ان کی اولاد بھی زندگی بھر غلام ہی رہتی ہے۔ مہاجن ایسے لوگوں کو علاقوں سے باہر بھی نہیں جانے دیتے۔ غیر سرکاری تنظیم ’’فری دی سلیوز‘‘ کے مطابق دنیا بھر میں مہاجن کے روایتی سودی قرضوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے افراد کی تعداد دو کروڑ ۷۰ لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ تقریباً غلاموں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
شدید افلاس سے دوچار اور غیر ہنر مند افراد دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کے لیے دوسروں سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور انہیں اضافی مشقت کا کوئی معاوضہ بھی نہیں مل پاتا۔ ستم یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذریعہ آمدنی تبدیل کرنے کی صورت میں ان کی آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے مگر وہ کوئی نیا ہنر سیکھنے اور ذریعہ آمدنی تبدیل کرنے کے قابل ہو ہی نہیں پاتے!
٭ قحط زدہ علاقوں میں لوگ پیٹ بھر نہیں کھا پاتے اور اس کے نتیجے میں ان کی کام کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ضرورت کے مطابق خوراک حاصل کرنے میں ناکامی صحت کی خرابی پر منتج ہوتی ہے۔ خراب موسمی حالات بھی انسان کو کمزوری کی طرف لے جاتے ہیں۔ سخت گرم اور مون سون والے خطے میں لوگ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پاتے اور یوں ان کی کام کرنے کی صلاحیت کو زنگ لگتا جاتا ہے۔ استوائی خطوں میں گرمیوں اور برسات کے دنوں میں مختلف کیڑوں مکوڑوں کے باعث وباؤں کا پھوٹ پڑنا عام ہے۔
٭ اگر کسی علاقے میں آجر ہنر مند افراد کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں تو لوگوں میں نیا ہنر سیکھنے کی لگن دم توڑتی جاتی ہے اور دوسرے سرمایہ کاروں اور آجروں کو ان علاقوں میں ملازمت کے بہتر مواقع فراہم کرنا اس لیے زیادہ پُر کشش دکھائی نہیں دیتا کہ ضرورت کے مطابق ہنر مند افرادی قوت مقامی طور پر میسر ہونے کا امکان خاصا محدود ہوتا ہے! آجر اور سرمایہ کار ان علاقوں میں اپنا کاروبار پھیلانے کو ترجیح دیتے ہیں، جن میں ہنر مند افرادی قوت آسانی سے میسر ہو۔
٭ جن علاقوں میں شرح پیدائش بلند ہو وہاں ملازمت کے مواقع گھٹتے چلے جاتے ہیں۔ افلاس کے ہاتھوں لوگ کمتر اجرت بھی قبول کرلیتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں بیشتر افراد کے پاس زیادہ بچے پیدا کرنے کے سوا آپشن نہیں ہوتا۔ اگر زیادہ بچے ہوں گے تو ملازمت پانے کے کمیاب مواقع سے بہتر طور پر مستفید ہوا جاسکے گا اور کوئی نہ کوئی بچہ، بڑا ہوکر، کسی نہ کسی طور والدین کو سکھ دے سکے گا۔
٭ بیشتر کسان گزارے کی سطح سے اس لیے بلند نہیں ہو پاتے کہ وہ دور افتادہ علاقوں کے لیے اضافی پیداوار حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اور اگر ایسا کر بھی لیں تو انہیں دور افتادہ مارکیٹ کا اندازہ نہیں ہوتا۔ درمیانے تاجر اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بیشتر پسماندہ معاشروں میں درمیانے تاجر غیر معیاری ہیں، جس کے باعث ان کی کارکردگی لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پاتی۔
٭ غریب تر دیہی علاقوں میں لوگ خوراک کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے زمینوں کو حد سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ زرعی زمین کو گنجائش سے زیادہ استعمال کرنے کی صورت میں پیداواری صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے مگر زیادہ پیداوار حاصل کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اگر کاشت کاری کے جدید طریقے ان علاقوں تک پہنچ بھی جائیں تو زرخیزی میں کمی کے باعث کسان اپنی زمینوں سے بہتر نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ قحط کی صورت میں دیہی علاقوں کے لوگ آئندہ فصل کے لیے بچائے جانے والے بیج کھاکر بھی گزارا کرتے ہیں۔
٭ تالاب، جھیلیں، جنگلات اور چرا گاہیں سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں خوراک کے حصول کے لیے ان مشترکہ املاک پر بھی دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ تالابوں، جھیلوں اور دریاؤں سے اگر مچھلی زیادہ پکڑی جائے تو ان کی تعداد اور پیداواری صلاحیت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔ جنگلات سے لکڑی حاصل کرنے کے لیے درخت کاٹنے کا سلسلہ پُرجوش انداز سے جاری رہے تو زمین کا کٹاؤ بڑھتا جاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں قدرتی ماحول کا توازن بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ چرا گاہوں سے اگر مویشیوں کو زیادہ مستفید ہونے دیا جائے تو ان کے سوکھنے اور بالآخر ویران ہو جانے کا امکان قوی تر ہو جاتا ہے۔ مشترکہ اثاثوں اور وسائل کا بہتر نظم و نسق حکومت کی ذمہ داری ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے بہتر طور پر مستفید ہوسکیں۔ آبی ذخائر کا اندھا دھند استعمال پورے ماحول کو شدید مشکلات سے دوچارکرتا ہے۔ کسی علاقے میں بڑے تالاب یا جھیل کے پانی اور اس میں پائی جانے والی مچھلیوں پر سب کا حق ہوتا ہے مگر اس حق سے مستفید ہونے کی کوئی نہ کوئی معقول حد ضرور مقرر کی جانی چاہیے۔
٭ سرمائے کی کمی بھی افلاس زدہ علاقوں کا مقدر تبدیل نہیں ہونے دیتی۔ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے آجروں کے پاس سرمایہ اس قدر کم ہوتا ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت بہتر ڈھنگ سے بلند کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
٭ اور یہ تلخ حقیقت ایذا رسانی میں سب سے بڑھ کر ہے کہ افلاس کے ہاتھوں انسان زندگی بھر نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا رہتا ہے۔ لوگ جب یہ محسوس کرلیتے ہیں کہ افلاس کے خلاف جنگ جیتنا ان کے بس کی بات نہیں تو ان کے حواس بکھرنے لگتے ہیں اور ہر معاملے میں ان کی سوچ الجھتی چلی جاتی ہے۔ کسی بھی افلاس زدہ شخص کو شناخت کرنا زیادہ مشکل کام نہیں کیونکہ وہ اپنے قول اور فعل سے اپنی مادّی، روحانی اور نفسیاتی اصلیت کا پتا دے دیتا ہے۔ شدید افلاس سے بے چارگی کا ایسا توانا احساس جنم لیتا ہے، جس سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا۔ افلاس کی شدت انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے بھی محروم کردیتی ہے۔
سود مرکب کی طرح افلاس بھی مزید افلاس کو جنم دیتا ہے اور انسان خود کو ذلت کے گڑھے میں محسوس کرتا رہتا ہے۔ بیشتر مفلس افراد اپنے آپ سے شرمسار سے رہتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ انہیں ایسے لوگوں کی جانب سے بھی طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خود بھی برے حالات کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں! کسی بھی انسان کے لیے اِس سے بڑھ کر پریشان کن اور افسوسناک کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ اہل خانہ کو مطلوب مالیاتی وسائل فراہم کرنے میں ناکامی سے دوچار رہے! جو شخص اپنی بیوی اور اولاد کو پیٹ بھر کھانا فراہم نہ کر پائے اس کی زندگی میں شدید نفسیاتی الجھنیں رہ جاتی ہیں جو ایک دوسرے کو پروان چڑھاتی رہتی ہیں۔ یہ الجھنیں ان میں بے چارگی اور غُصّے کو بھی پروان چڑھاتی چلی جاتی ہیں۔
افلاس سے مایوس کُن حد تک دوچار علاقوں میں خواتین کی حالت زیادہ قابل رحم ہوتی ہے۔ وہ شدید بے چارگی میں مبتلا رہتی ہیں۔ گھر کی چار دیواری میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور گھر سے باہر ان کے لیے بہتر معاشی مواقع کا فقدان ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں ہوتی۔ خواتین کو احترام نہ ملنے کی صورت میں خاندانی نظام تنکوں کی طرح بکھر جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں پس ماندہ دیہی علاقوں کی خواتین کی کوئی شناخت ہے نہ بہتر معاشی مواقع۔ اس کے نتیجے میں ان کی استعداد بھی متاثر ہوتی ہے اور احترام کی نظر سے نہ دیکھے جانے پر وہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے بھی دوچار رہتی ہیں۔
یہ صورتِ حال شدید ڈپریشن کا باعث بنتی ہے، جس کے نتیجے میں افلاس ایک مستقل حقیقت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہونے پر انسان مختلف نشہ آور اشیا کا عادی ہوتا جاتا ہے۔ افلاس زدہ معاشروں میں سگریٹ، چرس، بھنگ، افیم، ہیروئن، شراب اور دوسری بہت سے نشہ آور اشیا کا استعمال ڈپریشن کو ٹالنے کے لیے کیا جاتا ہے اور پھر ان اشیا کا استعمال عادات اور مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ نشہ آور اشیا کے استعمال سے انسان دماغی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہوتا جاتا ہے اور افلاس کو ایک ایسی سچائی کی حیثیت سے قبول کرلیتا ہے جسے ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
افلاس پیدا کرنے والے حالات کا بغور جائزہ لینے پر یہ حقیقت مزید اجاگر ہوتی ہے کہ مال و زر سے محرومی میں سارا قصور اُن لوگوں کا نہیں جو شدید افلاس اور محرومی کا شکار ہیں۔ عام طور پر جس صورتحال کے لیے افلاس زدہ افراد کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اُس کے معرض وجود میں آنے میں بھی ان کا کوئی کردار یا قصور نہیں ہوتا۔
(ترجمہ: ابراہیم خان)
ENDING GLOBAL POVERTY: A GUIDE TO WHAT WORKS
Leave a Reply