قرضوں کی دلدل میں دھنستا پاکستان
Posted on October 1, 2010 by Alex Rodriguez in شمارہ یکم اکتوبر 2010 // 0 Comments

سیلاب نے پاکستان کی زوال پذیر معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔ معاشی بحالی کا کام پہلے ہی خاصا دشوار تھا، اب تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ سیلاب نے معیشت کے لیے ساتھ ساتھ معاشرت کے حوالے سے مشکلات دو چند کردی ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے تمام اثاثے لٹ جانے کے باعث شدید نفسیاتی الجھنوں سے دوچار ہیں۔ ان کی دل جوئی کے لیے کم ہی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ غیر معمولی تباہی کا باعث بننے والے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی میں امداد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مشوروں کی بھی اہمیت ہے۔ بے گھر ہوکر شدید پریشانی کے عالم میں زندگی بسر کرنے والوں کو اس وقت دو وقت کی روٹی کے ساتھ ساتھ دلاسوں اور نرم الفاظ کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان پر قرضوں کا بوجھ پہلے ہی ۵۵ ارب ڈالر ہے۔ سیلاب کی لائی ہوئی تباہی نے اس بوجھ کو بڑھا دیا ہے۔ بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹیں بڑھتی جارہی ہیں۔ دیہی علاقوں کی حالت بہت خراب ہے۔ گندم کی فصل کے لیے کھیتوں کو بروقت تیار کرنا بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر بات نہیں بنے گی۔
پاکستان کی ٹیکس بنیاد بہت محدود ہے۔ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے تاکہ قومی خزانے میں کچھ جائے اور حکومت کے لیے بہتر ڈھنگ سے کام کرنا ممکن ہو۔ ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اگر حکومت مکمل مالیاتی ناکامی سے بچنا چاہتی ہے تو گندم کی فصل کو بچانا ہوگا۔ ملک کا ایک تہائی زرعی رقبہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے یا سیلاب کی لائی ہوئی مٹی کے باعث جوتے جانے کے قابل نہیں۔ اگر گندم کی بوائی بر وقت اور بڑے پیمانے پر نہ ہو پائی تو ۲۰۱۱ء میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگی۔ دیہی علاقوں کی بحالی بڑا چیلنج ہے۔ ۷۰ فیصد سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں۔ ۱۰ ہزار اسکول اور ۵۰۰ اسپتال تباہ ہوئے ہیں یا انہیں غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔
کروڑوں پاکستانی سیلاب سے قبل بھی شدید معاشی مشکلات سے دوچار تھے۔ سیلاب نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی ہے۔ اب وہ بے گھر ہیں اور خوراک سے بھی محروم ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت اگر لوگوں کو ان کے علاقوں میں بروقت دوبارہ آباد کرنے میں ناکام رہی تو شدید انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی اور ملک بھر میں نراجیت پھیلنے کا خدشہ ہے۔ حکومتی اداروں کی ساکھ پہلے ہی بہتر نہیں۔ بہت سے علاقوں میں حکمرانی کا معیار پست ہے۔ یہ صورت حال مزید خرابیوں کو راہ دے رہی ہے۔
سابق وزیر تجارت اور لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ماہر ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ خانہ جنگی کا خطرہ ٹَلا نہیں۔ اگر حکومت نے لوگوں کو کی آباد کاری میں تساہل برتا تو حکومتی رٹ مزید کمزور ہوسکتی ہے اور نراجیت پھیل سکتی ہے۔ تین سال سے افراطِ زر میں اضافے کی شرح ہوش ربا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ شدید مشتعل ہوسکتے ہیں جو سیلاب کی تباہ کاری کے باعث گھروں سے محروم ہوگئے، بیروزگار بھی ہیں اور دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
سیلاب کی تباہ کاری کو لوگوں نے اب تک مجموعی طور پر خاموشی سے سہا ہے۔ امداد، خوراک اور صاف پانی مطلوبہ مقدار میں میسر نہیں ہوسکا مگر اس کے باوجود لوگوں نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش سے گریز کیا ہے۔ طویل المیعاد بیروزگاری اور غیر معمولی مہنگائی سیلاب زدگان کو شدید مشتعل کرسکتی ہے۔ اگر لوگوں کو بنیادی مسائل حل کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور وہ مرنے مارنے پر تُل جائیں گے۔
امریکا اور یورپ کے بڑے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کا مستحکم رہنا ناگزیر ہے۔ خطے میں عسکریت پسندی پر قابو پانے کے حوالے سے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ القاعدہ اور طالبان کو کنٹرول کرنے کے نام پر پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد ملی ہے۔ امریکا نے تعمیر نو کے لیے پاکستان کو ساڑھے سات ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے۔ یہ پیکیج بجلی اور پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے تھا تاہم اب اس میں سے سیلاب زدگان کی مدد بھی شامل کی جارہی ہے۔ پاکستان کو مزید امداد کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معاشی نمو کا معاملہ بھی خطرے میں پڑگیا ہے۔ آئندہ برس معاشی نمو کی رفتار ۵ء۴ فیصد رہنے کا امکان تھا مگر اب یہ شرح ۵ء۲ فیصد سے زیادہ ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ افراطِ زر میں اضافے کی شرح ۲۰۱۱ء کے دوران ۲۰ فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کہہ چکے ہیں کہ دو ماہ بعد حکومت کے پاس ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے فنڈز بھی نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ معیشت مسلسل زوال سے دوچار ہے۔
حکومت کے لیے بحالی کا ٹاسک بہت بڑا درد سر ہے۔ زرعی شعبہ ورک فورس کے ۴۳ فیصد حصے کو روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ سیلاب نے آبپاشی کے نظام کو ۲۰ فیصد کی حد تک ناکارہ بنادیا ہے۔ لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے۔ اربوں ڈالر مالیت کی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ کھیتوں کو آئندہ فصل کے لیے تیار کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ اگر گندم کی فصل اگائی نہ جاسکی تو کسان سال بھر آمدنی سے محروم رہیں گے۔
ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ کیمپوں میں مقیم ہیں وہ دیہات میں اپنے مکانات کی تعمیر نو تک واپس جانے کی پوزیشن میں نہیں۔ ایسے میں ان کے پاس صرف شہری علاقوں کے کیمپوں میں مقیم رہنے ہی کا آپشن رہ گیا ہے۔ دیہات میں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے باعث بھی لوگ شہروں میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔ اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بڑے شہروں میں قدرے آسان ہے۔ اگر ایسا ہوا تو شہروں پر دباؤ بڑھے گا۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کی آبادی کو کنٹرول کرنا ویسے ہی ایک مسئلہ ہے۔ متاثرین نے شہروں میں مستقل قیام کیا تو معاشرتی مسائل بھی پیدا ہوں گے۔ کراچی کے حوالے سے صورت حال ویسے ہی خاصی کشیدہ ہوچلی ہے۔ کئی علاقے راتوں رات فلیش پوائنٹ میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔
حکومت کے لیے صورت حال غیر معمولی طور پر پیچیدہ ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے دو سال قبل جب صدر کا منصب سنبھالا تھا تب معیشت خاصی خراب حالت میں تھی۔ عالمگیر معاشی بحران کے باعث پاکستان کے لیے مشکلات دوچند ہوگئی تھیں۔ نومبر ۲۰۰۸ء میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے لیے ۷ ارب ۶۰ کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا۔ بعد میں اس پیکیج کی مالیت ۱۱ ارب ۳۰ کروڑ ڈالر کردی گئی۔ امداد نما قرض کے ساتھ چند ایک شرائط بھی نتھی کی گئی ہیں۔ مثلاً حکومت کے لیے لازم کردیا گیا ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔ اس کے لیے ٹیکس نیٹ کی توسیع کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی ساؤتھ ایشین پروجیکٹ ڈائریکٹر ثمینہ احمد کہتی ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے عائد کی جانے والی شرائط ہی اس بات کا تعین کریں گی کہ پاکستان کی حکومت سیلاب زدگان کی بحالی کا ٹاسک عمدگی سے مکمل کرسکے گی یا نہیں۔ آئی ایم ایف نے ۱۵ ستمبر کو ایک اعشاریہ دو آٹھ فیصد کی شرح سود سے پاکستان کو مزید ۴۵ کروڑ ۱۰ لاکھ ڈالر کا قرضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان یہ سارے قرضے کس طرح اتارے گا؟ اگر نئے قرضے نرم ترین شرائط کے تحت دیئے جائیں تب بھی پاکستان کو پچھلے قرضے بھی ادا کرنے ہیں۔
(بشکریہ: ’’لاس اینجلس ٹائمز‘‘۔ ۱۹ ؍ستمبر۲۰۱۰ء)
Leave a comment