جب سے وفاقی حکومت نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تب سے دُنیا کی نظریں فاٹا پر جم گئی ہیں۔ کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جس کی پسماندگی کی کوکھ سے جنم لے کر نوجوان دہشت گرد بن رہے تھے اور دہشت گردی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اس علاقے کو تمام ملک دُشمن عناصر اور بھارت سمیت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لیے ان کی پسماندگی کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے تھے۔
مگر پاکستان کو پُرامن بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ اس علاقے کو غربت کی دلدل سے نکالا جائے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ لیکن دیکھنے میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے کوئی انجانا سا خوف، کوئی ایسی طاقت جو پاکستان کے اس حصے میں تسلسل کے ساتھ بہتری کی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے سے روک رہی ہے۔ مگر میں ایک بات واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ اگر صورتحال جوں کی تُوں رہی اور فاٹا کی بہتری کے لیے جلد عمل درآمد نہ کیا گیا تو خیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں انتشار بڑھ سکتا ہے۔
فاٹا میں غربت، پسماندگی اور ناخواندگی، آج کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ تینوں مسائل انگریزوں کے دورِ غلامی میں سامنے آئے، جن پر آج تک قابو نہیں پایا جاسکا۔ اسی چیز کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہر دور میں اس کم پڑھے لکھے طبقہ کو استعمال کیا گیا۔ اس علاقے کو قیامِ پاکستان سے پہلے انگریزوں نے، اور قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے سیاستدانوں نے نظرانداز کیا۔
انگریزوں نے فاٹا میں اپنے مفادات کی خاطر جمہوری نظام نافذ نہیں ہونے دیا اور تب سے ہی فاٹا میں جمہوری نظام کے بجائے قبائلی نظام کو ہی فروغ دیا گیا اور انتظامی ڈھانچے میں قبائلی عمائدین کو ہی اہمیت دی گئی۔ اب فاٹا میں لوگ قبائلی نظام کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی دوسرا نظام نافذ کرنا اتنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سات دہائیوں کے گزر جانے کے بعد بھی ہم فاٹا میں مضبوط سیاسی و سماجی ڈھانچا قائم نہ کر سکے۔
اس خطے میں کبھی بھی سیاسی استحکام قائم نہ ہو سکا۔ یہاں سرحدوں کے تعین کے لیے انگریزوں نے افغانستان سے ۱۸۳۴ء میں جنگ لڑی۔ ان دو جنگوں کے نتیجے میں برطانوی حکومت نے اپنا کنٹرول مضبوط کیا۔ اُن دنوں روس بھی جوائنٹ باؤنڈری کمیشن پر متفق ہوگیا۔ روس۔افغان باؤنڈری کمیشن نے ۱۸۹۵ء اور برطانیہ کے ساتھ مذاکرات ۱۸۹۳ء سے ۱۸۹۵ء تک ہوئے۔ اس دوران برطانوی حکومت نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں ایجنسیاں قائم کیں۔ ۱۸۷۸ء میں خیبر ایجنسی، ۱۸۹۲ء میں کرم ایجنسی اور ۱۸۹۶ء میں مالاکنڈ، وانا اور ٹوچی قائم کیں۔ ان ایجنسیوں کے قائم کرنے کا مقصد درحقیقت ان علاقوں میں اپنے اثر و رسوخ کو مضبوط کرنا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ وہاں نہ تو ترقیاتی کام کیے جاسکے اور نہ ہی سڑکیں بنانے پر توجہ دی گئی۔ یہ صورتحال قبائل کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان سے فاٹا کے قبائلی علاقوں تک زمینی رسائی آسان نہیں، اور وہاں کا مواصلاتی نظام بھی انتہائی کمزور ہے۔ سڑکوں کی ضرورت کو بھی کسی نے محسوس نہیں کیا۔ مگر وہاں کے قبائلی عادی ہیں۔ وہ پہاڑوں کے بیچ و بیچ ہر طرف باآسانی چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر یہ سب اُن کے لیے تو آسان ہے مگر عام آدمی دیکھ کر دہل سا جاتا ہے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ فاٹا کو ہر دور میں بالکل بے آسرا چھوڑ دیا گیا اور کبھی اصلاحات لانے کے لیے اگر کوشش بھی کی گئیں، تو وہ بھی ادھوری ہی رہیں اور ہر بار ناکامی کا ہی منہ دیکھنا پڑا۔ انسدادِ دہشت گردی کے لیے آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کا دائرہ فاٹا تک وسیع کیا گیا، لیکن لمبی سرحدوں کے باعث بیرونِ ملک آمد و رفت کو روکنا آسان نہیں تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس وقت پاکستان کا ۱۱۸؍ارب ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ ۴۵ ہزار سول اور پاک آرمی کے جوان شہید ہو چُکے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے فاٹا میں اصلاحات سرکاری حلقوں میں زیر بحث ہیں اور ارکان اسمبلی بھی اپنی اپنی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔ ۲۰۰۲ء میں لوکل باڈیز سسٹم اور ۲۰۰۴ء میں پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے ہر قبائلی ایجنسی میں ایجنسی کونسل بنانے کی تجاویز سامنے آئیں، مگر ان پر عمل نہ ہوسکا۔ ۲۰۱۲ء میں دوبارہ لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ کرنے کی کوشش کی گئی، تب بھی ناکامی ہی مقدر بنی اور فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔
اب فاٹا میں اصلاحات لانے کے لیے ۵ سالہ عبوری دور کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ اس عرصے میں فاٹا کو مکمل طور پر کے پی کے میں ضم کرکے ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دینا ہے۔ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے لیے ۹۰؍ارب روپے مختص کیے گئے۔ ان ۹۰؍ارب میں تقریباً ۳۰؍ارب روپے بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کرنے کے بارے میں بھی سوچا گیا ہے۔
فاٹا ڈویلپمنٹ کمیٹی اس وقت ۴۰ کروڑ روپے تک کے پروجیکٹ منظور کر سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے لیے جو اربوں روپیہ مختص کیا ہے، کیا واقعی وہ فاٹا کی حالتِ زار میں بہتری لانے کے لیے خرچ کیا جائے گا یا پھر وہ پیسہ بھی انہی حکمرانوں کی عیش و عشرت پر یا سوئس بینکوں کی شان ہی نہ بن جائے۔ اور اگر دوبارہ سے ایسا کچھ ہو گا تو فاٹا کی اصلاحات کی فائلیں دوبارہ الماریوں میں گرد تلے نہ دب جائیں۔
Leave a Reply