ریاستی ادارے قائم کرنے پر توجہ دے رہے ہیں!

فلسطینی اتھارٹی کے وزیر اعظم سلام فیاض نے صہیونیت کے بانیوں سے ایک سبق ضرور سیکھا ہے، یہ کہ پہلے ادارے قائم ہونے چاہئیں۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام سے قبل صہیونیت کے قائدین نے ادارے قائم کیے تھے۔ سلام فیاض بھی چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے لیے مضبوط ادارے قائم کردیے جائیں تاکہ وہ ۲ سال میں آزاد فلسطینی ریاست کا باضابطہ اعلان کرنے کے قابل ہوسکیں۔

نیوز ویک کی لیلیٰ ویمتھ نے رام اللہ میں سلام فیاض سے جو گفتگو کی اس کے اقتباسات ہم آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔


نیوز ویک: آپ دو سال میں ادارے قائم کرکے فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں؟

سلام فیاض: ہم نے ریاست کے بنیادی اور فعال ادارے قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اسی صورت زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتر حکمرانی ممکن بنائی جاسکے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ۲ سال میں ہم یہ کام کر لیں گے اور ہمیں یہ کام کرنا ہی چاہیے۔

نیوز ویک: کیا سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا اور مرکزی بینک کا قیام عمل میں لایا جائے گا؟

سلام فیاض: جو ادارے ہم قائم کرنا چاہتے ہیں ان کے تحت سبھی کچھ ہوگا۔ اس وقت ایک مالیاتی اتھارٹی موجود ہے جو بہت حد تک مرکزی بینک کی حیثیت رکھتی ہے۔ مالیاتی اتھارٹی نے صرف فلسطینیوں کا اعتماد حاصل نہیں کیا بلکہ وہ امداد دینے والے اداروں اور ممالک اور خاص طور پر امریکا کے اعتماد پر بھی پوری اُتری ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے کہ امریکا نے آڈیٹرز بھیجے جو ہمارے طریقِ کار کا جائزہ لے کر گئے اور پھر امریکی حکومت نے ہمارے خزانے میں براہ راست ۲۰ کروڑ ڈالر ڈال دیے۔

نیوز ویک: بہت سے لوگ آپ کا موازنہ ان صہیونیوں سے کرتے ہیں جنہوں نے اسرائیل قائم کیا تھا۔ کیا یہ موازنہ درست ہے؟

سلام فیاض: میں لوگوں سے کہتا رہتا ہوں کہ اسرائیل ۱۹۴۸ء میں قائم نہیں کیا گیا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں تو اس کے قیام کا صرف اعلان ہوا تھا۔ اسرائیل کو چلانے والے ادارے تو ۱۹۴۸ء سے پہلے بھی موجود تھے۔

نیوز ویک: میں جب اسرائیلیوں اور امریکیوں سے بات کرتی ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ (سلام فیاض) اچھے ٹیکنو کریٹ ہیں، اچھے سیاست دان نہیں ہیں۔ کیا آپ سیاستدان کی حیثیت اختیار کرنا چاہتے ہیں، سیاست کے میدان میں کوئی کارنامہ انجام دینے کی خواہش آپ کے دل میں ہے؟

سلام فیاض: آپ جانتی ہیں کہ میں نے گزشتہ انتخابات میں حصہ لیا تھا اور فلسطینیوں کے قانون ساز ادارے کا رکن منتخب ہوا تھا۔ بدقسمتی سے وہ قانون ساز ادارہ اب کام نہیں کر رہا۔ اس وقت میری بھرپور توجہ ریاستی ادارے قائم کرنے کے منصوبے پر مرکوز ہے۔ میں اس منصوبے کو ہر قیمت پر مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس تصور کو حقیقی اور عملی دنیا میں دیکھنا چاہتا ہوں۔

نیوز ویک: آپ کس حد تک اسرائیلی حکومت کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں؟

سلام فیاض: اسرائیلیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی مختلف سطحیں اور پرتیں ہیں۔ یومیہ بنیاد پر کھڑے ہونے والے معاملات کا ذکر کیجیے تو اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایسا باضابطہ تعلق نہیں۔ فلسطینی علاقوں کی سرحدوں اور داخلی راستوں کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے۔ آپ بھی یہاں تک پہنچی ہیں تو اسرائیل کی قائم کردہ چیک پوسٹ سے گزر کر پہنچی ہیں۔ اگر آپ پوچھیں کہ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں اس میں اسرائیلی حکومت کس حد تک تعاون کر رہی ہے تو جواب ملا جلا ہوگا۔ جو کچھ ہم کرنا چاہتے ہیں (یعنی جو ریاستی ادارے قائم کرنا چاہتے ہیں) اس کے لیے لازم ہے کہ ہمیں ایسا کرنے کے قابل ہونے دیا جائے۔

نیوز ویک: اسرائیلی غزہ سے نکلے، وہاں اپنی تمام بستیاں ختم کیں مگر اس کے بعد برسوں تک غزہ سے میزائل برسائے جاتے رہے۔ اب آپ اسرائیلیوں کو اس بات کی ضمانت کیسے دیں گے کہ دریائے ادرن کے مغربی کنارے سے ان کے انخلا کے بعد بھی سیکورٹی کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا؟

سلام فیاض: سیکورٹی جس حد تک اسرائیلیوں کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے اسی قدر ہمارے لیے بھی اہم ہے۔ غزہ میں سیکورٹی کا مسئلہ برقرار ہے تاہم یہاں (غرب اردن) میں ایسا کوئی بحران نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہم غرب اردن میں ہیں، غزہ میں نہیں۔

نیوز ویک: غزہ پر اسرائیلی بمباری سے متعلق اقوام متحدہ کی گولڈ اسٹون رپورٹ نے اسرائیل کو برہم کردیا ہے۔ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ آپ نے درون خانہ ان سے کہا تھا کہ غزہ سے حماس کو نکالنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اب فلسطینی اتھارٹی اس رپورٹ کو سلامتی کونسل میں لے جانے پر زور دے رہی ہے۔

سلام فیاض: اسرائیلی میڈیا میں ایسی رپورٹس آرہی ہیں کہ حماس پر بمباری کا مشورہ فلسطینی اتھارٹی نے دیا تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیلیوں سے خفیہ طور پر کچھ نہیں کہا تھا۔ اسرائیل نے کب فلسطینی عوام کی ایماء پر جنگ کی ہے؟

نیوز ویک: گولڈ اسٹون رپورٹ کے سلامتی کونسل میں لے جائے جانے سے امن عمل متاثر نہیں ہوگا؟ سلامتی کونسل میں اس رپورٹ کے پیش کیے جانے کے بعد اسرائیلی حکومت فلسطینی اتھارٹی سے مذاکرات کرے گی؟

سلام فیاض: میں نے اس سلسلے میں اسرائیلی حکام سے بات کی ہے۔ اگر امن عمل کا مقصد امن کا قیام ہے تو پھر سب کے لیے حقیقی اور پائیدار امن ہونا چاہیے۔

نیوز ویک: اگر ایسا ہے تو یاسر عرفات ۲۰۰۰ء میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک کی جانب سے امن کی پیشکش قبول کرسکتے تھے! ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی ہمیشہ ڈیل مسترد کرتے رہے ہیں؟

سلام فیاض: معاملہ کچھ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہم فلسطینیوں کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاملات کچھ یوں انجام کو پہنچتے ہیں کہ ہم خود کو کسی کونے میں پاتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ قصور وار ہم ہی ہیں۔ جب امریکی ایلچی سینیٹر جارج مچل نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ مزید یہودی بستیاں تعمیر نہ کرے تو وہ دراصل فلسطینی اتھارٹی ہی کا مطالبہ پیش کر رہے تھے۔

نیوز ویک: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باراک اوباما امریکی صدر کی حیثیت سے جارج واکر بش سے بہتر ہیں؟

سلام فیاض: میں اس بات سے زیادہ متاثر ہوا ہوں کہ صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ میں امن عمل کو اپنی ترجیحات میں نمایاں مقام دیا۔

(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲ نومبر ۲۰۰۹ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*