قرآن کی بے حرمتی

گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن مجید اور اسلامی مقدسات کی بے حرمتی اور توہین کے خلاف افغانستان میں گذشتہ دنوں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اطلاعات کے مطابق ان مظاہروں کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی‘ جس کے دوران درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے۔ اس سلسلے میں جمعہ کے روز بھی پورے افغانستان میں نماز کے بعد امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف وسیع پیمانے پر مظاہرے کیے گئے‘ جن میں مظاہرین نے امریکا کے خلاف نعرے لگائے اور قرآن کریم کی بے حرمتی کے ذمہ دار امریکی فوجیوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ افغانستان میں امریکا مخالف مظاہروں کا سلسلہ دس مئی کو اس وقت شروع ہوا جب امریکی جریدے ’’نیوز ویک‘‘ نے اپنی اشاعت میں لکھا کہ گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوج کے تفتیشی افسروں نے مسلمان قیدیوں پر نفسیاتی دبائو ڈالنے کے لیے قرآن کریم کے نسخوں کی بے حرمتی اور توہین کی۔ امریکی فوجیوں کی طرف سے اسلامی مقدسات کی توہین کے خلاف عالمِ اسلام کے احتجاج میں اضافے کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس سمیت بعض دیگر امریکی حکام نے وعدہ کیا ہے کہ اگر ان واقعات میں صداقت ہوئی تو ذمہ دار افراد کے خلاف ضروری کارروائی کی جائے گی لیکن امریکی حکام کے ان بیانات سے نہ صرف احتجاج میں کمی نہیں آئی ہے بلکہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیلتا جارہا ہے۔ کیونکہ احتجاج کرنے والے امریکی حکام کے ان بیانات کو مسلمانوں کے غصے اور نفرت کو کم کرنے کے لیے ایک حربہ سمجھتے اور وہ امریکیوں کو جھوٹا بھی جانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسلام کی مخالفت اور اسلامی مقدسات کی توہین ایسی پالیسی ہے جس پر گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد سے بعض امریکی حکمران اور ذرائع ابلاغ عمل پیرا ہیں۔ اس بنا پر گوانتا ناموبے جیل میں قیدیوں پر تشدد اور اسلامی مقدسات کی توہین‘ ایک سوچا سمجھا اقدام سمجھا جارہا ہے کہ جس سے امریکی حکام باخبر ہیں۔ افغانستان کے عوام نے گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران امریکیوں کی رفتار و گفتار اور قول و فعل میں تضاد اور جھوٹ کو قریب سے دیکھا ہے۔ اسلام اور اسلامی مقدسات کی توہین اور مغربی اقدار کو فروغ دینے کے سلسلے میں منصوبہ بند سازشوں کے علاوہ افغانستان کے عوام نے اپنے ملک میں امریکیوں کے انسانیت سوز اقدامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کی توہین کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے امریکی وعدے افغان عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں کیونکہ افغانستان کے عوام دیکھ چکے ہیں کہ افغانستان کی عدالتوں میں کابل کی خصوصی جیل میں امریکی فوجیوں اور ان کے پٹھوئوں کے جرم ثابت ہونے کے باوجود امریکی حکام نے کس طرح ان مجرموں کی سزا میں کمی کرنے اور انہیں بچانے کے لیے کوشش کی تھی۔

گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی پر پوری دنیا میں مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے۔ پاکستان‘ ایران‘ اردن‘ مصر‘ لبنان اور دیگر ممالک کے عوام نے زبردست مظاہرے کر کے اس توہین آمیز اقدامات کی مذمت کی ہے۔ سی این این اور الجزیرہ جیسے ٹی وی چینلوں نے بھی مختلف ملکوں کے مسلمانوں کے احتجاج کو کوریج دینے کے ساتھ ہی اس واقعے پر تبصرہ کیا ہے۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب کی توہین پر وسیع پیمانے پر ہونے والے احتجاج کا جاری رہنا اس نکتے پر تاکید ہے کہ ’’نیوز ویک‘‘ مجلے کی جانب سے جس نے اس بے حرمتی سے متعلق رپورٹ پہلی بار شائع کی ہے‘ تسلیم کر لینے سے عالمِ اسلام کا احتجاج رکنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے کہ اسے تشہیراتی حکمتِ عملی کے قالب میں ختم سمجھا جائے۔ اس مسئلے کو صحافتی غلطی یا ایک شخص کے ذاتی اقدام سے تعبیر کر دینے سے مسئلے کی حقیقت و ماہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ کیونکہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی توہین اور مسلمانوں کو دہشت گردی کے مترادف ظاہر کرنا پوری طرح سوجی سمجھی سیاسی چال ہے‘ جو گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ اقدام کے بعد بش کی تقریر سے‘ جس میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے بہانے مسلمانوں کے ساتھ صلیبی جنگ شروع کرنے کی بات کی تھی‘ واضح ہو گئی۔ کیونکہ گوانتاناموبے جیل میں جو واقعہ پیش آیا ہے اسے ذاتی حیثیت کا یا خود سرانہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں گوانتاناموبے کا مسئلہ ذاتی اقدام یا قیدیوں سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی سے بڑھ کر ہے۔ اس بات کے مستحکم دلائل موجود ہیں کہ یہ اقدام اسلام دشمنی پر مسلمانوں کے ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے امریکا اور عالمی صیہونزم کے ذریعے کرایا گیا ہے۔

مسجد الاقصیٰ میں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین بعض یورپی ملکوں کی درسی کتابوں اور تاریخِ اسلام میں تحریف‘ سلمان رشدی جیسے افراد کو سامنے لانا‘ فرانس میں اسلامی حجاب پر پابندی اور اسلام مخالف جذبات ابھارنا اس عمل کا ایک حصہ ہے۔ اسی بنا پر یہ اقدامات اور عراق کی ابوغریب جیل اور افغانستان کی جیلوں میں اس جیسے دوسرے اقدامات کی جڑیں عالمِ اسلام پر امریکا کے تسلط پسندانہ مقاصد میں پیوست ہیں۔ اس توہین آمیز اقدام پر مسلمانوں کے وسیع ردِعمل کا جاری رہنا اسلامی بیداری اور عالمِ اسلام کے خلاف امریکی سازشوں سے آگاہی کی علامت ہے۔

(بحوالہ آئی آر آئی بی ڈاٹ کام)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*