’’حلال‘‘ گوشت کی سَنَد کون جاری کرے؟

امریکی حکومت ایسے ہر معاملے سے دور رہنا چاہتی ہے، جو مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ شاید ریاست ہائے متحدہ امریکا کے اساسی اصولوں میں سے ہے۔ شاید اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکی ریاست منیسوٹا (Minnesota) میں ۳۱جنوری ۲۰۱۳ء کو ایک فیڈرل کورٹ جج نے امریکا میں گوشت کے ایک بڑے برانڈ ’’ہبریو نیشنل‘‘ کے خلاف مقدمہ خارج کردیا۔ درخواست گزار نے ’’ہبریو نیشنل‘‘ کے اس دعوے کو چیلنج کیا تھا کہ اس کا ہاٹ ڈاگ یہودیت کے بیان کردہ بنیادی اصولوں کی رُو سے مکمل حلال ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ہبریو نیشنل نے جس ہاٹ ڈاگ کو حلال قرار دیا ہے وہ مکمل طور پر حلال نہیں۔ جج کا موقف یہ تھا کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی رُو سے یہ پورا معاملہ عدالت کے دائرۂ کار میں آتا ہی نہیں۔ تصدیقی اتھارٹی ’’ٹرائنگل کے‘‘ اور یہودی علما کو اب اس حوالے سے خود ہی کچھ کرنا ہوگا جبکہ غیر مطمئن خریدار کسی اور برانڈ کی طرف متوجہ ہوں گے۔

چند ہی مغربی ممالک حلال گوشت کے حوالے سے قوانین اور قواعد رکھتے ہیں۔ حفظانِ صحت کے اُصولوں کا البتہ غیر معمولی حد تک خیال رکھا جاتا ہے۔ حکومتیں حلال کے معاملے میں نجی اداروں کی کارکردگی پر انحصار کو ترجیح دیتی ہیں۔ اگر لوگوں کو اندازہ ہو جائے کہ جن اشیا کو وہ حلال سمجھ کر خریدتے رہے ہیں، وہ حلال نہیں، تو اسے خریدنا ترک کرکے کچھ اور خریدنے لگتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ جو کچھ مذہبی اعتبار سے حلال نہ ہو وہ بھی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق تو ہوتا ہے، اس لیے حکومت دخل اندازی نہیں کرتی۔ اگر حکومت کسی معاملے میں مداخلت کرتی بھی ہے تو صرف اُس وقت، جب صارف کی حق تلفی روکنی ہو یا حفظانِ صحت کے اُصولوں کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔ حلال گوشت کے معاملے میں مغربی حکومتیں اس لیے کچھ کرنے سے گریز کرتی ہیں کہ یہ خالصاً مذہبی معاملہ ہے۔ مغربی معاشروں میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور حلال اشیا کی طلب میں غیر معمولی اضافے کے باعث اب حکومتوں کے لیے لاتعلق رہنا خاصا دشوار ہوگیا ہے۔

امریکا نے حلال گوشت کے معاملے کو مختلف ادوار میں سنجیدگی سے لیا ہے۔ ۵۰ میں سے ۲۲؍ امریکی ریاستوں میں ایک صدی کے دوران ’کوشر‘ یعنی یہودیت کے اصولوں کی رُو سے حلال گوشت کے بارے میں قوانین وضع کیے گئے ہیں اور قواعد پر عمل کیا گیا ہے۔ یہودیوں کے لیے مارکیٹ میں جو گوشت حلال کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، وہ مکمل حلال نہیں ہوتا۔ نیویارک نے ۱۹۱۵ء میں ایک بل پیش کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مارکیٹ میں جو گوشت کوشر قرار دیتے ہوئے پیش کیا جاتا ہے، اس کے معاملے میں یہودی ربّیوں کا مطمئن ہونا لازم ہے۔ مگر حالیہ بیس برسوں کے دوران نیو یارک، نیو جرسی، میری لینڈ اور جارجیا میں کوشر کے حوالے سے وضع کیے جانے والے قوانین اور اُصولوں کو غیر آئینی قرار دینے کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ نیو جرسی میں اداروں کے لیے صرف یہ دستاویزی ثبوت پیش کرنا کافی ہوتا ہے کہ ان کا متعارف کرایا ہوا گوشت حلال ہے۔

حلال گوشت کی تصدیق کے لیے بھی کئی ادارے مارکیٹ میں آچکے ہیں۔ پانچ بڑے ادارے اس وقت دنیا بھر میں حلال گوشت کے لیے تصدیق کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ امریکا میں کوشر فراہم کرنے والے ادارے تصدیق کے لیے متعلقہ سخت اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ذبح کیے جانے والے جانور میں ایسی کوئی بھی بیماری نہ ہو جو گوشت کو حلال کے رتبے سے گرادے۔

اس معاملے میں واحد استثنیٰ ہبریو نیشنل ہے۔ یہ رائے البینی لا اسکول کے ٹموتھی لیٹن کی ہے، جنہوں نے یہودیوں کے لیے حلال گوشت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔ ہبریو نیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے ہمیشہ یہودیوں کو حلال گوشت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف تصدیقی ادارے ’ٹرائنگل کے‘ سے وابستہ ایک ربّی کا کہنا ہے کہ یہودیوں کو فراہم کیا جانے والا حلال گوشت ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ دیگر مذاہب کے وہ پیروکار بھی استعمال کریں، جو حلال گوشت کھانا چاہتے ہیں۔ ٹموتھی لیٹن کا کہنا ہے کہ حکومت کے مقابلے میں نجی ادارے اس حوالے سے بہتر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کوشر کے تصدیقی ادارے بزنس کی دنیا میں مات نہیں کھانا چاہتے کیونکہ امریکا میں کوشر یعنی یہودیوں کے لیے حلال گوشت کی مارکیٹ ۱۲؍ ارب ڈالر کی ہے۔

اسرائیل میں معاملہ یکسر مختلف ہے۔ وہاں حکومت خود اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ لوگوں کو حلال گوشت ملے اور اس معاملے میں مرکزی اتھارٹی بھی بنا رکھی ہے، جو حلال گوشت کی تصدیق کرنے والا واحد اور قابلِ قبول ادارہ ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل میں عام یہودی حکومت کی طرف سے تصدیقی نظام کو بہتر اور کافی نہیں سمجھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملات ادھورے سے ہیں اور نجی اداروں کو بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس صورت میں اخراجات بڑھنے کا خدشہ ہے یعنی حلال گوشت خاصا مہنگا ہوسکتا ہے۔

حلال گوشت کا حصول یقینی بنانے کے معاملے میں مسلمانوں کے مقابلے میں یہودی زیادہ سخت، بلکہ غیر لچکدار اصولوں کے حامل ہیں۔ وہ اس بات کو ہر اعتبار سے یقینی بناتے ہیں کہ ذبح کیے جانے سے قبل جانوروں کو بے ہوش نہ کیا جائے اور جھٹکا بھی نہ کیا جائے۔ بعض ممالک میں ایسے قواعد اطلاق پذیر ہیں جن کے ہوتے ہوئے بعض حرام اجزا بھی حلال اشیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ برطانیہ میں حال ہی میں مسلم قیدیوں کو ایسی اشیا کھانے کو دی گئیں، جن میں خنزیر کی چربی اور گوشت کے اجزا بھی شامل تھے۔ یہ اشیا حلال فوڈ اتھارٹی کی طرف سے منظور کردہ تھیں۔

برطانیہ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقے لندن کے بورو آف ٹاور ہیملیٹس میں مسلمانوں کے لیے پنجابی کھانوں کے ریسٹورنٹ طیّبز (Tayyabs) کے مالکان تصدیق وغیرہ کا زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سپلائرز کو جانتے ہیں اور ان پر پورا بھروسا رکھتے ہیں۔ کسی چھوٹے ریسٹورنٹ کے معاملے میں تو ایسا ہوسکتا ہے مگر امریکی ریاست مشی گن میں حال ہی میں مکڈونلڈ اور اس کے ایک فرنچائز کو اس الزام کے حوالے سے ہرجانے کی مد میں سات لاکھ ڈالر ادا کرنے پڑے کہ اس نے بے بنیاد طور پر یہ تشہیر کی تھی کہ اس کی پروڈکٹس حلال اشیا سے متعلق تمام اسلامی ضوابط کے معیارات پر پوری اترتی ہیں۔

دنیا بھر میں حلال فوڈ کی مارکیٹ ۷۰۰؍ارب ڈالر کی ہے۔ اب یہ تصور گردش کر رہا ہے کہ اس سلسلے میں ایک مرکزی تصدیقی ادارہ قائم کیا جائے۔ مسلم حکومتیں اس معاملے میں تعاون کے لیے تیار ہیں کیونکہ مذہبی معاملات میں معاونت کو وہ اپنا فریضہ تصور کرتی ہیں۔ ملائیشیا میں اسلامی شعائر سے متعلق ادارہ جاکم حلال فوڈ کی فراہمی کے حوالے سے اپناکردار ادا کر رہا ہے۔ حلال لیبل کے غلط استعمال پر قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔ برونائی کی سلطنت کو ’’برونائی حلال برانڈ‘‘ پر فخر ہے۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں حلال فوڈ کی تصدیق کے عمل میں مرکزی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس صورت میں برازیل جیسے ممالک کو خاصی مدد ملے گی جو مسلم ممالک کو حلال گوشت فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔

حلال کا معاملہ صرف کھانے پینے کی اشیا تک محدود نہیں۔ مسلم ممالک کے ایک ارب ساٹھ کروڑ لوگ چاہتے ہیں کہ میک اپ کی اشیا اور ادویہ بھی حرام اجزا سے پاک ہوں۔ ویب سائٹ پر یہ خبر گرم ہے کہ پولینڈ نے حلال نیل پالش متعارف کرائی ہے۔

(“Food and Religion: A Meaty Question”… “The Economist”. Feb. 9th, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*