انتہا پسندی [شدت پسندی] (Extremism) جدید سیاسی مباحث کی اہم اصطلاح اور عام استعمال کی میڈیا ترکیب ہے۔ سیاسی علوم میں اس کی حتمی تعریف متعین کرنے کی کوشش ایک کارِ جاریہ ہے۔ سماجی، سیاسی اور تاریخی علوم اور ریاستی طاقت سے گہرے تلازمات کی وجہ سے یہ جدید قانون اور قانون سازی کا بھی اہم موضوع ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یہ ترکیب بہت ہی مؤثر پروپیگنڈا ’’ٹول‘‘ کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اسے عام طور پر ریاست اور سماج دشمن عناصر کے خلاف حسبِ ضرورت برتا جاتا ہے۔ بالعموم یہ اصطلاح مکمل طور پر منفی معنی میں مستعمل ہے، اور اس کا مقصد مخاطب کو مکالمے کے بغیر delegitmize کر کے قوت سے ختم کرنا ہوتا ہے۔ ہم عصر سماجی و سیاسی علوم، میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس ترکیب اور اصطلاح کے کثرتِ استعمال کا بڑا سبب یہ علمی تھیوری ہے کہ انتہا پسندی، دہشت گردی کا گہوارہ ہے، اور انتہا پسندی کے بروقت خاتمے سے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جدید دہشت گردی کا منشا (origin) متفقہ طور پر انقلابِ فرانس کے معاً بعد جیکوبن سیکولرسٹوں کا اقتدار پر قبضہ اور ان کی طرف سے بپا کیا جانے والا Reign of Terror ہے۔ عموماً جیکوبن سیکولرسٹوں کے انتہا پسندانہ سیاسی خیالات کو ان کی ہولناک دہشت گردی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی سے آنولی تعلق کی وجہ سے انتہا پسندی کو بجا طور پر قابل مذمت سمجھا گیا ہے۔
انتہا پسندی اور دہشت گردی کی وجودیات nihilism (نابودیت) ہے، جس نے اقدار کے رد اور انکارِ مذہب کے بعد مغربی تہذیب کے قلبِ ظلمات میں قرار پکڑا اور جو مختلف سیاسی، ادبی اور فنی تحریکوں میں ظاہر ہوا ہے۔ مغربی تہذیب کے بطون میں معنی، امید اور جمال کی موت نے انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ظہور پایا۔ استعمار، نسل کشی، نراجیت، فسطائیت، Theater of the Absurd, Eugenics فطرت کی غارت، اور پوسٹ ماڈرن کنڈیشن اسی نابودیت کے مختلف مظاہر ہیں۔ نابودیت آتشک اور سوزاک کی جسمانی بیماریوں کی طرح خاص مغربی تہذیب کا روحانی مرض ہے اور مزمن ہے۔ استعماری دور سے لے کر آج تک انتہا پسندی اور دہشت گردی مغرب کی فوجی مہم جوئی اور خارجہ پالیسی کا جزو لاینفک رہی ہیں۔
انتہا پسندی کی علمی اور صحافتی گفتگو میں جس پہلو کو بآسانی صرفِ نظر کیا جاتا ہے، اور جس پر سوال اٹھانا عموماً مشکل ہے، وہ ان تصورات کا اضافتی (relativistic) پس منظر ہے اور مجھے اس وقت اسی میں دلچسپی ہے۔ اضافت پرستی اقدار کے انکار اور نابودیت ہی کی ایک شکل ہے۔ مغربی تہذیب کا پیدا کردہ یہ اضافتی پس منظر فکر میں پختہ اور عمل میں طرزِ حیات بن کر عالمگیر ہو چکا ہے۔ ناچیز کی رائے میں انتہا پسندی کے پورے ڈسکورس کی بنیادی معنویت صرف اور صرف اسی پس منظر میں درست طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ ثقافت کی اضافتی صورت حال میں اقدار کے حتمی ہونے کا خیال مر چکا ہے۔ روشن خیالی، ترقی پسندی اور اعتدال پسندی کے تصورات اقدار کے اضافی ہونے کے ماحول ہی میں سامنے آتے ہیں، جہاں اقدار کے حتمی ہونے کا خیال انتہا پسندی ہے۔ آج کے دور میں انتہا پسندی کا اصل مطلب (۱) کسی قدر کو حتمی تصور کرنا اور اس کے عملی ہونے پر اصرار کرنا؛ (۲) حق و باطل کے مذہبی تصور کو درست ماننا اور اسے جدید علم، طاقت اور سرمائے تک توسیع دینے کا عندیہ دینا؛ (۳) تاریخ کو مذہبی تناظر میں دیکھنے کا موقف رکھنا؛ اور (۴) علمی اظہار کو ثقافتی حالات کی بجائے اقدار سے منسلک رکھنے کی کوشش کرنا۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ڈسکورس اور پالیسی مغربی تاریخ میں اضافت پرستی کے ہم قدم ثمرآور ہوئی ہے۔
ہمارے دین کی اخلاقی اقدار کا براہ راست تعلق خونی رشتوں، حقِ ہمسائیگی اور مہمان داری سے ہے۔ اور جدید مغربی معاشرت سے ان تینوں پہلوؤں کا بالفعل خاتمہ ہو چکا ہے۔ قطار بنانا، ٹریفک کی پابندی کرنا اور معاشرت میں بے پایاں courtesy کا عادت ثانیہ اور ظاہری رویہ بن جانا وغیرہ اور تنظیمی اخلاقیات کے متاثرکن مظاہر ہیں۔ تنظیمی اخلاقیات اپنے آخری تجزیے میں قانونی ہے، طاقت کے تابع ہے اور جدید ریاست اور کارپوریشن کی ہمہ گیر surveillance کے شاہکار حاصلات میں سے ہے۔ تنظیمی اخلاقیات کا کسی بھی متصورہ انسانی یا مذہبی قدر سے کوئی تعلق نہیں۔ قدر کی موت کے معاشرے میں کسی حتمی قدر کا اونچی آواز میں ذکر کرنا انتہا پسندی ہے۔ اظہار خیال خود بلاسوال ایک تنظیمی قدر ہے، اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے (نعوذ باللہ) کارٹون بنانا اس کا اعلی ترین مظہر، اور ایک ایسا مظہر جس کے پیچھے ساری مغربی تہذیب اپنی پوری قوت سے کھڑی ہے۔ اس پر احتجاج کرنا انتہا پسندی ہے، اور لبرل معاشرے پر قدغن لگانا ہے۔ دو گز کپڑے کا حجاب کے طور پر دفاع کرنا انتہا پسندی ہے۔ سود کے خلاف بات کرنا سرمایہ داری نظام کے لیے خطرہ اور انتہا پسندی ہے۔ استعمار پوری قوت سے مسلم ممالک کو پیس ڈالے تو آزادی اور جمہوریت کی خدمت ہے، لیکن انسانی آزادی کے نام پر اس کی مزاحمت کرنا انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے۔ اگر کشمیری اور فلسطینی اپنی زمین اور حقوق کی بات کریں تو انتہا پسندی ہے۔ مذہب کے مطلوبہ معیار پر خود کو مسلمان کہنا انتہا پسندی ہے کیونکہ مذہبی کہلانے کی جدید شرائط کے ہوتے ہوئے یہ عمل پسندیدہ اور قابل قبول نہیں ہے۔ مغرب اپنے پورے سیاسی اور استعماری عمل میں اعتدال پسندی اور روشن خیالی کی علامت ہے اور اس پر کوئی سوال اٹھانا بدذوقی اور انتہا پسندی ہے۔ مغرب اگر تحصیل کا موضوع ہو تو اعتدال پسندی اور ترقی پسندی ہے، اگر اس سے کوئی تفہیم وابستہ کی جائے تو انتہا پسندی ہے۔
انتہا پسندی کے پورے مباحث کی نوعیت ازحد دلچسپ ہو جاتی ہے جب اسے حق و باطل کے تناظر میں زیر بحث لایا جائے۔ مغرب کی اضافتی فضا اور کلچر کی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن میں یہ تناظر قابلِ سماعت بھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان کہلانے میں مسلمان کا واحد حاملِ حق ہونا اور اسلام کا واحد حق اور معیار حق ہونا شامل ہے یا نہیں؟ اور اگر ہے تو یہ جدید مباحث میں بدترین درجے کی انتہا پسندی خیال کی جاتی ہے۔ جدید بحثوں میں ہر فرد کا حامل حق ہونا مغربی عطائے حقوق میں بہت بڑی کامیابی شمار کیا جاتا ہے۔ اسلام کو واحد حق اور معیارِ حق ماننا ایمان کی بنیادی شرائط میں سے ہے، اور آج کی زبان میں انتہا پسندی عین اسی کا نام ہے۔ عین یہی وہ سوال ہے جس سے ہم اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ آپ ’’مہذب‘‘ اور ’’روشن خیال‘‘ حلقے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق اور ابوجہل کو باطل کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی جسارت کریں تو یہ جاہلانہ انتہا پسندی قرار پائے گی۔ متجددین نے صدیوں کی محنت اور فکری انجنئرنگ سے اسلام کو امن کا مذہب ’’ثابت‘‘ کر دیا ہے اور آپ آزادی اظہار کے جھانسے میں آ کر اس سے اختلاف کریں تو یہ کٹھ حجتی، جہالت اور انتہا پسندی ہے۔ ہاں اگر آپ کسی برنارڈ لیوس سے سیمینار کروا کے اسلامی تعلیمات کو ’’درست‘‘ طور پر سمجھ لیں تو یہ ضرور اعتدال پسندی اور روشن خیالی ہے۔
مسئلہ یہ ہے آج کی دنیا میں کوئی بھی موقف شعور کی سرگرمی نہیں رہا، رائے عامہ کی نگہداری میں شامل ہو گیا ہے۔ رائے عامہ انسانی شعور میں گردشِ خون کی طرح متحرک رہتی ہے۔ معمولی سمجھ بوجھ والا بھی جانتا ہے کہ کس موقف کا کیا رد عمل ہو گا۔ آج کی رائے عامہ میں فرقہ وارانہ مذہبی موقف، انتہا پسندانہ سیاسی موقف، متعصب نسلی موقف، منافرت پرست لسانی موقف، مذہب دشمن الحادی موقف وغیرہ کے پالتو اظہارات پر کوئی پابندی نہیں ہوتی کیونکہ رائے عامہ اور سیاسی مفاد کی حرکیات ان کی عدم موجودگی میں سامنے نہیں آ سکتی۔ ایسے انتہائی مواقف کے اظہار اور ان کی تعدیل کے جھانسے میں ہی ’’اعتدال پسند‘‘، ’’روشن خیال‘‘ اور ’’ترقی پسند‘‘ رائے عامہ اور مین اسٹریم میڈیا تشکیل پاتا ہے۔ لیکن ہر ایسا موقف جو کسی مذہبی قدر پر مبنی ہو، رائے عامہ کا ایندھن بھی نہ بن سکتا ہو، اور سیاسی مفاد کے لیے بھی غیراہم ہو، ’’رجعت پسندانہ‘‘ اور ’’ری ایشکنری‘‘ قرار پاتا ہے اور میڈیا سے فراموش گاری میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اسی باعث جدید رائے عامہ میں اعلیٰ لسانی، فکری اور تہذیبی معیارات پر بھی مذہبی ’’موقف‘‘ کا اظہار ممکن نہیں ہوتا، کیونکہ مذہب خود کو میڈیائی ضروریات پر ڈھالنے میں مجبور ہوتا ہے۔ اور ہر ایسی تحریر یا تقریر خود اعلی ترین معیار قرار پاتی ہے جو کسی ’’دو ٹوک مذہبی موقف‘‘ کو مسترد کرتی یا کھدیڑتی ہوئی معلوم ہو۔ رائے عامہ کی ثقافتی اور مفادی شرائط پر کوئی مذہبی ’’موقف‘‘ باقی ہی نہیں رہ سکتا، کیونکہ رائے عامہ کے عفریت کی مرغوب غذا خود موقف ہی ہے۔ اس مقصد کے لیے آج کے عہد میں موقفوں کے نقارچی کسی بھی مشہور صحافی یا کسی عوامی دانشور (public intellectual)کی زندگی کا مطالعہ بہت مفید ہو سکتا ہے۔
ہمارے عہدِ شکست اور گلوبل آزادی اظہار میں کوئی دوٹوک اسلامی بات کہنا تو ایسی انتہا پسندی ہے جس پر ہمارے متجددین بھی کڑھتے اور بسا اوقات سیخ پا ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اسی ’’بیماری‘‘ کے سپیشلسٹ معالجین ہیں۔ دو ٹوک بات کہنے کا حق طاقتور کے پاس ہوتا ہے یا ان کے پاس جو خود کو اہلِ حق سمجھتے ہیں۔ جدید عہد کا تقاضا یہ ہے کہ دوٹوک اظہار صرف طاقتور کے لیے خاص ہو جائے۔ ایسی صورت حال میں رائے عامہ کی بجائے مذہبی شرائط پر کسی موقف کا دو ٹوک اظہار انتہاپسندی خیال کیا جاتا ہے۔ ہمارے لبرل دانشور اور مذہبی متجددین اس سے بہت اچھی طرح باخبر ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ لبرل اور متجدد مغرب کا ایجنٹ ہے، کیونکہ اگر وہ ہوتا تو میں ضرور خدا کا شکر کرتا کہ کچھ نہ کچھ خود آگہی سے بہرہ مند تو ہے۔ کارِ خود آگہی ایجنٹی کو بھی شامل ہے۔ وہ تو بیچارہ تھوتھا چنا ہے، جو مغربی ثقافت کے زور پر چلتی رائے عامہ کی ہواؤں میں اس وقت بہت گھنا بجتا ہے جب اسلام کا نام لیا جائے۔ لیکن مارے اعتدال پسندی کے اس تھوتھے پن کو وہ اپنا بانکپن ہی شمار کرتا ہے۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۳ جون ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply