سیلاب: پانی تو جا رہا ہے، مگر۔۔۔۔۔

سیلاب نے پاکستان کو جس تباہی سے دوچار کیا ہے اس کی مثال ملک کی تاریخ میں تو خیر ملتی ہی نہیں، خطے میں کم ہی ملے گی۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی مون سون کی بارش کے زمانے میں سیلاب آیا کرتے ہیں مگر ان کا دائرہ اس قدر وسیع نہیں ہوا کرتا۔ پاکستان میں تقریباً بیس فیصد اراضی ڈوب گئی اور فصلوں کے تلف ہونے کی صورت میں ملک کی معیشت کو پہنچنے والا نقصان ۱۰۰؍ارب روپے سے زیادہ ہے۔

جب سیلابی ریلے آئے تو لوگوں کو سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملا اور ان کا سبھی کچھ بہہ گیا۔ ذخیرہ کی ہوئی خوراک، مویشی، بیج، کھاد، زرعی آلات، گھریلو سامان اور خدا جانے کیا کیا سیلاب کی نذر ہوا۔ اب کسانوں کو بحالی کے چیلنج کا سامنا ہے۔ سیلابی پانی اتر رہا ہے۔ کئی علاقوں میں پانی اترنے کے بعد کی صورت حال نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہے۔ بیشتر سیلاب زدہ علاقوں میں شدید تعفن کے باعث مکھی، مچھر اور دیگر کیڑے مکوڑے پیدا ہوگئے ہیں۔ کھیتوں کی صفائی ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ کام تیزی سے کرنا ضروری ہے کیونکہ گندم کی نئی فصل کی بوائی کا وقت آیا چاہتا ہے۔ چند ہفتوں میں بوائی کا سیزن شروع ہوگا۔ مگر کسانوں کے پاس بیج ہیں نہ کھاد۔ کیڑے مار ادویہ کا بھی فقدان ہے۔ اگر بوائی بر وقت شروع نہ ہوئی تو فصل داؤ پر لگ جائے گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کسی نے رواں سیزن میں گندم نہ بوئی تو آئندہ سیزن کے لیے اس کے پاس بیج نہیں ہوں گے۔ اگلی فصل کے لیے پھر اسے مئی ۲۰۱۲ء تک انتظار کرنا پڑے گا۔

پنجاب اور سندھ کے بہت سے علاقوں میں خوراک کے ذاتی ذخائر بہہ جانے سے اب خوراک کا بحران بھی پیدا ہوگا۔ دو سال سے گندم کی اچھی فصل ہوئی ہے اور ویسے خوراک کے بحران کا خطرہ نہیں تاہم لوگوں کی قوت خرید بھی تو شدید متاثر ہوئی ہے۔ دیہات کے لوگ سال بھر کی خوراک ذخیرہ کرکے رکھتے ہیں۔ اب انہیں سب کچھ خریدنا پڑے گا۔

دریائے سندھ کے بائیں جانب کے علاقے سیلاب سے محفوظ رہے۔ دائیں جانب کے علاقوں میں پیداوار کم و بیش ۳۰فیصد تک متاثر ہوسکتی ہے۔ ان علاقوں میں بھی بحالی بنیادی چیلنج ہے۔ لوگوں کو رہائشی سہولت درکار ہے۔ حکومت اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے ملنے والی امداد ہی پر ان کا مدار ہے۔

حکومت اور اقوام متحدہ کے ابتدائی تخمینوں کے مطابق ملک بھر میں سیلاب سے ۸۹لاکھ ایکڑ پر چاول، مکئی، گنے اور کپاس کی فصل تلف ہوگئی۔ سیلابی ریلے ۱۲ لاکھ مویشیوں کی موت کا باعث بنے۔ ۶۰لاکھ سے زائد مرغیاں تلف ہوگئیں۔ آب پاشی کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہے۔ کسانوں کے زرعی آلات بھی سیلاب کی نذر ہوئے۔ سیلابی پانی سے بعض مقامات پر زمین خاصی زرخیز ہوگئی ہے اور اگلی فصل بہت اچھی ہوگی، تاہم مجموعی طور پر سیلابی مٹی سے کھیتوں کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی کھیتوں کو اگلی فصل کے لیے تیار کرنے کی خاطر ہنگامی امداد فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

سیلاب نے بیشتر کھیتوں کی حدود کا نام و نشان تک مٹادیا۔ حد بندی کا مسئلہ بھی فوری حل طلب ہے۔ اگر کھیتوں کی حد بندی نہ ہوسکی تو بوائی بھی بروقت نہ ہوسکے گی۔ پنجاب اور سندھ میں مخصوص دیہی کلچر کے باعث حد بندی بھی تنازعات کو جنم دیتی ہے۔ اگر سیلاب کے متاثرین اس مسئلے کو بروقت حل کرنے میں ناکام رہے تو ان کی مشکلات دوچند ہو جائیں گی۔

سیلاب سے تباہی کا شکار ہونے والے بیشتر علاقوں میں چھوٹے کسانوں کے لیے بحالی ایک بھیانک خواب کی مانند ہے کیونکہ ان کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں اور کھانے کے لیے خوراک نہیں۔ ایسے میں اگر وہ اپنے معاملات کو درست کرنے میں ناکام رہے تو دو تین سال تک ان کے مسائل ختم نہیں ہوسکیں گے۔ پنجاب کی حکومت نے کسانوں کو نئی فصل کے لیے کھاد، بیج، کیڑے مار ادویہ اور آلات وغیرہ فراہم کرنے کا یقین دلایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ سہولت امداد کی صورت میں ہوگی، قرض کی شکل میں نہیں۔ سندھ کے حوالے سے ایسی کوئی ٹھوس تجویز اب تک سامنے نہیں آئی۔

سیلاب کی تباہ کاری کی زد میں آنے والوں کے زندگی ایک بڑے المیے میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ معیشت کا حال پہلے ہی خاصا برا تھا۔ سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں پہلے ہی اچھی خاصی تھیں۔ اب ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی واقعی زندگی کا سب سے بڑا درد سر ہو جائے گا۔ حکومت کے پاس اس قدر وسائل نہیں کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے تمام افراد کے لیے طویل مدت تک کچھ کرسکے۔ بیرونی امداد کی بھی بہر حال ایک حد ہے۔ اگر اس دوران کہیں اور کوئی بڑی قدرتی آفت آگئی تو عالمی برادری کی توجہ اس طرف ہو جائے گی۔ ترقی یافتہ ممالک امداد کے وعدے بہت کرتے ہیں مگر جب ان وعدوں پر عمل کا وقت آتا ہے تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگتے ہیں۔ حکومت کو ہر قسم کی صورت حال کے لیے نفسیاتی طور پر تیار رہنا پڑے گا۔

(بشکریہ: ’’ایسوسی ایٹیڈ پریس‘‘۔ ۵ ستمبر ۲۰۱۰ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*