ایتھوپیا اور اریٹیریا تعلقات: حقائق کیا ہیں؟

بلاشبہ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ اریٹیریا کے صدر اسیاس افورقی نے ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم ابی احمد کا اسمرہ میں گرم جوشی سے استقبال کیا۔افریقا کے ان دو اہم رہنماؤں کی اخبارات میں چھپی تصاویر سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برسوں سے متحارب یہ دو طاقتیں اب دوستی کے ایک نئے سفر کا آغاز کر رہی ہیں۔ایک مشترکہ بیان میں بتایا گیا کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۰ء کے درمیان لڑی گئی خوں ریز جنگ، جس نے پورے افریقا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا،بالآخر اس تلخ دور کا خاتمہ ہوا۔اقوام متحدہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کے’’تمام متنازعہ امور،پابندیوں اور اختلافات کا یوں یکدم خاتمہ ہوگیا ہے جب کہ نیشنل سروس (لازمی فوجی خدمات) کا معاملہ ہنوز مبہم ہے‘‘۔اریٹیرین سرکاری حکام نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سارے اقدامات محض فوری نوعیت کے ہیں۔

ایتھوپین ایئر لائن اریٹیریا کے لیے اپنی سروس کا آغاز کر رہی ہے ساتھ ہی اریٹیریا نے بھی ایتھوپیا کو بحر احمر میں موجود اپنی بندرگاہ تک رسائی دینے کا اعلان کیا ہے۔تاہم اب بھی یہ سوال اہم ہے کہ اگر بہتر معاشی مواقع ملک میں موجود ہوں تو کیا تب بھی اریٹریا کے عوام یورپ جانے کو ترجیح دیں گے۔ایتھوپیا اور اریٹیریاکے قضیہ اور مصالحت سے زیادہ اہم سرحدوں سے متعلق تنازعات ہیں کیوں کہ اس کے یقینی اثرات مشرقی افریقا اور اس سے باہر مرتب ہوں گے۔

افریقا کا یہ خطہ صومالیہ سے لے کر جنوبی سوڈان اور جبوتی تک متنوع مسائل اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔صومالیہ میں الشباب کا خطرہ اب بھی موجود ہے،جس کا شکار قریبی پڑوسی ممالک بھی ہو سکتے ہیں۔ اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان کشیدگی سے یہ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ایتھوپیا کے سابق وزیر اعظم Meles Zenawi اور اسیاس افورقی مخالف قوتوں کی سرپرستی اور علاقائی معاملات پر مشترکہ موقف رکھنے کے بجائے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔تاہم،ایتھوپیا کی نئی حکومت نے اس جانب موثر اقدامات کیے ہیں۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ امن کی جانب بڑھنا اگرچہ اتنا آسان نہیں،لیکن تنازعات کو تصفیہ کی جانب لے کر آنا بحرحال مستحسن امر ہے۔اس عمل کو پورے خطے بلکہ بحر احمر سے باہر یمن تک پھیلنا چاہیے۔اس مصالحتی عمل کے نتیجے میں یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کا دباؤ بھی کم ہوگا۔

گذشتہ بیس برسوں میں امریکا کی تمام حکومتوں نے ایتھوپیا کے ساتھ بہتر تعلقات استوار رکھے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ بے شمار چیلنجز،تنازعات اور کشیدہ ماحول کے باوجود ایتھوپیا ایک مضبوط ریاست کے طور پر کھڑا رہا ہے۔

انسانی جانوں کی قیمت

اریٹیریا، ایتھوپیا جنگ کو حالیہ انسانی تاریخ کی بدترین جنگ تصور کیا جاتاہے۔اس دوران دونوں جانب سے ہزاروں افواج، سرحدوں پر بھاری ہتھیاروں کے ساتھ مورچہ زن رہیں۔ ۱۹۹۸ء سے دونوں طرف کی سرحد بند ہے، جس کے سبب دوطرفہ تجارت متاثر، خاندان ایک دوسرے سے دور اور رفاہی سرگرمیاں انجام دینے میں سخت مشکلات کا سامنا رہا۔ اس دوران ایتھوپیا بحری ذرائع تک رسائی سے محروم اور اریٹیریا دنیا بھر سے الگ تھلگ ہوگیا۔ ۲۰۰۰ء میں ہونے والے ’’معاہدہ الجزائر‘‘کے مطابق ایتھوپیا اور اریٹیریا کی سرحدوں کو ایک مشترکہ کمیشن (EEBC) مانیٹر کرے گا،جب کہ افریقی یونین اوراقوام متحدہ بطور ثالث اس معاہدے کا حصہ تھے۔اپریل ۲۰۰۲ء میں ((EEBC نے جو نکات پیش کیے اسے اریٹیریا نے فوری طور پر تسلیم کر لیا،لیکن ایتھوپیا نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ تاہم، بعد میں ایتھوپیا نے ان شرائط کوتسلیم کرنے میں رضامندی ظاہر کی لیکن متنازعہ علاقوں سے فوج واپس بلانے سے انکار کر دیا۔ اس معاہدے کے مطابق دونوں فریقین کو باہمی مخاصمت مکمل طور پر ختم کرنا تھی لیکن ایتھوپیا نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی بار اریٹیریا پر حملے کیے۔ اس میں ۲۰۱۲ء میں فوجی تنصیبات پر حملہ اور جون ۲۰۱۶ء میں سیرونا پر خطرناک حملہ بھی شامل ہے۔ پچھلی دور حکومت میں حکومت چھوڑنے اور ایتھوپیا کو حکومت کے خاتمے کے لیے فوجی اقدام کی دعوت بھی دی۔ معاہدے کو تسلیم نہ کرنے اور مسلسل فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود ایتھوپیا پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی جا سکی۔ جب کہ اریٹیریا، جس نے معاہدہ الجزائر کی پاسداری کی، گذشتہ نوسالوں سے پابندیوں کا شکار ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں تقریبا ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ زخمیوں اور در بدر افراد لاتعداد ہیں۔

جنگ کی اصل وجہ

اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان جنگ کوئی نئی بات نہیں،اریٹیریا نے ۳۰ سالہ جدوجہد اور مزاحمت کے بعد ایتھوپیا سے آزادی حاصل کی تھی۔دونوں جانب کی حکومت مخالف طاقتوں نے ایتھوپیا سے آمرانہ حکومت کے خاتمے کے لیے مشترکہ جدوجہد بھی کی۔۱۹۹۱ء میں امن کے بعد دونوں طرف کے باغی گروہوں نے اقتدار سنبھال لیاتھا، آپس میں معاشی وتجارتی تعلقات بھی قائم کر لیے تھے۔لیکن یہ عمل صرف ۷ سال جاری رہ سکا۔اکثرو بیشتر دونوں ملکوں میں معمولی باتوں پر الزامات اور محاذ آرائی جاری رہی۔ابھی حال ہی میں ایک چھوٹے سے سرحدی علاقے بمی کی وجہ سے جنگ کی صوتحال پیدا ہو گئی تھی۔ایتھوپیا انٹرنیشنل ٹریبونل کے سامنے بمی کے علاوہ مزید ۳۰ کلومیٹر کا دعویٰ کر رہا ہے، جس پر ۱۰۰ سال سے اتفاق رائے موجود ہے۔ اس قسم کے تنازعات، مسائل کے حل کی راہ میں حائل ہیں۔

پراکسی پلیئر

اریٹیریا اور ایتھوپیا جنگ میں ایک فریق اوربھی ہے، جس کا تعلق افریقا سے نہیں،وہ ہے عالمی برادری۔ اس عالمی برادری کی قیادت امریکا کے پاس ہے۔جسے وہ دودہائیوں سے اس خطے میں پراکسی کے طور پر استعمال کرتا رہاہے۔یہی وجہ ہے امریکا اکثر ایتھوپیا کے مفادات کی حمایت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مانیٹرنگ گروپ کی سفارش کے باوجود اریٹیریا پر سے پابندی نہیں اٹھائی گئی۔۲۰۱۱ء میں منظرعام پر آنے والی وکی لیکس کے مطابق امریکا اور ایتھوپیا کے درمیان پابندی کے حوالے سے خفیہ ڈیل بھی ہوتی رہی۔ منظر عام پر آنے والی وکی وائر کے مطابق امریکی سفارت کار نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ اریٹیریا کو سبق سکھایا جائے اور اسے تنہا کرنے کی کوشش کی جائے۔ تاکہ اسے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جاسکے۔ امریکی دباؤ کو وجہ بنا کر ہی جرمنی نے کان کنی کے شعبے میں کریڈٹ گارنٹی دینے سے انکار کردیا تھا۔امریکی سفارت کار John Boltan نے اپنی کتاب میں امریکی مؤقف کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایتھوپیا نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی، جب کہ دوسری جانب سے اس کی پابندی نہیں کی گئی۔انھوں نے امریکی کوششوں کو سبوتاژکرنے کا بھی تذکرہ کیاہے۔

امریکا اسیاس کو سب سے اہم اور موثر رہنما مانتا تھا۔ آج امریکا اریٹیریا کو افریقا کا جنوبی کوریا گردانتا ہے۔ اریٹیریا ان دو ملکوں میں سے ایک ہے، جسے ۲۰۱۴ء میں’’امریکا۔افریقا سمٹ‘‘ میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔اس تاریخی حقیقت کے باوجود اریٹیریا کے حکام امریکا سے تجارتی اور معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔

امن ابھی کیوں نہیں؟

اریٹیریا پر بے انتہا دباؤ کے باوجود جنگ کا خاتمہ اور اندرونی حالات کی تبدیلی، عالمی برادری کی کوششوں سے ممکن ہوا۔ ایتھوپیا کو افریقا کا ایک اہم اور کامیاب ملک تسلیم کیا جاتا ہے، لیکن یہ نسلی منافرت کا شکار پریشان حال ملک ہے۔ موجودہ وزیراعظم اس منتشر ملک کو یکجا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔سابقہ وزیر اعظم Meles کی پالیسیوں کی وجہ سے ایتھوپیا مذہبی اور نسلی منافرت کا شکار رہا۔حکومت کو کئی بار بگڑتے حالات کی وجہ بناکر ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔حکومت نے ہزاروں مخالف کارکنوں،صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو پابند سلاسل کیا۔ ایک ایسے انتخاب کا انعقاد کیا، جس کی شفافیت پر سوال اٹھایا گیا،لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود حکمران پارٹی انتخاب جیت گئی۔ایتھوپیا اور اریٹیریا جنگ میں سب سے زیادہ متاثر اریٹیریا ہوا۔دگرگوں حالات کی وجہ سے سرمایہ کاری اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔ وزیراعظم ابی احمد ایتھوپیا کے سب سے بڑے نسلی گروپ’’ارومو‘‘سے تعلق رکھتے ہیں۔ایتھوپیا کی خاصی بڑی فوجی طاقت ’’ٹیگرے‘‘ میں تعینات کی گئی ہے اور اکثر فوجی افسران کا تعلق ٹیگرے ہی سے ہے۔وزیراعظم نے سابقہ حکومت کے کئی اہم افراد کو معزول کردیا ہے۔تاہم ایتھوپیا میں حزب اختلاف کو ہرگز کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔موجودہ وزیراعظم کی خواہش ہے کہ امن معاہدے کے فوری ثمرات سامنے آئیں۔دونوں جانب سے کئی معاہدے اور اعلانات کیے گئے ہیں، اس میں ایتھوپین ایئرلائن کی بحالی اور اریٹیرین بندرگاہ تک ایتھوپیا کی رسائی شامل ہے۔

اریٹیریا کے صدر اسیاس جو ۱۹۹۱ء سے بر سر اقتدار ہیں، کیا واقعی امن کے خواہاں ہیں؟کیونکہ جنگ کی صورتحال ابھی مکمل طور پر ٹلی نہیں ہے۔انتخاب کا نہ ہونا اور نیشنل سروس کی موجودگی اس میں اہم ہے۔اریٹیریا کو آزادی کی ابتدا ہی سے بے شمار تنازعات اور مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ان چیلنجز کی وجہ سے اس کی سالمیت اور بقا بھی خطرے سے دوچار رہی ہے۔ ۱۹۹۷ء کے آئین کے مطابق انتخاب کا انعقاد، آزاد میڈیا، اظہار رائے کی آزادی،کثیر جماعتی نظام اور انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا تھی، لیکن ہنوز اس پر عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ اب جب کہ دونوں ملکوں کے حکمران تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں، امید ہے اریٹیریا میں بھی تبدیلی نظر آئے گی۔ حال ہی میں امریکا نے جو اریٹیریا کا سخت ناقد رہا ہے۔ایک سرکاری اعلامیہ میں امن کوششوں کو سراہتے ہوئے دونوں ملکوں کے حکمرانوں کی جرأت اور سیاسی بصیرت کی تحسین کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اس عمل سے دونوں ملکوں کے عوام خوش حالی اور سیاسی استحکام کی جانب بڑھیں گے۔

اہم تزویراتی ساحلی پٹی

اریٹیریا ۱۰۰۰ کلومیٹر ساحلی پٹی،دو بندرگاہوں اور ۳۰۰ جزائر پر مشتمل افریقا کا ایک اہم ملک ہے۔اس کا شمار دنیا کے مصروف بندر گاہوں میں کیاجاتاہے۔اگر مناسب سرمایہ کاری اور دنیا سے بہتر تعلقات قائم کیے جائیں تو اس سے خطے کی خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔امریکا کے ساتھ کئی اور عالمی کھلاڑیوں کے مفادات بھی اس عمل سے وابستہ ہیں۔ان میں چین،ترکی،کئی خلیجی ممالک،روس اور مصرشامل ہیں۔ اریٹیریا کی بندرگاہ غیر معمولی طور پر پُرکشش، سہولیات سے آراستہ اور جبوتی سے انتہائی قریب ہے۔ امریکا، فرانس، برطانیہ، جاپان، سعودی عرب اور چین کے فوجی اڈے جبوتی میں موجود ہیں۔ حالات بہتر اور معمول پر آنے سے اریٹیریا کی بندرگاہ کو اہم متبادل اور حفاظتی حصار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔متحدہ عرب امارات پہلے ہی اریٹیرین بندرگاہ ’’آساب‘‘ کو استعمال کر رہا ہے۔امریکا کی فوج سرد جنگ کے دوران اریٹیریا میں موجود تھی۔امریکی حکام کا کہنا ہے، اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اگر تعلقات معمول پر آجائیں تو امریکا اریٹیریا کی بندرگاہ کو استعمال کرسکتا ہے اور یہاں فوجی اڈے بھی قائم کر سکتاہے۔ Donald Yamamoto سینئر سفارت کار ہیں،اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر لانے کی امریکی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔اپریل میں انہیں گذشتہ بیس سالوں میں اریٹیریا کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ سطحی امریکی سفارت کار کا اعزاز حاصل ہوا۔ امریکا کی موجودہ قیادت اریٹیریا کی اہمیت تسلیم کرتی ہے اور اس کے ساتھ اعتماد پر مبنی بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امن اور امریکی حکمت عملی

اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں افریقا میں امن، امریکی حکمت عملی اور ترجیح کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا امریکا کو چاہیے کہ فوری طور پر سلامتی کونسل کے ساتھ مل کران نکات پر عمل کرے:

اریٹیریا پر سے فوری طور پر پابندیوں کا خاتمہ۔

ایتھوپیا کو بطور’’پراکسی‘‘استعمال کرنے والی پالیسی پر نظرثانی کرے اور متوازن تعلقات قائم کرے۔

ایتھوپیا کے نئے وزیر اعظم کے ساتھ تعاون تاکہ وہ موجودہ چیلنجز پر قابو پا سکیں۔

معاشی ترقی اور سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی تاکہ امن کے ثمرات کو حاصل کیا سکے۔

اور سب سے اہم یہ کہ امریکا اریٹیریا کی تزویراتی اہمیت کو پہچانے اور اپنے پرانے بیانیے کو تبدیل کرے۔

(زیر نظر تبصرہ و تجزیہ CSIS Center for Strategic & International Studies, کے خصوصی مشن برائے اسمرہ کا حصہ ہے۔ اسے اریٹیریا کے اہم اور نمایاں سفارت کاروں اور سرکاری حکام سے درجن بھر انٹرویو کے بعد مرتب کیا گیا ہے)

(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)

“Eritrea-Ethiopia peace: Seismic shifts through- out a strategic zone”. (“csis.org”. July 25, 2018)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*