ایردوان کی حکومت کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد بہت سے مبصرین یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا اس بغاوت کے منصوبہ ساز حلقے کو شکست دینے کے بعد ایردوان مزید مستحکم انداز میں اپنی حکومت چلائیں گے، یا ناکام بغاوت ہی سہی مگر اس نے ان کی بنیادوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایردوان کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی حکومت کی طاقت اور اپنے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ کریں، اوراس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ یہ موقع ہاتھ سے جانے دیں گے۔
ترکی وہ ملک نہیں رہا جس نے نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی اور جو گزشتہ صدی کے اختتام تک امریکی اتحادی تھا۔وہ ایک ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست ہے جس میں سیکولر اقلیت کو ’’کمال ازم‘‘کا الاؤ روشن رکھنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہ اقلیت مغرب زدہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اقلیت زیادہ انگریزی زبان بولتی ہے تو مغربی صحافی اس اقلیت کے ساتھ نشستیں اور انٹرویو وغیرہ کر کے یہ اخذ کرتے ہیں کہ ایردوان کی آمرانہ پالیسیاں، ناقد صحافیوں اور فتح اللہ گولن کے حامیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن ترک عوام کی خواہشات کی عکاسی نہیں کرتا حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
جارج بش انتظامیہ کی اگر بات کی جائے، ۲۰۰۳ء میں جب ترک پارلیمان نے اناطولیہ سے شمالی عراق میں تعیناتی کے لیے امریکا کے فوجی دستے کواجازت دینے سے انکار کیا، جس سے امریکا کے اعلیٰ حکام نہ صرف پریشان ہوئے بلکہ انہیں حیرت بھی ہوئی کہ ترکی اب پہلے جیسا ’’اتحادی ملک‘‘ نہیں رہا۔ آج یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے۔ترکی جانے والا کوئی بھی شخص با آسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں بڑی تعداد میں خواتین حجاب استعمال کر رہی ہیں۔جمعہ پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آئمہ کے پاس اختیارات موجود ہیں، شاید سلطنت عثمانیہ کے بعد اب پہلی دفعہ ایسا ہورہا ہے۔اور یہی وہ لوگ تھے جو بغاوت کی مزاحمت کرنے والی طاقت کے روح رواں تھے۔
ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور مصر میں اخوان المسلون کی حکومت کے تختہ الٹنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مصر میں اسلامی حکومت نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں جلد بازی دکھائی۔ مصری افواج نے اسلامی حکومت کو قائم ہوتے دیکھا تو وہ برداشت نہ کرسکے اور بغاوت کر دی۔ مصریوں کی اکثریت، روایت پسند اور مذہبی قدامت پسند ہونے کے باوجود فوج کے ساتھ کھڑی تھی۔ جبکہ ترکی میں یہ عوام ہی تھے جو مساجد سے ہونے والی اپیلوں پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اس فوج کا مقابلہ کیا جو کمال کی بجھتی ہوئی سیکولر ازم کی قندیل کو بچانا چاہتی تھی۔کمال کے دور میں حجاب پر پابندی تھی اور بچے اپنے ہی دین سے نا واقفیت کے ساتھ پرورش پایا کرتے تھے۔
بغاوت کرنے والوں میں صرف نچلے درجے کے افسران نہ تھے بلکہ جنرل رینک کے افسران بھی شامل تھے، جو کہ بلاشبہ ان لوگوں کے ساتھی تھے جنہیں ایردوان نے پچھلے دس سالوں میں فوج سے نکالا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ ہزاروں سرکاری ملازمین جو فوج کے حمایت یافتہ تھے اور ایردوان کی حکومت کے خلاف تھے انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔مزید مخالفین کی’’صفائی‘‘ کی جائے گی، ایردوان نے انہیں ’’گولن کے ماننے والے‘‘ قرار دیا ہے، مگر اس سے خاص فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کے ماننے والے ہیں، چاہے وہ کمالسٹ ہوں یا گولن کے ماننے والے۔ کیونکہ کردوں کے علاوہ ترک اکثریت ایردوان کے ساتھ ہے۔
ایردوان کی کامیابی نے راہ ہموار کی ہے اور اس بات کے امکانات پیدا ہوئے ہیں کہ وہ ترکی کے آئین میں ترمیم کرسکیں تاکہ ان کا دورِ صدارت بااختیار رہے۔وہ اپنے ذاتی اختیارات پر اپنی حکومت کو چلا رہے ہیں، انہوں نے وزیراعظم احمد داؤد اولو کو اس وقت ہٹا دیا تھا جب انہوں نے صدر سے اختلاف کرنے کی کوشش کی۔ اور ان کی جگہ بن علی یلدرم کو مقر رکیا، جو کہ لچکدار شخصیت کے حامل ہیں۔ ایک آئینی ترمیم یہ سب تبدیل کر کے ایردوان کے اقتدار کو مزید قانونی طاقت فراہم کر دے گی۔
ریفرنڈم کروائے بغیر آئین کو تبدیل کرنے کے لیے ایردوان کو ۵۵۰ رکنی پالیمان میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ رواں سال مئی میں پارلیمان سے کردش جمہوری پارٹی کے ارکان کا پارلیمانی استثنیٰ ختم کرنے کا بل منظور کروا کر ایردوان کے لیے طاقتور صدارت کاحصول بہت آسان ہو گیا ہے۔
طاقتور ایردوان کا ترکی، نیٹو کے لیے پہلے سے زیادہ مشکل اتحادی ثابت ہوگا۔ ایردوان حتمی طور پر ایک عملیت پسند شخص ہیں۔ جب ۲۰۱۰ء میں اسرائیل سے تعلقات کو توڑنا ان کے حق میں تھا، تو انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب رواں سال تعلقات کو بہتر کرنا سودمند تھا تو انہوں نے تعلقات بحال بھی کر لیے۔ یہی حکمت عملی روس اوربشارالاسد کے حوالے سے بھی رہی ہے۔ اگر داعش کے خلاف نیٹو کے ساتھ تعاون ان کے حق میں ہوگا، تو وہ کریں گے ورنہ وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔
یورپ جو کہ اس وقت مشکلات کا شکار ہے،ایسے وقت میں ایردوان صحافیوں، مخالفین پر نرمی جیسے یورپی مطالبات پر مزید مزاحمت دکھائیں گے۔ اسی طرح ایردوان مزید خوداعتمادی کے ساتھ امریکا کے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کر سکیں گے جو کہ ترکی کے مفاد سے ٹکراتے ہوں۔
محمد مرسی کے برعکس، نہایت پُراعتماد اور تیزی سے مذہب کی طرف مائل ہوتے ایردوان، موجودہ ترکی کا اصل چہرہ ہیں۔ کمال کے حامی ترک اور ان کے مغربی دوستوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ سیکولرترکی کے خواب دیکھناچھوڑدیں کیونکہ اب ایسا ہوتا مستقبل میں نظر نہیں آرہا۔
(ترجمہ: عبدالرحمن کامران)
“Erdogan’s Turkey Is the Real Turkey”. (“nationalinterest.org”. July 18, 2016)
Leave a Reply