اگرچہ حالیہ ترک انتخابات میں طیب ایردوان کی جماعت جسٹس پارٹی (AKP) کو شکست نہیں ہوئی، لیکن اس کی چند نشستیں کم ہونے سے ہی صفِ دشمناں میں جشن کا سماں ہے۔ تنہا جسٹس پارٹی کو اب بھی اسمبلی کی تقریباً آدھی نشستیں (۵۵۰ میں سے ۲۵۸، یعنی ۴۷ فیصد) حاصل ہیں۔ اتاترک کی وارث جماعت CHP کو اس سے تقریباً آدھی (۱۳۲) نشستیں ملی ہیں۔ جبکہ ترک قوم پرست (MHP) اور کرد قوم پرست (HDP) کو صرف ۸۰، ۸۰ نشستیں ملی ہیں۔ ایردوان دشمنی میں ان تینوں، بالخصوص اتاترک پارٹی کی ذلت آمیز شکست کا ذکر کوئی بھی نہیں کررہا۔
طیب ایردوان کی آمد سے پہلے ترکی جس تباہی کا شکار تھا، اس کا ایک سبب وہاں کی کمزور مخلوط حکومتیں بھی تھیں۔ اب تک وہاں ۶۰ کے قریب مخلوط حکومتیں بن چکی ہیں۔ ان حکومتوں کی ہمیشہ دو ہی ترجیحات رہتیں، لوٹ مار اور جوڑ توڑ۔ ۲۰۰۲ء میں طیب ایردوان نے ملک کو ان دونوں لعنتوں سے نجات دلائی، جس کے بعد ترکی مسلسل ترقی کی منزلیں طے کرتا جارہا ہے۔ بس اسی قصور نے عالمی طاقتوں کو اس کا دشمن بنا دیا۔ جسٹس پارٹی کو حکومت سازی کے لیے درکار نشستوں سے محض ۱۶ نشستیں کم ملنے پر ہی انہیں اپنی خاکستر فصلیں دوبارہ ہری ہونے کے خواب دکھائی دینے لگے ہیں۔
سب سے زیادہ خوشی اسرائیلی ذمہ داران کو ہوئی ہے۔ انتخاب سے اگلے روز ۸ جون کے صہیونی اخبارات دیکھیں تو وہاں جشن کا عالم ہے۔ سابق صدر شمعون پیریز نے تو باقاعدہ کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ ’’مجھے ترک انتخابی نتائج پر انتہائی مسرت ہوئی ہے‘‘۔ بعض صہیونی اخبارات نے اسے ’’سلطان عبدالحمید سوم کا خاتمہ‘‘ قرار دیا۔ جسے یاد یا معلوم نہ ہو وہ جان لے کہ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی فلسطین پر صہیونی قبضے کی راہ میں آخری رکاوٹ تھے۔ ان سے ’’نجات‘‘ کے بعد ہی بیت المقدس پر قبضے کا صہیونی خواب پورا ہو سکا۔ طیب ایردوان کو ۱۶؍نشستیں کم ملنے پر صہیونی ذمہ داران ہی نہیں، مصر کے آمر صدر عبدالفتح السیسی ، شام کے صدر بشارالاسد سمیت سب ہی نے جشنِ فتح منایا۔ سب سے زیادہ حیرت ایرانی اخبارات پر ہوئی جنہوں نے تقریباً مشترک الفاظ میں یہ سرخیاں جمائیں کہ، ’’پایان ھوس عثمانی‘‘ (خلافت) عثمانی کی ہوس کا خاتمہ۔
طیب ایردوان کے مخالف تقریباً ہر حکمران، ہر اخبار اور ہر تجزیہ نگار نے ان کے اس اعلان کو کہ وہ ’’ملک میں پارلیمانی کے بجائے صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں‘‘ ملک میں شخصی اقتدار اور سلطانی دورِنو کا آغاز قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں صدارتی نظام کی تجویز کوئی پہلی بار پیش نہیں ہوئی۔ ملک کے آٹھویں صدر ترگت اوزال اور نویں صدر سلیمان ڈیمرل بھی صدارتی نظام لانے کی خواہش کا اظہار اور وکالت کرچکے ہیں۔ طیب ایردوان نے صرف صدارتی نظام نہیں، ملک میں وسیع تر دستوری ترامیم کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ اس کے لیے انہوں نے صدارتی یا جماعتی نہیں بلکہ پارلیمان کی ایک مشترکہ دستوری کمیٹی تشکیل دی ہے، جس میں حزبِ اختلاف کو برابر مواقع دیے گئے ہیں۔ نئی دستوری ترامیم اسی کمیٹی کے ذریعے سامنے آنا تھیں۔ ایردوان کا موقف یہ تھا کہ اب چونکہ پارلیمان کے ساتھ ساتھ صدر مملکت بھی عوام کے براہِ راست ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں، لہٰذا ایک طرف اختیارات میں توازن پیدا کرتے ہوئے دہرا نظام ختم کیا جائے اور دوسری طرف اختیارات کو نگرانی کے ایسے سخت نظام میں کسا جائے کہ آئندہ کوئی جبر و فساد کا دروازہ نہ کھول پائے۔
طیب ایردوان کوئی فرشتہ نہیں کہ غلطیاں نہ کرے۔ اس کے تعمیر کردہ نئے صدارتی محل پر اس کے بہت سے چاہنے والوں کو بھی شدید تحفظات ہیں۔ یہ پُرشکوہ قصرِ صدارت نہ بھی تعمیر ہوتا تو ان کی کارکردگی پر کوئی فرق نہ پڑتا۔ لیکن قصرِ صدارت کے جن سیکڑوں کمروں کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کے بارے میں یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وہ رقص و سرود یا عشرت و بادہ خواری کے اڈے نہیں ہیں۔ ان میں ہر شعبہ حیات سے متعلق اعلیٰ دماغوں کو جمع کیا گیا ہے۔ یہ تھنک ٹینک تعمیر و ترقی کے لیے مسلسل بحث و تحقیق اور جائزہ و تجزیہ میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سب تسلیم کرتے ہیں کہ صدارتی محل کی تعمیر کے علاوہ ملک میں چہار جانب تعمیر و ترقی کا سفر بھی اپنی پوری رفتار سے جاری ہے۔ انتخابات کے دو روز بعد جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق انفراسٹرکچر کی وسعت و ترقی کے لیے سرکاری اور نجی منصوبوں پر سرمایہ کاری کے لحاظ سے ترکی ۲۰۱۴ء میں دنیا میں دوسرے نمبر پر آیا ہے۔
ایردوان کی جماعت کو ۱۶ نشستیں کم ملنے پر اتنی دھول اڑائی جارہی ہے کہ ان انتخابات کے بہت سے اہم پہلو پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور امن و استحکام کی جانب ایک تاریخی قدم، کرد اقلیت کا پارلیمنٹ میں آجانا ہے۔ طیب ایردوان سے پہلے اس اقلیت کو اپنی پارٹی تک تشکیل دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ کرد زبان پر بھی مختلف پابندیاں عائد تھیں۔ طیب ایردوان نے مختلف ترامیم کرتے ہوئے انہیں یہ حقوق دیے۔ اسی کے نتیجے میں ۲۰۱۲ء میں کرد جماعت HDP وجود میں آسکی۔ دیکھا جائے تو کرد جماعت کا اسمبلی میں آجانا ہی ایردوان کی نشستیں کم ہونے کا بنیادی سبب بنا ہے۔ اگر یہ جماعت تشکیل نہ پاتی تو ایردوان نہ صرف حکومت سازی بلکہ دستوری ترامیم کے لیے بھی مطلوبہ ووٹ حسب سابق باآسانی حاصل کرلیتے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی تو انہوں نے صدارتی انتخابات میں ۵۲ فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ اپنی اکثریت کی قربانی دے کر طیب ایردوان کئی عشروں تک بندوق اور دھماکوں کی زبان سے بات کرنے والوں کو، مورچوں سے نکال کر پارلیمان کی چھت تلے لے آئے ہیں۔ اگرچہ اب بھی کرد مسئلے میں مزید کئی خطرات اور عالمی منصوبے چھپے ہوئے ہیں، لیکن ترکی کے لیے یہ ایک تاریخ ساز لمحہ ہے۔
اسی طرح دلچسپی رکھنے والے قارئین کو یہ بھی یاد ہوگا کہ ۱۹۹۹ء کے انتخابات میں مرحوم نجم الدین اربکان اور طیب ایردوان کی پارٹی کی ایک خاتون مروہ قاوقچی بھی رکن منتخب ہو گئی تھیں۔ لیکن جمہوریت اور حقوق نسواں کے دعوے داروں نے انہیں افتتاحی سیشن ہی میں نہیں بیٹھنے دیا۔ وہ ایوان میں آئیں تو ارکانِ اسمبلی نے کہا، ’’آج کمال اتاترک کی روح قبر میں تڑپ اٹھی ہوگی کہ ایک خاتون سر پر اسکارف سجائے سیکولر ایوان پارلیمان میں آن برا جمان ہوئی ہے‘‘۔ منتخب محترم خاتون کو حلف بھی نہیں اٹھانے دیا گیا۔ حالیہ انتخابات میں ایسی ۱۹ خواتین کامیاب ہوئی ہیں، جو اسکارف کو اپنی حقیقی شناخت قرار دیتی ہیں۔ ان انیس خواتین میں مروہ قاوقچی کی بہن روضہ قاوقچی بھی شامل ہیں۔ اسی طرح چار مسیحی اور دو ایزیدی ارکان بھی پارلیمان کا حصہ ہیں۔
حالیہ انتخابات کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ ترک نظامِ انتخاب بہت حد تک دھاندلی کے الزامات سے بچا ہوا ہے۔ ہر شہری کے لیے ووٹ ڈالنا بھی لازمی ہے، جس کے باعث ٹرن آئوٹ ۸۶ فیصد رہا۔ حالیہ انتخابات میں استنبول سے، جہاں سے بڑی آبادی ہونے کے باعث ۸۸؍ارکان اسمبلی منتخب ہوتے ہیں، کئی آزاد امیدوار بھی کھڑے تھے۔ لیکن الیکشن کمیشن نے استنبول شہر کے بیلٹ پیپرز چھاپتے ہوئے امیدواروں کے ناموں کی ترتیب خلط ملط کردی۔ نتیجتاً بڑی تعداد میں ووٹرز خلجان کا شکار ہو گئے۔ گنتی کے دوران صرف استنبول سے پانچ لاکھ ۳۷ ہزار چار سو بائیس، جی ہاں ۴۲۲،۳۷،۵ ووٹ منسوخ کردیے گئے۔ مجموعی طور پر بھی مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یعنی تیرہ لاکھ تیس ہزار سات سو ستائیس۔ لیکن صرف استنبول سے پانچ لاکھ سے زائد ووٹ مسترد ہونا، بہرحال بہت اہم ہے۔ چار آزاد امیدواروں نے صوبائی الیکشن کمیشن میں اس کے خلاف اپیل بھی کردی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ اسے بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ اب ۱۲؍روز کے اندر اندر ان اپیلوں کا فیصلہ کرنے کے بعد حتمی سرکاری نتائج کا اعلان ہوگا۔
اب یہ تو ظاہر ہے کہ آئندہ حکومت مخلوط ہوگی۔ جسٹس پارٹی کے سوا باقی تین جماعتیں مل کر حکومت بنالیتیں تو ایردوان اسے خوشدلی سے قبول کرلیتے۔ لیکن ان تینوں میں خداواسطے کا بیر ہے۔ اب یا تو ان میں سے کسی ایک (ترجیحاً MHP )کو جسٹس پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانا ہوگی، جس کے لیے وہ کڑی شرطیں رکھ رہی ہے۔ یا پھر اقلیتی حکومت کو اعتماد کا ووٹ دینا ہوگا۔ تیسرا راستہ دوبارہ انتخابات کا ہے، جس سے وقت اور سرمائے کے زیاں کے سوا شاید فوری طور پر کوئی بہت بڑا فرق نہ پڑے۔
طیب ایردوان کا خواب یہ ہے کہ ۲۰۲۳ء میں ترک جمہوریہ کے ۱۰۰ سال مکمل ہونے پر وہ ملک کو دنیا کا کامیاب ترین ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ نئے زمینی حقائق میں انہیں نئے امتحانات کا سامنا ہے۔ یقین کی حد تک امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس امتحان میں بھی سرخرو ہوں گے۔ تمام تر عالمی سازشوں اور اندرونی ریشہ دوانیوں کے باوجود ان کا خواب حقیقت بنے گا۔ صدارت، پارلیمان اور حکومت اب بھی ان کے ہاتھ میں ہے، لیکن حالیہ نتائج انہیں بھی کئی معاملات اور رویوں پر نظرثانی کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور ترک ووٹروں کو بھی۔
۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۵ء تک آق پارٹی (AKP) کا انتخابی سفر
۲۰۱۴ء میں ترکی کے صدر کے لیے پہلی بار عوام نے ووٹ دیا۔ اس سے قبل پارلیمنٹ صدر کا چنائو کرتی تھی۔
انتخاب کی تاریخ | پارٹی لیڈر | AKP کے حاصل کردہ ووٹ | حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب |
---|---|---|---|
۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء | رجب طیب ایردوان | ۲۱,۰۰۰,۱۴۳ | ۷۹ء۵۱ |
انتخاب کی تاریخ | پارٹی لیڈر | AKP کے حاصل کردہ ووٹ | حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب | AKP کے ارکانِ پارلیمان |
---|---|---|---|---|
۳ نومبر ۲۰۰۲ء | رجب طیب ایردوان | ۱۰,۷۶۳,۹۰۴ | ۲۶ء۳۴ | ۳۶۳ |
۲۲ جولائی ۲۰۰۷ء | رجب طیب ایردوان | ۱۶,۳۲۷,۲۹۱ | ۵۸ء۴۶ | ۳۴۱ |
۱۲؍جون ۲۰۱۱ء | رجب طیب ایردوان | ۲۱,۴۴۲,۲۰۶ | ۸۳ء۴۹ | ۳۲۶ |
۷ جون ۲۰۱۵ء | احمد دائود اولو | ۱۸,۸۵۱,۹۵۳ | ۸۶ء۴۰ | ۲۵۸ |
بلدیاتی اداروں کے انتخابات
انتخاب کی تاریخ | پارٹی لیڈر | AKP کے حاصل کردہ ووٹ | AKP کے حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب (فیصد) | AKP کی جیتی ہوئی میونسپلٹیز |
---|---|---|---|---|
۲۸ مارچ ۲۰۰۴ء | رجب طیب ایردوان | ۱۳,۴۴۷,۲۸۷ | ۶۷ء۴۱ | ۱۷۵۰ |
۲۹ مارچ ۲۰۰۹ء | رجب طیب ایردوان | ۱۵,۳۵۳,۵۵۳ | ۳۹ء۳۸ | ۱۴۰۴ |
۳۰ مارچ ۲۰۱۴ء | رجب طیب ایردوان | ۱۷,۸۰۲,۹۷۶ | ۸۷ء۴۲ | ۸۱۸ |
عوامی ریفرنڈم
انتخاب کی تاریخ | پارٹی لیڈر | ’ہاں‘ میں ووٹ | تناسب | ’نہیں‘ میں ووٹ | تناسب | AKP کو تائید رہی |
---|---|---|---|---|---|---|
۲۱؍اکتوبر ۲۰۰۷ء | رجب طیب ایردوان | ۱۹,۴۲۲,۷۱۴ | ۹۵ء۶۸ | ۸,۷۴۴,۹۴۷ | ۰۵ء۳۱ | ’ہاں‘ میں ووٹ |
۱۲؍ستمبر ۲۰۱۰ء | رجب طیب ایردوان | ۲۱,۷۸۹,۱۸۰ | ۸۸ء۵۷ | ۱۵,۸۵۴,۱۱۳ | ۱۲ء۴۲ | ’ہاں‘ میں ووٹ |
Leave a Reply