کسی بھی ریاست کی اِس سے بڑی ناکامی کوئی نہیں ہوسکتی کہ اس کے باشندے مستقل خوف کی زد میں رہیں۔ بھارت میں ان لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو عشروں سے شدید خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ جب تک بھارتی معاشرے کو عدم مساوات، نا انصافی اور بد حالی کے شکنجے سے نکالنے میں کامیابی حاصل نہیں ہو جاتی، معیشتی طاقت یا عالمی سفارت کاری کا بڑا کھلاڑی بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
اجمل قصاب کی پھانسی کا معاملہ ہمیں صاف بتا رہا ہے کہ بھارتی شہریوں کے مسائل کچھ اور ہیں جنہیں حل کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک مسلمان نوجوان نے فیس بک پر یہ پیغام چھوڑا کہ اجمل قصاب کو پھانسی دے کر حکومت نے اپوزیشن کی چند جماعتوں کا منہ بند کرنے اور ان کا سیاسی قد گھٹانے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجمل قصاب کو پھانسی کے تختے پر لٹکانے سے بھارت بھر میں کوئی پتّا تک نہیں ہلا اور پاکستان میں بھی کچھ خاص ردعمل دکھائی نہیں دیا۔ فرید کوٹ میں (جہاں اجمل قصاب کی سکونت کا گمان کیا جاتا ہے) لوگ اس معاملے میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیے۔ میڈیا کے نمائندے فرید کوٹ پہنچے تو لوگوں نے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
بھارت میں اب بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ سزائے موت ہونی چاہیے یا نہیں۔ حکومت نے عقل مندی کا ثبوت دیا کہ اجمل قصاب کو پھانسی دینے سے قبل میڈیا کو خبردار نہیں کیا۔ اگر میڈیا والوں کو اجمل قصاب کی پھانسی کا پیشگی علم ہوتا تو وہ معاملے کو اس قدر سنسنی خیز بناتے کہ پوری قوم شدید خلجان میں مبتلا ہو جاتی۔ یہ ممکن تھا کہ معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا۔
انتہا پسند لیڈر بال ٹھاکرے کے انتقال پر ممبئی کو بند کرنے پر دو لڑکیوں نے فیس بک پر تبصرہ کرکے مشکلات کو دعوت دے دی۔ انہیں گرفتار کرکے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جس نے انہیں جیل بھیج دیا۔ یہ بات بہت حیرت انگیز تھی۔ بعد میں لڑکیوں کو چھوڑ دیا گیا اور انہیں گرفتار کرنے والے پولیس اہلکاروں اور جیل بھیجنے والے جج کے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دیا گیا۔ دونوں پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے اور اب جج کے خلاف بھی کارروائی متوقع ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک سیاسی رہنما کو قومی ہیرو کا درجہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟ مین اسٹریم میڈیا نے بال ٹھاکرے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے معاملے میں شائستگی کی تمام حدیں پار کرلیں۔ کسی نے یہ نہیں بتایا کہ بال ٹھاکرے نے کس ڈھنگ سے سیاست کی اور یہ کہ وہ جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے مداح تھے! میڈیا نے کچھ ایسا ماحول پیدا کیا کہ بال ٹھاکرے کے انتقال کے بعد کی صورت حال پر تبصرہ کرنے والی لڑکیوں کے خلاف کارروائی کرنا مہا راشٹر پولیس کے لیے لازم ہوگیا۔ دونوں لڑکیوں پر فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلانے کا الزام عائد کردیا گیا مگر کسی نے شیو سینا کے کارکنوں کے خلاف کچھ نہیں لکھا، جنہوں نے کھل کر دھمکی دی تھی کہ وہ بال ٹھاکرے کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کریں گے اور متعلقہ شخص کی پٹائی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
فیس بک پر بال ٹھاکرے کے خلاف رائے دینے والوں کے خلاف جو کارروائی کی گئی، اس سے پوری قوم کو یہ پیغام مل گیا کہ کسی بھی معاملے میں کوئی رائے دینے سے یکسر گریز کیا جائے کیونکہ سوشل میڈیا کو حکومت اچھی طرح مانیٹر کر رہی ہے اور کسی کو بھی اختلافِ رائے کی اجازت نہیں دے گی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عوام کے دباؤ پر دونوں لڑکیوں کو چھوڑ تو دیا گیا مگر مقدمات اب تک ختم نہیں کیے گئے۔ انہیں ہر ہفتے عدالت میں پیش ہونا پڑے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ بال ٹھاکرے کے معاملے میں حکمراں کانگریس کچھ زیادہ ہی عقیدت مندی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ شیو سینا کے کارکن تو ڈسپلن کی حد میں رہے مگر حکومت نے بال ٹھاکرے کو ریاستی سطح پر خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کسی بھی ریاست کو حقیقی مستحکم اور خوش حال اُسی وقت قرار دیا جاسکتا ہے، جب لوگ کسی بھی نوع کے خوف کے بغیر، سکون سے جی رہے ہوں۔ اگر کسی بھی سطح پر خوف پایا جاتا ہو تو اِسے ریاست کی ناکامی ہی قرار دیا جائے گا۔ بھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو مستقل خوف کے سائے میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ حکومت تمام شہریوں کو بے خوف ہوکر زندگی بسر کرنے کے لیے لازم سمجھا جانے والا ماحول فراہم کرنے میں اب تک ناکام رہی ہے۔ معاشرے کو مستحکم کرنے کے لیے اسے خوف سے پاک کرنا، ناانصافی ختم کرنا اور حقیقی مساوات یقینی بنانا لازم ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کو اس کا احساس نہیں۔
گرفتاری، حملے یا تشدد کا خوف لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ عالی شان بنگلوں میں رہنے والوں کو عوام کی مشکلات کا کم ہی اندازہ ہے۔
معاملہ صرف بھارت تک محدود نہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں کسی نہ کسی طرح سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ ملک بھر میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ لوگ اپنے بنیادی حقوق کے لیے خود کو اذیت دینے سے بھی باز نہیں آتے۔ اپنے حقوق سے محروم ماہی گیروں نے کئی دن تک پانی میں کھڑے رہ کر احتجاج کیا۔ اس دوران ان کے پاؤں سوج گئے۔ آبی جانوروں نے اُنہیں کاٹا مگر انہوں نے برداشت کیا۔ ریاست بظاہر شہریوں کے لیے محبت کے جذبے سے محروم ہوگئی ہے۔ ممبئی میں دو لڑکیوں کو بال ٹھاکرے کے خلاف تبصرہ پوسٹ کرنے پر جس کارروائی کا سامنا کرنا پڑا، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو پوری قوت سے کچلنا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جب تک اچھی خاصی تعداد میں لوگ حکومتی اقدامات پر احتجاج نہ کریں اور منہ توڑ جواب دینے کی کوشش نہ کریں تب تک حکومت اپنے فکر و عمل پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرے گی۔
سیاست دانوں اور عوام کے درمیان رابطہ بظاہر ختم ہوچکا ہے۔ سیاست دانوں کو عوام کی آرزوؤں، امنگوِِں، مسائل اور مشکلات کا کچھ اندازہ نہیں اور وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے تیار بھی نہیں۔ اہل سیاست اور عوام کی تقسیم اس حقیقت سے زیادہ واضح ہوتی ہے کہ حکومت جبر ڈھانے کے لیے تیار رہتی ہے اور عوام انصاف کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
حالات پر نظر رکھنے والوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ اہلِ ثروت کس طرح طاقت کے مراکز یعنی سیاسی و ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں اور میڈیا بھی ان کا ہم نوا ہوکر اپنا حصہ بٹورنے کی کوشش میں جُتا رہتا ہے۔ یہ سب مل کر ایک دوسرے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف عوام ہیں جن کے مسائل حل ہونے کی بظاہر کوئی سبیل نہیں۔ انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کوئی بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے اور اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ لینے کو تیار نہیں۔ جن کے چور اور جعل ساز ہونے میں کوئی شک نہیں، اُن کے جنازوں میں سیاست دان، صنعت کار، فلم اسٹار اور میڈیا کے نمائندے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور جن پر ظلم ڈھایا گیا ہو ان کی داد رسی کے لیے کوئی آواز نہیں اُٹھتی۔
(“Fear Creeps Into Lines of Indian Citizens”… “Dawn”. Nov. 24th, 2012)
Leave a Reply