لسانی امتیاز اور تفریق، معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے!

میں جب لمز یونیورسٹی میں جسٹس صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کچھ طلبہ و طالبات بیٹھے تھے اور باہمی گفتگو جاری تھی۔ کمرے کا ظاہری ماحول انتہائی خوشگوار تھا اور باطنی ماحول انتہائی صوفیانہ۔ طلبہ و طالبات جب چلے گئے تو میں نے خواجہ صاحب سے بات کچھ اس انداز سے شروع کی۔

سوال: مجھے بہت خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ نوجوان نسل آپ کے تجربات و مشاہدات سے فیض یاب ہو رہی ہے، میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ قومی زبان اردو کے بارے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے؟

جواب: ایسا نہیں ہے کہ میں یہاں بیٹھا ہوں اور علم و فضل کے چشمے بہا رہا ہوں اور اس سے لوگ سیراب ہو رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے، میں بھی ہر ملاقات میں اتنا ہی سیکھتا ہوں جتنا کوئی مجھ سے سیکھتا ہے۔

موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ۱۷؍سال بطور جج میرا تجربہ رہا ہے، اس دوران ڈھائی سال لمز میں بھی مَیں نے گزارے۔ ۲۰۰۷ء کو جب لاہور ہائی کورٹ سے میں نے استعفیٰ دیا تو اس کے بعد لمز والوں نے مجھے لمز میں آنے کا کہا تھا، تب میں شعبہ قانون کا سربراہ بنا، اس بار سماجی علوم میں آنے کا کہا تو میں آگیا۔

میں تجربے کی بنیاد پر آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ لسانی امتیاز اور تفریق ہمارے معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔ یہ تفریق کس قسم کی ہے؟ اس حوالے سے کچھ واقعات میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں:

پاکستان میں شاید ایک یا ڈیڑھ فیصد لوگ ہوں گے، جو انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں، لمز میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہاں ۹۸ فیصد انگریزی سے واقف ہیں۔ اس حوالے سے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے ہمارا آئین، جس کی چند ایک مندرجات کچھ اس طرح سے ہیں۔

ہمارے آئین میں یہ لکھا ہے کہ ’’پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان اردو ہے اور یہ آئین کے نفاذ کے پندرہ سال کے اندر ملک میں رائج ہو جانی چاہیے‘‘۔ ۱۹۷۳ء میں اس آئین کا نفاذ ہوا اور ۱۹۸۸ء سے اب تک کا طویل دورانیہ تیس برس پر محیط ہے اور صورتحال یہ ہے کہ آج تک آئین کی اس شق کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا الیہ ہے اور اس کے بہت منفی نتائج ابھی ظاہر ہوں گے، جب میں آپ سے کچھ واقعات کا ذکر کروں گا۔

منفی نتائج یہ ہیں کہ آج یہاں اس تفریق کی وجہ سے انگریزی بولنے، جاننے والوں اور باقی لوگوں کے درمیان جو انگریزی بولنے، جاننے والے نہیں ہیں، ایک خلیج پیدا ہوگئی ہے اور یہ خلیج دن بہ دن بڑھ رہی ہے کم نہیں ہورہی۔ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ کلاس روم میں طلبہ سے جب اس موضوع پر بات ہوئی تو یہاں کے طلبہ نے کہا ’’یہ تجویز نہ دی جائے اچھا بھلا نظام چل رہا ہے‘‘۔

میں نے اور لمز کے پروفیسر باسط بلال کوشل صاحب نے لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ قاصد علی رحمٰن کو دعوت دی۔ وہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ وہ بارہا کتاب میں لکھتے رہے ہیں کہ میں اَن پڑھ ہوں۔ محض پانچویں پاس۔ کہاں سے؟ ایک دور افتادہ علاقے سے۔ کے پی کے مانسہرہ سے آگے پہاڑی پر چھ کلومیٹر پیدل مسافت طے کرکے ان کا گھر ہے۔ میں دو دفعہ ان کے گھر بھی گیا ہوں۔ انہیں ہم نے دعوت دی کہ وہ آکر طلبہ سے مخاطب ہوں۔ انہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور یہاں آکر طلبہ سے خطاب کیا۔ میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہاں جو طالب علم موجود تھے، علی رحمٰن ان سے کسی بھی طور ذہانت میں کم نہیں تھے۔

میں نے کمرہ جماعت میں موجود طلبہ و طالبات سے بعد میں پوچھا کہ آپ نے کیا محسوس کیا، تو انہوں نے وہی جواب دیا کہ وہ ذہانت میں کم نہیں تھے اور جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اَن پڑھ کہتے تھے وہ تھی زبان اور اس رکاوٹ کی وجہ سے ان کو لگتا تھا کہ وہ ان سب میں یعنی باقیوں سے کم تر ہیں۔ لہٰذا ہمارے ہاں ایک بڑا عجیب سا معیار طے ہو گیا ہے کہ ذہین وہ ہے جو ایک غیر ملکی زبان بول سکتا ہے اور جو اپنی زبان بولتا ہے وہ تو ذہین ہو ہی نہیں سکتا۔ آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں لکھا ہے کہ ’’ملک کی دفتری، سرکاری زبان اردو ہے‘‘۔

سوال: سر آپ یہ بتائیں گے کہ آئین کس زبان میں آیا تھا؟

جواب: اردو انگریزی دونوں زبانوں میں، بلکہ ۱۹۷۳ء میں بھی آئین کا مسودہ اردو اور انگریزی میں پیش کیا گیا اور بہت سے منتخب عوامی نمائندگان نے اس مسودے پر بحث اردو میں ہی کی تھی۔ ان میں قد آور سیاسی شخصیت مفتی محمودبھی شامل تھے، جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو عام انتخابات میں شکست دی تھی۔ جب آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ سرکاری زبان اردو ہوگی تو پھر اردو ہی ہوگی۔ اگر آئین چینی زبان میں بھی آجائے اور یہ کہہ دے کہ سرکاری زبان اردو ہے تو زبان اردو ہوگی، چینی نہیں ہو جائے گی۔ لہٰذا اب آرٹیکل ۵ بھی میں آپ کو پڑھ دوں۔

’’مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص کی جو فی الوقت پاکستان میں ہو، واجب التعمیل ذمہ داری ہے‘‘۔

’’دو‘‘ آرٹیکل واضح ہوگئے۔ آرٹیکل ۲۵۱ اور آرٹیکل ۵ کی رُو سے ’’ہمارا بطور شہری یہ فرض ہے کہ ہم آئین اور قانون کی پاسداری کریں‘‘۔ اب ہم آجاتے ہیں حلف کی طرف۔ جج صاحبان کا حلف، اس میں یہ تحریر ہے ’’میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہونے دوں گا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا‘‘۔

اب دو جمع دو چار ہیں۔ پاکستان کی سرکاری و دفتری زبان اردو ہے۔ آرٹیکل ۵ کہتا ہے ہمارا بطور شہری، ہمارا مطلب میرا، آپ کا، حکمرانوں کا، بیورو کریٹس کا، سیاستدانوں کا، اساتذہ کا، طلبہ و طالبات کا، صحافیوں کا، ججوں کا، ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا، عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا، امیر کا، غریب کا، بچوں کا، بوڑھوں کا، خواتین کا، مردوں کا، ہم سب کا۔

ہمارا بطور شہری یہ فرض ہے کہ ہم آئین اور قانون کی پاسداری کریں۔ حلف کیا کہتا ہے کہ میں آئین کی پاسداری کروں۔ میں اپنے تجربے اور مشاہدے سے بتا رہا ہوں کہ یہ تفریق ہمارے معاشرے میں بڑی دراڑیں پیدا کر رہی ہے، میں آپ کو دو تین واقعات سناتا ہوں۔

عدالت عظمیٰ کے ایک تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی میں کر رہا تھا، ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو فیصلہ دیا تھا۔ میں یہاں جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ زبان کا استعمال یا اس پر گرفت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ کلیسائی عدالتوں اور کیتھولک چرچ نے ایک زبان اپنائی یعنی ’’لاطینی زبان‘‘۔ لاطینی زبان سوائے ان کے جو راہب اور پادری تھے یا چند مخصوص لوگوں کے، سب کی سمجھ سے بالا تھی۔

گھوسٹ ہوم، منورادھا ہوم وہ جو پنڈت، شاستری زبان سمجھتے تھے انہوں نے سنسکرت میں قانون بنا دیا کہ کسی کو سمجھ نہ آئے کہ قانون ہے کیااور اُن کے حقوق کیا ہیں؟ میں فارسی کا بہت شیدائی ہوں۔ ہمارے ہاں مغل بادشاہ رہے، ہمارے ہاں بہت فارسی چلتی رہی، رنجیت سنگھ کی عدالت میں بھی فارسی میں کارروائی ہوتی اور چلتی تھی۔ فارسی بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، اب جس طرح ہمارے ہاں انگریزی۔ اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے ایسی زبان کا استعمال کرنا ایک پرانا اور آزمودہ نسخہ ہے۔ ایسی زبان کا استعمال کرو جو کسی کی سمجھ میں نہ آئے اور لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہی نہ ہوسکے۔

سوال: آپ نے اپنے فیصلے اردو میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھنے شروع کیے؟

جواب: علی رحمٰن نے جو کتاب لکھی ہے ’’عدالت عالیہ کے قاصد کی کہانی‘‘ اگر آپ کتاب میں سے ایک صفحہ، جملہ یا پیرا بھی پڑھ لیں تو آپ کو تعجب ہوگا، حیرت ہوگی کہ یہ اتنا ذہین آدمی پانچویں پاس ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میرے گاؤں میں اسکول ہی صرف پانچویں تک ہے۔ وہ ایسی چیز لکھ سکتا ہے، کیوں لکھ سکتا ہے؟ کیونکہ اُس کو اردو زبان کی سمجھ ہے۔ ایک تو یہ وجہ ہے جو میں نے اپنے فیصلے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے اردو زبان میں لکھنے شروع کیے۔

میں فیصلہ لکھتا تھا، علی رحمٰن پانچویں پاس کو کہتا تھا کہ ’’یار یہ پڑھو‘‘ پھر میں پوچھتا تھا کہ ’’پڑھ لیا؟؟‘‘

’’جی‘‘۔

’’سمجھ آئی؟‘‘

’’جی‘‘۔

عوام الناس جن کے حقوق کے لیے آئین و قانون ہے، ان کی شنوائی کوئی نہیں ہے۔

علی رحمٰن کا قصہ میں نے آپ کو سنایا، لمز کے حوالے سے ایک اور قصہ سناتا ہوں۔ یہ ۲۰۱۶ء کی بات ہے، اُن دنوں لمز میں آصف نام کا لڑکا کلاس روم اٹینڈنٹ تھا، یعنی اُس نے دیکھنا ہوتا تھا کہ کمرہ جماعت میں بورڈ صاف ہے، چاک ہے، ڈسٹر ہے، ملٹی میڈیا ٹھیک کام کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ پڑھا لکھا تھا۔ جنوری ۲۰۱۶ء میں جب میں نے لمز یونیورسٹی آنا شروع کیا تو آصف اور اس کے کچھ ہم منصب دوست مجھے دیکھتے ہی مؤدبانہ جھک کر سلام کیا کرتے، میں حیران ہوتا کہ یہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟ آصف کو ایک دو مہینوں بعد ہمت ہوئی۔ میرے پاس آکر کہنے لگا:

’’میں، میری ماں اور میرا استاد آپ کو بہت دعائیں دیتے ہیں‘‘۔

میں نے کہا کہ ’’وہ کیوں؟ میں توکبھی اُن سے ملا بھی نہیں‘‘۔

وہ کہنے لگا ’’جی واقعی نہیں ملے اور میری ہمت بھی نہیں ہوئی کہ آپ کے پاس آکر آپ سے بات کروں۔ ہاں دور سے میں آپ کو سلام کرتا تھا، مگر یہ سوچ کر میں آپ کے پاس نہیں آتا تھا کہ کہاں میں اور کہاں آپ‘‘۔

یہ وہی تفریق کی وجہ تھی جس کا میں آپ سے ذکر کر رہا ہوں۔

میں نے کہا ’’کیوں سارے مجھے دعائیں دے رہے ہیں؟‘‘

کہتا ہے ’’جی وہ آپ نے فیصلہ جو دیا ہے کہ اردو سرکاری زبان ہوگی‘‘۔

میں نے کہاکہ ’’تمہیں کیا فرق پڑا ہے؟ تم پہلے بھی کلاس روم اٹینڈنٹ تھے اور اب بھی‘‘۔

کہنے لگا ’’جی نہیں! پچھلے سال پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتی کا ایک اشتہار آیا تھا، میں نے بھی درخواست دے دی تھی وہ ایک ادارہ ہے جسے ’’این ٹی ایس‘‘ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کہتے ہیں۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے انگریزی میں ٹیسٹ دے دیے۔ مجھے تو انگریزی نہیں آتی لہٰذا میں فیل ہوگیا۔

اس سال پھر انہوں نے پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کی بھرتی کا اشتہار دیا ہے، میں نے پھر درخواست دے دی۔ اس دفعہ میرے ۷۶ فیصد نمبر آئے ہیں کیونکہ فیصلہ آنے کے بعد ٹیسٹ اردو میں لیے گئے تھے۔ اب میں پولیس میں بھرتی ہوگیا ہوں‘‘۔

میں یہ سوچتا ہوں کہ جب وہ ۳۵ سال بعد وہاں سے ریٹائر ہوگا تو شاید سب انسپکٹر بن کر ریٹائر ہو۔ اس ۳۵ سال کے عرصے میں شاید اس کو ایک دفعہ بھی انگریزی زبان استعمال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ یہ بات میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ یہ ہمارے ٹیلنٹ کا بہت بڑا زیاں ہے۔ کراچی میں میرا ایک بھانجا بہت بڑا وکیل ہے وہ کہتا ہے ’’ماموں جو فیصلہ آپ نے دیا ہے وہ اچھا اور بالکل صحیح ہے، لیکن مجھے تو نقصان ہوگا ناں! مجھے تو اردو نہیں آتی، میں تو انگریزی پڑھا ہوں، انگریزی اسکولوں میں‘‘۔

آئین کی پیروی کرنا ہمارا غیر مشروط فرض ہے تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس کا اطلاق اپنے اوپر کیوں نہیں کرتے؟ اور اس کے منفی نتائج جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔

۲۰۱۶ء میں اٹھارہ یا بیس ہزار لوگوں میں سے دو سو تین یا دو سو چار لوگوں نے ’’سی ایس ایس‘‘ کا امتحان پاس کیا ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان میں ۲۰ کروڑ لوگوں میں سے دو ہزار بھی ایسے نہیں ہیں جو امتحان پاس کرنے کے اہل ہوں۔ میں تو اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔ وہ فیل کس میں ہوتے ہیں؟ انگریزی میں، مگر ہوسکتا ہے وہ بہت زیادہ ذہین ہوں۔

سوال: آپ کا مطلب ہے کہ ہمیں انگریزی نہیں پڑھنی چاہیے؟

جواب: اس ساری بات کا قطعاً یہ مقصد نہیں کہ انگریزی کی اہمیت نہیں۔ بہت اہمیت ہے۔ میں ڈیڑھ دو سال پہلے چین سے ہو کر آیا ہوں۔ وہاں تقریبا ۳ء۱؍ارب لوگ بستے ہیں، میں سارا چین گھوما وہاں کوئی انگریزی بولتا ہی نہیں، انہیں انگریزی نہیں آتی۔ میں کوریا گیا جو اب بہت ترقی کر چکا ہے، کہتے ہیں کچھ سال پہلے کوریا پاکستان سے پیچھے تھا اور اب وہ کہاں… ہم کہاں؟ مجھے وہاں ایک بندہ نہیں ملا جو انگریزی بولتا ہو۔ میں چند دن وہاں رہا، حتیٰ کہ مجھے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ملا، انگریزی ’ندارد‘‘۔ پتا نہیں کیسے ترقی کر گیا ہے انگریزی کے بغیر؟ آپ جاپان، ایران، ترکی چلے جائیں۔ مجھے فارسی آتی ہے مگر ترکی نہیں آتی۔ ’’زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم‘‘ لیکن آپ کو نظر آرہا ہے کہ انہوں نے کتنی ترقی کی ہے۔ مصر میں عربی ہی بولی جاتی ہے، ان کے ہاں انجینئر نہیں۔ وہ مہندس ہیں مگر سڑکیں ٹھیک بنا رہے ہیں۔ ہم انگلش کامن لاء کا ذکر کرتے ہیں۔ ۱۷۳۱ء میں آج سے تین سو سال پہلے برٹش پارلیمنٹ نے ایک قانون بنا دیا کہ آج کے بعد سوائے انگریزی زبان کے عدالت میں کوئی زبان استعمال نہیں ہوگی۔ ۱۷۳۱ء سے پہلے وہاں کی عدالتی زبان فرنچ تھی، یہ لمحہ فکریہ ہے۔

یہاں لمز میں لاء اسکول کے ڈین جرمن ہیں مگر انگلینڈ میں سکونت اختیار کر چکے۔ میرے بہت اچھے اور پرانے دوست ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کی بوڑھی والدہ ہر پانچ سال بعد بازار جاتی اور بی جی بی خرید لاتی ہیں۔ بی جی بی جرمن قانون کی بہت موٹی کتاب ہے۔ اُن کو کسی قسم کی کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ قانون کی کتاب نکالتیں اور مطلوبہ صفحہ پڑھ کر سامنے والے سے کہتی ہیں ’’یہ میرا حق ہے اور تم مجھے میرے حق سے محروم نہیں کرسکتے‘‘۔

یہ کیا گھمن پھیریاں ہیں؟ یہ کیا چکر ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک کتاب بنائی جائے جسے کوئی معمولی پڑھا لکھا شخص پڑھے اور اُس کو پتا چل جائے کہ اس کے قانونی حقوق کیا ہیں؟ ہمارے ملک میں آئین کا عملی طور پر اطلاق نہیں ہے۔ یہاں پر آئین اور دستور کی حیثیت ہی کوئی نہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی دہشت گرد پکڑا جائے اور اسے کہا جائے کہ ’’بھئی تم کیوں آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کر رہے؟‘‘ تو اُس کا دفاع یہ ہو سکتا ہے کہ ’’کون سا آئین؟ مجھے آپ بتائیں، میں اردو پڑھ سکتا ہوں انگریزی نہیں‘‘۔

ایک دفعہ عدالت میں بیٹھے ہوئے ہم نے اپنے ریسرچر سے کہا ’’اینٹی ٹیررازم ایکٹ نکالو‘‘۔ اُس نے کمپیوٹر پر ڈھونڈنے کے بعد کہاکہ ’’کوئی ہے ہی نہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ نہ ہو‘‘۔ بہرحال اس نے بڑی مشکل سے ایک لنک ڈھونڈا اُس ایک لنک پر بھی کچھ نہیں تھا سوائے خالی پن کے۔

ہم نے سیکرٹری کو بلا کر پوچھا کہ ’’یہ کیا ہے‘‘ تو اُس نے کہا ’’جی ہم کردیں گے‘‘۔ ہمارا آئین و قانون ایسی زبان میں ہونا چاہیے جو پڑھنے والا سمجھ سکے۔ جرمن قانون کی کتاب بی جی بی میں لکھا ہوا ہے، ’’ہر شخص کو پتا ہونا چاہیے کہ وہ جو عمل کر رہا ہے اس کا خمیازہ کیا ہوگا‘‘۔ یہاں پر قانون ہی نہیں۔ کسی ویب سائٹ پر کچھ نہیں ہے تو کسی کو کیسے اپنے حقوق کا پتا چلے۔ لاعلم کو پراسیکیوٹ کرنا، اُس کے خلاف مقدمہ قائم کرنا بڑا ہی ظالمانہ کھیل ہے۔ میں نے اپنے فیصلے میں بابا فرید گنج شکر کا ایک قصہ لکھا ہے۔ آپ وہ فیصلہ پڑھیں گے تو اس میں پڑھ لیجیے گا۔ بابا صاحب کا قصہ حکمت سے بھرپور ہے۔

سابق چیف جسٹس کارنیلیس صاحب نے بھی ایک تقریر میں ذکر کیا، جو انہوں نے جولائی ۱۹۶۲ء میں کی۔ وہ پاکستان کے سب سے زیادہ طویل عرصے تک رہنے والے چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے کہاکہ قانونی اصطلاحات کے خلاف وہی لوگ معترض ہیں اور عذر پیش کرتے ہیں جو اس غیر تسلی بخش نظام سے اپنے اپنے مفادات اور اغراض و مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

میں اُن دنوں پاکستان کا چیف جسٹس تھا کہ ایک بندہ دور افتادہ علاقے سے، شاید میانوالی یا مظفرگڑھ کے کسی دیہات سے تعلق رکھتا تھا۔ دھوتی کرتا پہنے، پگ شگ سر پر رکھے ہاتھ میں نوٹس پکڑے ہوئے میرے سیکرٹری عبدالرحمٰن کے پاس آیا اور کہاکہ ’’چیف جسٹس صاحب بڑے لوگ ہیں، میں تو انہیں مل نہیں سکتا‘‘ (وہی خلیج والی بات) اُن کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ’’مجھے ۲۰ سال کی مقدمہ بازی میں پہلی دفعہ نوٹس اردو میں آیا ہے اور میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں مگر اس میں جو لکھا ہے میں نے وہ باآسانی پڑھ لیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ تمہارے مقدمے کی تاریخ یہ ہے اور فلاں بنچ میں مقدمہ لگا ہے۔ اس سے پہلے نوٹس انگریزی میں آتا تھا تب میں نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وکیل کے پاس جانا میری مجبوری بن گئی تھی اور پھر لکھا ہوا جاننے کے لیے اسے پیسے دینے پڑتے تھے، یہ ظلم ہے انصاف نہیں‘‘۔

حضرت علیؓ کا قول آپ نے سنا ہوگا، ہمارے لیے تو وہی مشعل راہ ہیں۔ انہوں نے ہمیں کچھ چیزیں سمجھائی ہیں، وہ کہتے ہیں ’’کفر پر نظام چل سکتا ہے ظلم پر نہیں چل سکتا‘‘۔ یہ مولا علیؓ کا قول ہے۔ زبانی طور پر تو شاید سارے ان کے قائل ہیں، اُن کے قول کا قائل مشکل سے ملتا ہے۔

(بحوالہ: ماہنامہ ’’اردو ڈائجسٹ‘‘۔ اکتوبر ۲۰۱۸ء)

1 Comment

  1. شہریوں کو اپنے حقوق سے آگہی کیلئے اردو کے نفاز کے ساتھ تعلیم اور شعور کی بھی ضرورت ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*